غزل
جو غم شناس ہو ایسی نظر تجھے بھی دے
یہ آسماں غمِ دیوار و در تجھے بھی دے
سخنِ گلاب کو کانٹوں میں تولنے والے خدا
خدا سلیقہ عرضِ ہنر تجھے بھی دے
خراشیں روز چنے اور دل گرفتہ نہ ہو
یہ ظرفِ آئینہ، آئینہ گر تجھے بھی دے
پر کہ چکی ہے مجھ کو یہ شبِ وعدہ
اب انتظار زدہ چشمِ تر ط بھی دے...
غزل
پہلو میں دل ہو اور ذہن میں زبان ہو
میں کیسے مان لوں کہ حقیقت بیان نہ ہو
میرے سکوتِ لب پر بھی الزام آگئے
میری طرح چمن میں کوئی بے زباں نہ ہو
سوز دل و گداز جگر معتبر نہیں
جب تک غمِ حبیب غمِ دو جہاں نہ ہو
ہم نے اپنے خوابوں سے جلائی تھیں مشعلیں
ہم سے تو اے نگارِ سحر بدگماں نہ ہو...
محسن بھوپالی
یُونہی تو شاخ سے پتے گِرا نہیں کرتے
بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
جو آنے والے ہیں موسم، اُنہیں شمار میں رکھ
جو دن گزر گئے، اُن کو گنا نہیں کرتے
نہ دیکھا جان کے اُس نے ، کوئی سبَب ہوگا
اِسی خیال سے ہم دل بُرا نہیں کرتے
وہ مل گیا ہے تو کیا قصۂ فِراق کہیں
خُوشی کے لمحوں کو...
سہمے سہمے چلتے پھرتے لاشے جیسے لوگ
وقت سے پہلے مر جاتے ہیں کتنے ایسے لوگ
سر پر چڑھ کر بول رہے ہیں پودے جیسے لوگ
پیڑ بنے خاموش کھڑے ہیں کیسے کیسے لوگ
چڑھتا سورج دیکھ کے خوش ہیں کون انہیں سمجھائے
تپتی دھوپ میں کملائیں گے غنچے جیسے لوگ
شب کے راج دلارو سوچو اپنا بھی انجام
شب کا کیا ہے کاٹ ہی...