You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly. You should upgrade or use an alternative browser.
Content tagged with Munir Niazi Poetry
Munir Ahmed Niazi, (Punjabi: منیر نیازی ) (9 April 1928– 26 December 2006) was an Punjabi and Urdu poet from Pakistan. He also wrote for newspapers, magazines and radio. In 1960, he established a publication institute, Al-Misal. He was later associated with Pakistan Television, Lahore and lived in Lahore till his death.
Mujhe khabar hai chupke chupke andhere uss ko nigal rahe hain
Mein uss ki raah mein dil ka diya jalata, woh mujhe batata...!
Muneer uss ne sitam hi kia shehar chora khamoshi se
Mein uss ki khatir yeh duniya chor jata,woh mujhe batata...!
@Recently Active Users
نئی محفل میں پہلی شناسائی
نئی جگہ تھی دور دور تک آخر پر دیواریں شب کی
کچھ یاروں نے برپا کر دی اک محفل کچھ اپنے ڈھب کی
اونچے در سے داخل ہو کر صاف نشیب میں بیٹھے جا کر
ایک مقام میں ہوئے اکٹھے رونق اور ویرانی آ کر
مرکز در سے جشن بپا تک سیر تھی شام مہر و وفا کی
خوشی تھی اس سے ملنے جیسی بے...
خدا کو اپنے ہم زاد کا انتظار
اداس ہے تو بہت خدایا
کوئی نہ تجھ کو سنانے آیا
وہ سر جو تیرے اجاڑ دل میں
چراغ بن کر چمک رہی ہے
کوئی نہ تجھ کو دکھانے آیا
عجیب حسن مہیب جیسی
خلش جو دل میں کھٹک رہی ہے
منیر نیازی
موت
ہر طرف خاموش گلیاں زرد رو گونگے مکیں
سونے سونے بام و در اور اجڑے اجڑے شہ نشیں
ممٹیوں پر ایک گہری خامشی سایہ فگن
رینگ کر چلتی ہوا کی بھی صدا آتی نہیں
اس سکوت بے کراں میں اک طلسمی نازنیں
سرخ گہرے سرخ لب اور چاند سی پیلی جبیں
آنکھ کے مبہم اشارے سے بلاتی ہے مجھے
ایک پر اسرار عشرت کا...
بے بسی
پھلجھڑی سسکی کی گہری رات میں چھوٹی نہیں
جوئے خوں کوہ سیہ کی آنکھ سے پھوٹی نہیں
خیمۂ غم کی طناب ریشمیں ٹوٹی نہیں
تیرگی کے راہزن نے دخت رز لوٹی نہیں
کشتئ دل بحر غم کی موج میں کھیتے رہو
اپنے ہی خوں کے چراغاں کے مزے لیتے رہو
عمر بھر شب کے اندھیرے کو سدا دیتے رہو
منیر نیازی
رات کی اذیت
رات بے حد چپ ہے اور اس کا اندھیرا شرمگیں
شام پڑتے ہی دمکتے تھے جو رنگوں کے نگیں
دور تک بھی اب کہیں ان کا نشاں ملتا نہیں
اب تو بڑھتا آئے گا گھنگھور بادل چاہ کا
اس میں بہتی آئے گی اک مدھ بھری میٹھی صدا
دل کے سونے شہر میں گونجے گا نغمہ چاہ کا
رات کے پردے میں چھپ کر خوں رلاتی...
جادو کا کھیل
رنگ برنگے شیشوں والی کھڑکی بند پڑی ہے اب
وہ لڑکی جو اس میں کھڑی لوگوں کو خواب دکھاتی تھی
کالی کالی راتوں میں ہونٹوں کی شمع جلاتی تھی
تیز نگاہوں کی بجلی سے سب کے ہوش اڑاتی تھی
دست حنائی کے شعلے سے چق میں آگ لگاتی تھی
اب وہ دلوں سے کھیلنے والی لڑکی تو ہے بیاہی گئی
سنتے ہیں وہ...
ملن کی رات
اے دوشیزہ! مت گھبرا
اب سورج ڈوبنے والا ہے
سورج ڈوب کے ایک اندھیری کالی رات کو لائے گا
لاکھوں ان ہونی باتوں کا میلہ دھیان میں لائے گا
پھر بادل گھر کر آئیں گے
گرج گرج کر چمک چمک کر تیرا جی دہلائیں گے
برکھا کے اس سناٹے میں مکٹ سجائے
اک متوالا آئے گا
ساتھ تجھے لے جائے گا
منیر نیازی
پاگل پن
اک پردہ کالی مخمل کا آنکھوں پر چھانے لگتا ہے
اک بھنور ہزاروں شکلوں کا دل کو دہلانے لگتا ہے
اک تیز حنائی خوشبو سے ہر سانس چمکنے لگتا ہے
اک پھول طلسمی رنگوں کا گلیوں میں دمکنے لگتا ہے
سانپوں سے بھرے اک جنگل کی آواز سنائی دیتی ہے
ہر اینٹ مکانوں کے چھجوں کی خون دکھائی دیتی ہے
منیر نیازی
دیکھنے والے کی الجھن
سورج میں جو چہرے دیکھے اب ہیں سپنے سمان
اور شعاعوں میں الجھی سی
گیلے گیلے ہونٹوں کی وہ نئی لال مسکان
جیسے کبھی نہ زندہ تھے یہ
چھوٹی چھوٹی اینٹوں والے ٹھنڈے برف مکان
کہاں گئی وہ شام ڈھلے کی
سرسر کرتی تیز ہوا کی دل پر کھچی کمان
اور سپنا جو نیند میں لایا
پوری ادھوری...