Islam Ka Nizam e Hayat By Maulana Syed Abul Ala Maududi (R.A)

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
اِسلام کا نظامِ حیات ۔۔۔۔۔ تحریر : مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

Islam.jpg

ہمدردی، رحم، فیاضی اور فراخ دلی کی ہمیشہ قدر کی گئی ہے۔ خود غرضی، سنگ دلی، بخل
اور تنگ نظری کو کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں ہوا۔ صبر و تحمل، اخلاق و بُردباری، اولوالعزمی و شجاعت ہمیشہ سے وہ اوصاف رہے ہیں جو داد کے مستحق سمجھے گئے

انسان کے اندر اخلاقی حِس ایک فطری حِس ہے جو بعض صفات کو پسند اور بعض دوسری صفات کو نا پسند کرتی ہے۔ یہ حس انفرادی طور پر اشخاص میں چاہے کم و بیش ہو مگر مجموعی طور پر انسانیت کے شعور نے اخلاق کے بعض اوصاف پر خوبی کا اور بعض پر بْرائی کا ہمیشہ یکساں حکم لگایا ہے، سچائی، انصاف‘ پاسِ عہد اور امانت کو ہمیشہ سے انسانی اخلاقیات میں تعریف کا مستحق سمجھا گیا ہے اور کبھی کوئی ایسا دَور نہیں گزرا جب جھوٹ، ظلم، بدعہدی اورخیانت کو پسند کیا گیا ہو۔ ہمدردی، رحم، فیاضی اور فراخ دلی کی ہمیشہ قدر کی گئی ہے، اور خود غرضی، سنگ دلی، بخل اور تنگ نظری کو کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں ہوا۔ صبر و تحمل، اخلاق و بْردباری، اولوالعزمی و شجاعت ہمیشہ سے وہ اوصاف رہے ہیں‘ جو داد کے مستحق سمجھے گئے اور بے صبری، چھچھورپن، تلوّن مزاجی‘ پست حوصلگی اور بْزدلی پر کبھی تحسین و آفرین کے پھول نہیں برسائے گئے۔ ضبطِ نفس، خودداری، شائستگی اور ملنساری کا شمار ہمیشہ سے خوبیوں ہی میں ہوتا رہا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بندگی نفس، کم ظرفی، بدتمیزی اور کج خلقی نے اخلاقی محاسن کی فہرست میں جگہ پائی ہو۔ فرض شناسی، وفا شعاری‘ مستعدی اور احساسِ ذِمّہ داری کی ہمیشہ عزت کی گئی ہے اور فرض ناشناس، بے وفا، کام چور اور غیر ذِمّہ دار لوگوں کو کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔

اسی طرح اجتماعی زندگی کے اچھے اور بْرے اوصاف کے معاملہ میں بھی انسانیت کا معاملہ تقریباً متفق علیہ ہی رہا ہے۔ قدر کی مستحق ہمیشہ وہی سوسائٹی رہی ہے جس میں نظم و انضباط ہو‘ تعاون اور امدادِ باہمی ہو، آپس کی محبت اور خیر خواہی ہو، اجتماعی انصاف اور معاشرتی مساوات ہو۔ تفرقہ، انتشار، بدنظمی، بے ضابطگی، نااتفاقی آپس کی بدخواہی، ظلم اور نا ہمواری کو اجتماعی زندگی کے محاسن میں کبھی شمار نہیں کیا گیا۔ مکار، متکبر، ریا کار، منافق، ہٹ دھرم اور حریص لوگ کبھی بھلے آدمیوں میں شمار نہیں کیے گئے۔ اس کے برعکس والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حْسنِ سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبرگیری، مریضوں کی تیمار داری اور مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت ہمیشہ نیکی سمجھی گئی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسانی اخلاقیات دراصل وہ عالم گیر حقیقتیں ہیں، جنہیں سب انسان جانتے چلے آ رہے ہیں۔ نیکی اور بدی کوئی چھپی ہوئی چیزیں نہیں ہیں کہ انہیں کہیں سے ڈھونڈ کر نکالنے کی ضرورت ہو۔ وہ تو انسان کی جانی پہچانی چیزیں ہیں، جن کاشعور آدمی کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اپنی زبان میں نیکی کو معروف اور بدی کو منکر کہتا ہے۔ یعنی نیکی وہ چیز ہے جسے سب انسان بھلا جانتے ہیں۔ اور منکر وہ ہے جسے کوئی خوبی اور بھلائی کی حیثیت سے نہیں جانتا۔

اخلاقی نظاموں میں اختلاف کیوں؟:

اب سوال یہ ہے کہ اگر اخلاق کی بُرائی اور بھلائی جانی اور پہچانی چیزیں ہیں اور دنیا ہمیشہ سے بعض صفات کے نیک اور بعض کے بد ہونے پر متفق رہی ہے، تو پھر دْنیا میں یہ مختلف اخلاقی نظام کیسے ہیں؟ ان کے درمیان فرق کس بنا پر ہے؟ کیا چیز ہے جس کے باعث ہم کہتے ہیں کہ اِسلام اپنا ایک مستقل اخلاقی نظام رکھتا ہے؟ اور اخلاق کے معاملہ میں آخر اِسلام کا وہ خاص عطیہ (Contribution) کیا ہے جسے اس کی امتیازی خصوصیت کہا جا سکے۔
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے جب ہم دْنیا کے مختلف اخلاقی نظاموں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پہلی نظر میں جو فرق ہمارے سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ مختلف اخلاقی صفات کو زندگی کے مجموعی نظام میں سمونے اور ان کی حد، ان کا مقام اور ان کا مصرف تجویز کرنے اور ان کے درمیان تناسب قائم کرنے میں یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

پھر زیادہ گہری نگاہ سے دیکھنے پر اس فرق کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ دراصل وہ اخلاقی حسن و قبح کا معیار تجویز کرنے اور خیر و شر کے علم کا ذریعہ متعین کرنے میں مختلف ہیں۔ اور ان کے درمیان اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ قانون کے پیچھے قوت نافذہ (Sanciton) کون سی ہے جس کے زور سے وہ جاری ہو اور وہ کیا محرکات ہیں، جو انسان کو اس قانون کی پابندی پر آمادہ کریں۔ لیکن جب ہم اس اختلاف کی کھوج لگاتے ہیں تو آخر کار یہ حقیقت ہم پر کھلتی ہے کہ وہ اصلی چیز جس نے ان سب اخلاقی نظاموں کے راستے الگ کر دیے ہیں، یہ ہے کہ ان کے درمیان کائنات کے تصور، کائنات کے اندر انسان کی حیثیت، اور انسانی زندگی کے مقصد میں اختلاف ہے اور اسی اختلاف نے جڑ سے لے کر شاخوں تک ان کی روح، ان کے مزاج اور ان کی شکل کو ایک دوسرے سے مختلف کر دیا ہے۔ انسان کی زندگی میں اصل فیصلہ کن سوالات یہ ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خدا ہے یا نہیں؟ ہے تو وہ ایک ہے یا بہت سے ہیں؟ جس کی خدائی مانی جائے اس کی صفات کیا ہیں؟ ہمارے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟

اس نے ہماری راہ نْمائی کا کوئی انتظام کیا ہے یا نہیں؟ ہم اس کے سامنے جواب دہ ہیں یا نہیں؟ جواب دہ ہیں تو کس چیز کی جواب دہی ہمیں کرنی ہے؟ اور ہماری زندگی کا مقصد اور انجام کیا ہے جسے پیشِ نظر رکھ کر ہم کام کریں؟ ان سوالات کا جواب جس نوعیت کا ہو گا۔ اسی کے مطابق نظامِ زندگی بنے گا اور اسی کے مناسبِ حال نظامِ اخلاق ہو گا۔
اس مختصر گفتگو میں میرے لیے یہ مشکل ہے کہ میں دنیا کے نظام ہائے حیات کا جائزہ لے کر یہ بتا سکوں کہ ان میں سے کس کس نے ان سوالات کا کیا جواب اختیار کیا ہے اور اس جواب نے اس کی شکل اور راستے کے تعین پر کیا اثر ڈالا ہے۔ میں صرف اِسلام کے متعلق عرض کروں گا کہ وہ ان سوالات کا کیا جواب اختیار کرتا ہے اور اس کی بنا پر کس مخصوص قسم کا نظامِ اخلاق وجود میں آیا ہے۔

اِسلام کا نظریہ زندگی و اخلاق:

اِسلام کا جواب یہ ہے کہ اس کائنات کا خدا ہے اور وہ ایک ہی خدا ہے۔ اُسی نے اسے پیدا کیا ہے، وہی اس کا لاشریک مالک، حاکم اور پروردگار ہے اور اسی کی اطاعت پر یہ سارا نظام چل رہا ہے۔ وہ حکیم ہے، قادرِ مطلق ہے، کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے، سبوح و قدوس ہے (یعنی عیب، خطا، کم زوری اور نقص سے پاک ہے) اور اس کی خدائی ایسے طریقے پر قائم ہے۔ جس میں لاگ لپیٹ اور ٹیڑھ نہیں ہے۔ انسان اس کا پیدائشی بندہ ہے اس کا کام یہی ہے کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت کرے۔ اس کی زندگی کیلئے کوئی صورت بجز اس کے صحیح نہیں ہے کہ وہ سراسر خدا کی بندگی ہو۔ اس بندگی کا طریقہ تجویز کرنا انسان کا اپنا کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کا وہ بندہ ہے۔ خدا نے اس کی راہ نمائی کیلئے پیغمبر بھیجے ہیں اور کتابیں نازل کی ہیں۔ انسان کا فرض ہے کہ اپنی زندگی کا نظام اسی سرچشمہ ہدایت سے اخذ کرے ۔

انسان اپنی زندگی کے پورے کارنامے کیلئے خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ اور یہ جواب دہی اسے اس دْنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں کرنی ہے۔ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی مہلت ہے اور یہاں انسان کی تمام سعی و کوشش اس مقصد پر مرکوز ہونی چاہیے کہ وہ آخرت کی جواب دہی میں اپنے خدا کے حضور کامیاب ہو۔ اس امتحان میں انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ شریک ہے۔ اس کی تمام قوتوں اور قابلیتوں کا امتحان ہے۔ زندگی کے ہر پہلو کا امتحان ہے، پوری کائنات میں جس جس چیز سے جیسا کچھ بھی اسے سابقہ پیش آتا ہے اس کی بے لاگ جانچ ہونی ہے کہ انسان نے اس کے ساتھ کیسا معاملہ کیا اور یہ جانچ وہ ہستی کرنے والی ہے جس نے زمین کے ذروں پر، ہوا پر اور پانی پر، کائناتی لہروں پر اور خود انسان کے اپنے دل و دماغ اور دست و پا پر اس کی حرکات و سکنات ہی کا نہیں‘ اس کے خیالات اور ارادوں تک کا ٹھیک ٹھیک ریکارڈ کر رکھا ہے۔

اخلاقی جدوجہد کا مقصود:۔

یہ ہے وہ جواب جو اِسلام نے زندگی کے بنیادی سوالات کا دیا ہے۔ یہ تصوّرِ کائنات و انسان اس اصلی اور انتہائی بھلائی کو متعین کر دیتا ہے، جسے پہچاننا انسانی سعی و عمل کا مقصود ہونا چاہیے اور وہ ہے خدا کی رضا۔ یہی وہ معیار ہے جس پر اِسلام کے اخلاقی نظام میں کسی طرزِ عمل کو پرکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ خیر ہے یا شر۔ اس کے تعین سے اخلاق کو وہ محور مل جاتا ہے جس کے گرد پوری اخلاقی زندگی گھومتی ہے۔ اور اس کی حالت بے لنگر کے جہاز کی سی نہیں رہتی کہ ہوا کے جھونکے اور موجوں کے تھپیڑے اسے ہر طرف دوڑاتے پھریں۔ یہ تعین ایک مرکزی مقصد سامنے رکھ دیتا ہے جس کے لحاظ سے زندگی میں تمام اخلاقی صفات کی مناسب حدیں، مناسب جگہیں اور مناسب عملی صورتیں مقرر ہو جاتی ہیں اور ہمیں وہ مستقل اخلاقی قدریں ہاتھ لگ جاتی ہیں جو تمام بدلتے ہوئے حالات میں اپنی جگہ ثابت و قائم رہ سکیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے مقصود قرار پا جانے سے اخلاق کو ایک بلند ترین غایت مل جاتی ہے جس کی بدولت اخلاقی ارتقا ء کے امکانات لا متناہی ہو سکتے ہیں اور کسی مرحلہ پر بھی اغراض پرستیوں کی آلائشیں اسے ملوث نہیں کر سکتیں۔

اخلاق کی پشت پر قوتِ نافذہ:۔

پھر اِسلام کے اسی تصوّرِ کائنات و انسان میں وہ قوتِ نافذہ بھی موجود ہے جس کا قانون اخلاق کی پْشت پر ہونا ضروری ہے اور وہ ہے خدا کا خوف، آخرت کی بازپْرس کا اندیشہ اور ابدی مستقبل کی خرابی کا خطرہ۔ اگرچہ اِسلام ایک ایسی طاقت ور رائے عام بھی تیار کرنا چاہتا ہے۔ جو اجتماعی زندگی میں اشخاص اور گروہوں کو اصولِ اخلاق کی پابندی پر مجبور کرنے والی ہو۔ اورایک ایسا سیاسی نظام بھی بنانا چاہتا ہے جس کا اقتدار اخلاقی قانون کو بزور نافذ کرے لیکن اس کا اصل اعتماد اس خارجی دبائو پر نہیں ہے بلکہ اس اندرونی دبائو پر ہے جو خدا اور آخرت کے عقیدے میں مضمر ہے۔ اخلاقی احکام دینے سے پہلے اِسلام آدمی کے دل میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ تیرا معاملہ دراصل اس خدا کے ساتھ ہے جو ہر وقت ہر جگہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو دْنیا بھر سے چھپ سکتا ہے مگر اُس سے نہیں چھپ سکتا۔ دْنیا بھر کو دھوکا دے سکتا ہے مگر اُسے نہیں دے سکتا۔ دنیا بھر سے بھاگ سکتا ہے مگر اْس کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔

دنیا محض تیرے ظاہر کو دیکھتی ہے۔ مگر وہ تیری نیتوں اور ارادوں تک کودیکھ لیتا ہے۔ دنیا کی تھوڑی سی زندگی میں تْو چاہے جو کچھ کرے، بہرحال ایک دن تجھے مرنا ہے اور اس عدالت میں حاضر ہونا ہے‘ جہاں وکالت، رشوت، سفارش، جھوٹی شہادت، دھوکا اور فریب کچھ نہ چل سکے گا، اور تیرے مستقبل کا بے لاگ فیصلہ ہو جائے گا۔ یہ عقیدہ بٹھا کر اِسلام گویا ہر آدمی کے دل میں پولیس کی ایک چوکی بٹھا دیتا ہے جو اندر سے اسے حکم کی تعمیل پر مجبور کرتی ہے، خواہ باہر ان احکام کی پابندی کرانے والی کوئی پولیس عدالت اور جیل موجود ہو یا نہ ہو۔ اِسلام کے قانونِ اخلاق کی پشت پر اصل زور یہی ہے جو اسے نافذ کراتا ہے۔ رائے عام اور حکومت کی طاقت اس کی تائید میں موجود ہو تو نور علی نور، ورنہ تنہا یہی ایمان مسلمان افراد، اور مسلمان قوم کو سیدھا چلا سکتا ہے، بشرطیکہ واقعی ایمان دلوں میں جاگزیں ہو۔
اِسلام کا یہ تصوّرِ کائنات انسان کو محرکات بھی فراہم کرتا ہے جو انسان کو قانونِ اخلاق کے مطابق عمل کرنے کیلئے اُبھارتے ہیں۔ انسان کا اس بات پر راضی ہو جانا کہ وہ خدا کو اپنا خدا مانے اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا طریقہ بنائے اور اس کی رضا کو اپنا مقصدِ زندگی ٹھہرائے، یہ اس بات کیلئے کافی محرک ہے کہ جو شخص احکامِ الٰہی کی اطاعت کرے گا اس کیلئے ابدی زندگی میں ایک شان دار مستقبل یقینی ہے۔ خواہ دْنیا کی اس عارضی زندگی میں اسے کتنی ہی مشکلات، نقصانات اور تکلیفوں سے دوچار ہونا پڑے اور اس کے برعکس جو یہاں سے خدا کی نافرمانیاں کرتا ہوا جائے گا اسے ابدی سزا بھگتنا پڑے گی، چاہے دْنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ کیسے ہی مزے لوٹ لے۔ یہ اُمید اور یہ خوف اگر کسی کے دل میں جاگزیں ہو تو اس کے دل میں اتنی زبردست قوت محرکہ موجود ہے کہ وہ ایسے مواقع پر بھی اسے نیکی پر اُبھار سکتی ہے جہاں نیکی کا نتیجہ دْنیا میں سخت نقصان دہ نکلتا نظر آتا ہو اور ان مواقع پر بھی بدی سے دور رکھ سکتی ہے جہاں بدی نہایت پرلطف اور نفع بخش ہو۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اِسلام اپنا تصوّرِ کائنات، اپنا معیارِ خیر و شر، اپنا ماخذ علمِ اخلاق، اپنی قوتِ نافذہ اور اپنی قوت محرکہ الگ رکھتا ہے اور انہی چیزوں کے ذریعہ سے معروف اخلاقیات کے مواد کو اپنی قدروں کے مطابق ترتیب دے کر زندگی کے تمام شعبوں میں جاری کرتا ہے۔ اسی بِنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اِسلام اپنا ایک مکمل اور مستقل بالذات اخلاقی نظام رکھتا ہے۔
اس نظام کی امتیازی خصوصیات یوں تو بہت سی ہیں۔ مگر ان میں 3 سب سے نمایاں ہیں جنہیں اس کا خاص عطیہ کہا جا سکتا ہے۔
پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی کو مقصود بنا کر اخلاق کیلئے ایک ایسا بلند معیار فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی ارتقا کے امکانات کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ ایک ماخذِ علم مقرر کر کے اخلاق کو وہ پائیداری اور استقلال بخشتا ہے جس میں ترقی کی گنجائش تو ہے مگر تلوّن اور نیرنگی کی گنجائش نہیں ہے۔ خوفِ خدا کے ذریعے سے اخلاق کو وہ قوت نافذہ دیتا ہے جو خارجی دبائو کے بغیر انسان کے اندر خود بخود قانونِ اخلاق پر عمل کرنے کی رغبت اور آمادگی پیدا کرتی ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ کی اْپَج سے کام لے کر کچھ نرالے اخلاقیات نہیں پیش کرتا اور نہ انسان کے معروف اخلاقیات میں سے بعض کو گھٹانے اور بعض کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انہی اخلاقیات کو لیتا ہے جو معروف ہیں اور ان میں سے چند کو نہیں بلکہ سب کو لیتا ہے۔ پھر زندگی میں پورے توازن اور تناسب کے ساتھ ایک ایک کا محل، مقام اور مصرف تجویز کرتا ہے اور ان کے انطباق کو اتنی وسعت دیتا ہے کہ انفرادی کردار، خانگی معاشرت، شہری زندگی ،ملکی سیاست، معاشی کاروبار، بازار، مدرسہ، عدالت پولیس لائن، چھائونی، میدانِ جنگ، صلح کانفرس، غرض زندگی کا کوئی پہلو، اور شعبہ ایسا نہیں رہ جاتا جو اخلاق کے ہمہ گیر اثر سے بچ جائے ہر جگہ، ہر شعبہ زندگی میں وہ اخلاق کو حکم ران بناتا ہے اور اس کی کوشش یہ ہے کہ معاملات زندگی کی باگیں خواہشات، اغراض اور مصلحتوں کے بجائے اخلاق کے ہاتھوں میں ہوں۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ انسانیت سے ایک ایسے نظامِ زندگی کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے جو معروف پر قائم اور منکر سے پاک ہو۔ اس کی دعوت یہ ہے کہ جن بھلائیوں کو انسانیت کے ضمیر نے ہمیشہ بھلا جانا ہے، آئو انہیں قائم کریں اور پروان چڑھائیں اور جن بُرائیوں کو انسانیت ہمیشہ سے بُرا سمجھتی چلی آئی ہے آئو انہیں دبائیں اور مٹائیں۔ اس دعوت پر جنہوں نے لبیک کہا انہی کو جمع کر کے اس نے ایک اْمّت بنائی جس کا نام ’’مْسلم‘‘ تھا۔ اور ان کے ایک اْمّت بنانے سے اس کی واحد غرض یہی تھی کہ وہ معروف کو جاری و قائم کرنے اور منکر کو دبانے اور مٹانے کیلئے منظم سعی کرے۔ اب اگر اسی اُمّت کے ہاتھوں معروف دبے اور منکر قائم ہونے لگے تو یہ ماتم کی جگہ ہے، خود اس اْمّت کیلئے بھی اور دنیا کیلئے بھی۔
(یہ تقریر 6۔جنوری 1948ء کو
ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)

 

@intelligent086
ماشاءاللہ
مودودی صاحب کا خوبصورت مضمون
شیئر کرنے کا شکریہ
 
Back
Top