Khuda Ke Liye Inquiry Na Kerwana By Sohail Ahmad Qaisar

خدا کیلئے انکوائری نہ کروانا ۔۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

دنیا بھر میں پٹرول کے فروخت کنندگان قطار اندر قطار ‘ خریداروں کی منتیں کررہے ہیں‘لیکن ہمارے یہاں ہمیشہ کی طرح اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یکم جون سے پٹرول کے نرخوں میں کمی کیا ہوئی کہ یہ جنس ہی ناپید ہوکر رہ گئی ہے۔اللہ اللہ کرکے ہمارے وزیراعظم صاحب نے بالآخر اس صورت ِحال کا بھی سخت نوٹس لے لیا ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں اُن کی طرف سے معصومانہ انداز میں استفسار کیا گیا‘‘ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ ہم نے پٹرول سستا کیا ہے تو پھر یہ غائب کیسے ہوگیا؟کچھ وزراء سے سخت سوالات بھی کیے اور جوابات اطمینان بخش نہ ہونے پر چیئرمین اوگرا کو بھی طلب کرلیا گیا۔طلبی کے بعد چیئرمین اوگرا کو سخت الفاظ میں متنبہ کیا گیا کہ بھئی اگر اس تمام صورتِ حال کے ذمہ دار آپ ہوئے تو پھر آپ کو نتائج بھگتنے کیلئے بھی تیار رہنا ہوگا۔ حسب ِ معمول بری کارکردگی پر ماضی کی حکومتوں کے لتے بھی لیے گئے اور ایک مرتبہ پھر موجودہ مسائل کا ذمہ دار جانے والوں کو ٹھہرایا گیا۔ اس عزم کا اعادہ ہوا کہ ماضی کے حکمرانوں نے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے‘ لہٰذا اُن سے ایک ایک پائی وصول کی جائے گی۔ اجلاس میں متعدد دیگر اُمور کے حوالے سے بھی کھل کر اظہار رائے ہوا ۔ چلتے چلتے اوگرا اور وزارت ِ پٹرولیم کو سخت الفاظ میں تنبیہہ کی گئی کہ اگر آئندہ 48سے 72گھنٹوں کے دوران پٹرول کی قلت کا مسئلہ حل نہ ہوا تے فیئر آپ جاندے رہنا۔۔۔ ہدایت کی گئی کہ اوگرا‘ وزارتِ پٹرولیم ‘ ضلعی انتظامیہ اور ایف آئی اے کی مشترکہ ٹیمیں پٹرولیم کمپنیوں کے ڈپوؤں کا جائزہ لیں اور جو کوئی بھی اس قلت کا ذمہ دار ہو ‘ اُس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ بجا طور پر بہت ہی بروقت طور پر یہ فیصلہ بھی ہوا کہ جو پٹرولیم کمپنیاں‘ شرائط کے مطابق مقررکردہ سٹاک رکھنے میں ناکام رہی ہیں‘ انہیں بھی اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ان کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ 21دنوں کے ذخائر کی دستیابی کو یقینی بنائیں اور وغیرہ وغیرہ ۔
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا کہ کابینہ کے اجلاسوں میں ایسی گفتگو کرنا‘ معمول کی بات ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مشکلات پیدا کرنے والے بھی اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور مشکلات کا سامنا کرنے والوں کا کام بھی چلتا رہتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہوناکیا ہوتا ہے؟ بس‘ کسی حد تک عوام کی اشک شوئی کا سامان ہوجاتا ہے۔ کچھ اُمید پیدا ہوجاتی ہے کہ اس مرتبہ تو عوام کو لوٹنے والے ضرور اپنے کیے کی سزا بھگتیں گے۔اس بیٹھک کے دوران متعدد دیگر اُمور بھی زیربحث آئے اور اُن پر کچھ فیصلے بھی ہوئے‘ لیکن ہماری زیادہ دلچسپی پٹرول کی حد تک ہی محدود تھی۔ وجہ بہت سیدھی اور صاف تھی کہ دیگر اُمور بہت کم وسیع عوامی دلچسپی کے حامل تھے۔ پٹرول کا معاملہ قدرے الگ تھا کہ کہاں تو تاریخ میں پہلی مرتبہ پٹرول کے فروخت کنندگان‘ خریداروں کے ترلے منتیں کررہے ہیں کہ بھئی پٹرول خرید لو۔ رواں سال کے دوران یہ انہونی بھی ہوچکی ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پٹرول کی قیمت منفی سطح تک گرگئی تھی۔ مطلب یہ کہ آئل کمپنیاں ‘ تیل خریدنے والوں کو خود پیسے ادا کرتی رہیں۔ کورونا کے باعث دنیا بھر میں ہونے والے لاک ڈاؤن نے تو تیل کے فروخت کنندگان کو گویا دن میں تارے دکھا دئیے ہیں۔ اب‘ ہمارے ہاں کی صورتِ حال یکسر ہی مختلف دکھائی دے رہی ہے۔ یکم جون کے بعد سے لوگ پٹرول کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اب‘ حکومت نے اس صورت ِ حال کا سخت نوٹس لے لیا ہے ‘جس کے بعد بجا طور پریہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ صورتِ حال میں جلد بہتری نظرآنا شروع ہوجائے گی۔ اسی چکر میں دو‘ چار دن گزرجائیں گے اور پھر سب کچھ ایک مرتبہ پھر سب کچھ پہلے جیسے ہوجائے گا۔۔ ۔ ہمیں ڈر صرف اس بات کا تھا کہ کہیں پٹرول کی قلت کے حوالے سے کسی انکوائری کا حکم نہ دے دیا جائے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ کم از کم ہماری نظر سے تو نہیں گزرا‘ ورنہ تو چینی کی انکوائری رپورٹ کے زخم ایک مرتبہ پھر تازہ ہوجاتے۔
ڈر یہ تھا کہ اگر کہیں پٹرول کی قلت پر تحقیقات کا حکم دے دیا جاتا تو پھر یہ بھی چینی کی طرح ہاتھوں سے پھسل جاتا ۔ یاد کیجئے کہ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تھی تو تب چینی پچاس روپے کلو میں ملا کرتا تھی۔حکومت کی طرف سے اس پر سبسڈی دی گئی تو اس کے نرخ ستر روپے کلو تک پہنچ گئے۔ حکومت کے دوسرے سال میں اس کے نرخ 80روپے کلو تک پہنچ گئے‘ جس پر ہر طرف شور مچ گیا اور حکومت نے مجبور ہوکر معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ تحقیقات ہوئیں اور اس کی فرانزک رپورٹ بھی مرتب کی گئی۔ شنید تو یہی ہے کہ حکومت نے اس رپورٹ کو منظرعام پر نہ لانے کا فیصلہ کیا تھا ‘لیکن یہ کچھ میڈیا پرسنز کے ہاتھ لگ گئی‘ جس پرمجبوراً حکومت نے بھی اسے پبلش کردیا۔ کیس نیب کو بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو چینی کے نرخوں میں مزید پانچ رو پے کلو کا اضافہ ہوگیا۔کہنے والوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اتنے مہنگے داموں چینی خرید کر بھی اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ اول درجے کی چینی ہی ہے۔ اُمید تو یہ تھی کہ حکومتی تحقیقات کے نتیجے میں نا صرف چینی کی قیمتوں میں کمی ہوگی‘ بلکہ اس بحران کے ذمہ دار ان کو بھی سزا ملے گی‘لیکن ہوا یہ کہ چینی کے نرخ بھی وہیں کے وہیں ہیں اور تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آنا والا ایک مرکزی کردار اپنے اہل خانہ سمیت برطانیہ جاچکا ہے۔ اگرچہ اعلان تو موصوف کی طرف سے یہی کیا گیا ہے کہ وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لندن آئے ہیں اور جلد وطن واپس آئیں گے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دن رات اپوزیشن کی برائیاں گنوانے والے وزرا کی فوج بھی اس تمام معاملے پر چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔ معلوم نہیں کہ عوام کو کیوں کر عقل سے اتنا پیدل گردانا جاتا ہے کہ جیسے وہ کچھ نہیں جانتے۔ جیسے وہ روٹی کو چوچی کہتے ہیں۔ اُنہیں کہاں پتا چلتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ‘ لندن جانے والی والی اسی شخصیت کا طیارہ استعمال کیا کرتے تھے۔ سمجھا جاتا ہے کہ عوام کے تو فرشتے بھی نہیں جانتے کہ مختلف دیگر اُمور کی انجام دہی کے لیے بھی اسی شخصیت کی دولت استعمال ہوا کرتی تھی۔ظاہر ہے یہ سب کچھ اللہ کے واسطے تو نہیں کیا جاتا تھا۔ لگانے والا وصول کرنے کا بھی حق رکھتا ہے۔ اب‘ یہ شخصیت انگلینڈ میں اور حکومت یہاں سکون میں ہے‘ لیکن چینی کا معاملہ وہیں کا وہیں ہے۔
اس تمام صورت ِحا ل کے تناظر میں ہمیں اس بات کاخوف محسوس ہورہا تھا کہ اگر پٹرول کے معاملے پر بھی تحقیقات کا حکم دے دیا جاتا تو معاملہ مزید بگڑ جاتا ۔ابھی تو یہ ہورہا ہے کہ چلو اگر زیادہ نہیں تو کہیں کہیں 71روپے فی لیٹر والا پٹرول ایک سو روپے لیٹر تک تو مل ہی جاتا ہے۔ اب‘ تحقیقات ہوتیں تو خواہ مخواہ صارفین ہاتھ لگنے والے پٹرول سے بھی محروم ہوجاتے۔ یوں بھی یکم جون سے چلنے والی قلت کا نوٹس تو 9جون کو کابینہ کے اجلاس میں لیا گیا تو ان نو دنوں کے دوران بھی تو کاروبار زندگی چلتا ہی رہا تھا۔ اب‘ خواہ مخواہ تحقیقات کا حکم دیا جاتا تو معلوم ہوجاتا کہ کس نے کھمبیوں کی طرح وجود میں آنے والی آئل کمپنیوں کو ‘ شرائط پوری کیے بغیر لائسنس جاری کیے؟ اگر صورت ِحال کے ذمہ داروں کا تعلق بھی تحریک انصاف سے نکل آتا تو حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوتیں ۔ گویاکئی طرح کے مسائل پیدا ہوجاتے ۔ پہلے سے ہی بے شمار مشکلات میں گھری حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوجاتیں۔ ایسے میں پٹرول والا معاملہ بھی وہیں کا وہیں رہتا تو پھر اتنی وسیع پریکٹس کا کیا فائدہ؟ اس سے بہتر یہی ہے کہ معاملات جس طرح چل رہے ہیں‘انہیں چلنے دیا جائے۔ جان رکھیے کہ اِس وقت کم از کم لاہور کی حد تک 20پرائیویٹ آئل کمپنیاں اپنا کاروبار کررہی ہیں‘ جن میں سے بیشتر کے پٹرول پمپ خشک پڑے ہیں۔ لاہور کے شہریوں کو ہرروز اوسطاً 30لاکھ لیٹرپٹرول چاہیے ہوتا ہے۔ پٹرول کی قلت کے باعث اُنہیں تقریباً 20سے 22لاکھ لیٹر پٹرول پر اکتفا کرنا پڑرہا ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے پٹرول کی زیادہ کھپت نہ ہونے کی وجہ سے گزارہ چل رہا ہے۔ قلت کے باوجود کہیں نہ کہیں سے پٹرول دستیاب ہوہی جاتاہے ۔ اِن حالات میں ہماری حکومت سے بھرپورگزارش ہے کہ خدارا پٹرول کی قلت کے معاملے کی تحقیقات ہرگز نہ کروائی جائیں۔ اللہ نہ کرے کہ عوام اس سوادوں وی جان۔
 
Columnist
Sohail Ahmed Qaisar
Column date
Jun 12, 2020
@intelligent086
پورا پس منظر بیان کرتے کے بعد عنوان رکھا گیا ہے
بہت عمدہ
جہانگیر ترین کو خوب بے نقاب کیا ہے
شیئر کرنے کا شکریہ
 

Back
Top