Naey Raastay By Ammar Chaudhry

نئے راستے ... عمار چوہدری

مائیکروسافٹ کمپنی نے دنیا بھر میں اپنے 83سٹورز بند کر کے انہیں آن لائن کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کمپنی کے سٹورز صرف چار جگہوں پر کھلے رہیں گے۔ فیصلے کے تحت کورونا وائرس وبا کی وجہ سے مائیکروسافٹ کے اسی فیصد سٹورز کو دوبارہ نہیں کھولا جائے گا اور اب تمام فروخت آن لائن ہو گی۔ میں کل یہ خبر پڑھ ہی رہا تھا کہ ایک ڈاکٹر دوست نے واٹس ایپ پر ایک لنک شیئر کیا جس میں انہوں نے اپنا کلینک آن لائن کرنے کی معلومات دی ہوئی تھیں۔ اس دوران میں میری چھوٹی بیٹی میرے پاس آئی اور کہا کہ اسے ٹمپریچر مانیٹر ڈیوائس چاہیے اپنے کسی سکول پروجیکٹ کے لئے۔ میں نے کہا: معلوم نہیں کہاں سے ملے گی‘ اوپر سے کورونا کے دن ہیں‘ زیادہ گھومنا پھرنا بھی مناسب نہیں۔ خیال آیا‘ کیوں نہ آن لائن سرچ کیا جائے۔ ایک جگہ یہ ڈیوائس پانچ سو روپے میں دستیاب تھی۔ اس میں ٹائم‘ الارم اور دیگر آپشنز بھی تھیں۔ میں نے پوچھا ‘بھائی یہ ڈیوائس مجھے کیسے مل سکتی ہے؟ اس نے کہا‘ آپ آن لائن ایزی پیسہ سے رقم بھیج دیں میں کسی آن لائن بائیکر کو ڈیوائس دے کر آپ کے پاس بھیج دوں گا۔ آپ کا نمبر اس کو دے دوں گا اور آپ اس کی ٹریکنگ بھی کر سکیں گے۔ میں نے آن لائن اسے پیسے بھیج دئیے۔ اس نے بائیکر بلاکر اسے میرا ایڈریس اور ڈیوائس دے دی۔ آدھے گھنٹے بعد وہ بائیکر ڈیوائس لے کر آ گیا۔ سو روپے اسے دئیے یوں آن لائن شاپنگ اور مسئلہ چند منٹوں میں بغیر کہیں جائے اور وقت ضائع کئے حل ہو گیا۔
کورونا کی وجہ سے آن لائن نہ صرف خریدو فروخت بلکہ ہر قسم کی ایکٹیویٹی میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری طور پر بھی بہت کام ہوا ہے اور جو کام دنوں یا ہفتوں میں ہوتا تھا وہ اب گھر بیٹھے منٹوں سیکنڈوں میں ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ وزیراعظم کی اعلان کردہ ٹائیگر فورس کے لئے بھی پنجاب آئی ٹی بورڈ کی وضع کردہ ایک ایپ بنائی جا چکی ہے جس کا اجرا پورے ملک میں کیا جا رہا ہے تاکہ نہ صرف ٹائیگرز فورس کی نگرانی کی جا سکے بلکہ ٹائیگر فورس کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جا سکے۔آن لائن پلیٹ فارم کو مقبولیت ملنے کی سب سے بڑی وجہ وقت ہے۔ دنیا میں کسی کے پاس اب جو چیز سب سے کم ہے چاہے وہ دنیا کا امیر ترین بزنس مین ہے یا عام آدمی‘ وہ وقت ہے۔ یہ وقت پہلے اتنی تیزی سے نہیں گزرتا تھا جتنا آج۔ سوشل میڈیا اور گیجٹس آنے کے بعد تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ ویسے بھی کورونا وبااور سڑکوں پر رش کی وجہ سے لوگوں کا باہر جانا معمول سے کم ہو گیا ہے۔ پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کے باعث بھی لوگ نقل و حرکت سے کتراتے ہیں۔آن لائن کاروبار ہو یا کوئی اور ایکٹیویٹی ۔ا س میں پیسوں وقت اور دیگر چیزوں کی دونوں فریقوں کو بچت ہوتی ہے۔ آن لائن پلیٹ فارم کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ سبھی کو ملازمت سے نکال کر مالک بننے کا موقع بھی دیتا ہے‘ مثلاً ایک شخص اگر بیس ہزار روپے میں کہیں ملازمت کر رہا ہے اور اگر اسے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے تو اس کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ انتہائی کم رقم سے آن لائن اپنا چھوٹا موٹا کام شروع کر سکتا ہے۔ اپنے کام کا خیال آتے ہی سب سے پہلے انسان یہ سمجھتا ہے کہ جیسے اس کے لئے لاکھوں روپے درکار ہوں گے۔ دکان‘ فرنیچر اور ملازم اور دیگر اخراجات کہاں سے ارینج ہوں گے؟ اس قسم کے خیالات آج سے دس پندرہ سال قبل تک تو ٹھیک تھے لیکن آج نہیں۔ آج آپ کے پاس پانچ ہزار روپے ہیں تب بھی آپ گھر بیٹھے اپنا کام شروع کر سکتے ہیں۔ او ایل ایکس جیسی کئی شاپنگ ویب سائٹس ایسی ہیں جہاں آپ خود کو مفت رجسٹر کر سکتے ہیں۔ چاہیں تو اپنا سامان وہاں لگا کر بیچ سکتے ہیں یا پھر مختلف آن لائن سٹورز کا سامان ایک ویب سائٹ بنا کر فروخت کر سکتے ہیں اور بدلے میں معقول کمیشن حاصل کر سکتے ہیں۔ اب یہاں لوگ سوچتے ہیں کہ یہ بہت زیادہ تکنیکی کام ہے اور عام بندے کو سمجھ نہیں آ سکتا جس کا تکنیکی بیک گرائونڈ نہ ہو۔ یہ خیال بھی درست نہیں۔بس آپ اتنا سمجھ لیں کہ جس بندے کے پاس اینڈرائڈ موبائل فون ہے اور وہ اس پر ٹک ٹاک چلا لیتا ہے‘ فیس بک پر پوسٹس دیکھ سکتا ہے اور واٹس ایپ استعمال کر لیتا ہے وہ بندہ آن لائن کاروبار کر سکتا ہے چاہے اس کے پاس دس ہزار والا موبائل فون اور جیب میں دس ہزار روپے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آن لائن کام کے لئے پیسوں سے زیادہ ذہانت اور عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو گوگل کو دو عام سے طالب علم ایجاد نہ کر پاتے۔ آج گوگل کی سالانہ آمدنی چونتیس ارب ڈالر سے زائد ہے جبکہ ان طالب علموں کے پاس اس وقت سوائے آئیڈیا کے کچھ نہ تھا۔ انہوں نے آئیڈیا فلوٹ کیا جو کلک ہو گیا۔ دنیا ان کے ساتھ جڑتی گئی حتیٰ کہ گوگل نے دنیا کی بہت سی کمپنیوں کو بھی منہ مانگے داموں خرید لیا۔ آج بھی گوگل اگر نئی نئی چیزیں سامنے لا رہا ہے تو اس میں پیسوں سے زیادہ آئیڈیے کا کمال ہے۔ چنانچہ آج اگر کسی شخص کے پاس ایک موبائل فون اور پانچ دس ہزار روپے بھی ہیں تب بھی وہ اپنی آن لائن دکان کا مالک بن سکتا ہے۔
آپ آج کل کے حالات کو ہی لے لیں۔ آج ہر کسی کو ماسک لازمی چاہیے‘ سینیٹائزر اور جراثیم کش محلول کی بھی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ اسی طرح موبائل فون سے منسلک چیزیں مثلاً ہیڈ فون ‘ سکرین کور وغیرہ کی سبھی کو ضرورت رہتی ہے جبکہ بازار جانا آج کل خطرے سے خالی نہیں۔ عام ماسک کا ڈبہ چار پانچ سو میں مل جاتا ہے جس میں پچاس یا سو ماسک ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ڈبے لے کر رکھتے ہیں تاکہ روزانہ نیا ماسک استعمال کر سکیں۔ اس طرح کی چیزیں آن لائن سو دو سو روپے منافع رکھ کر بیچی جائیں تو گھر بیٹھے روزانہ ہزاروں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ جو چیزیں ٹرینڈنگ میں ہوں مثلاً آج کل کورونا وبا عروج پر ہے تو اس سے متعلقہ اشیا اور خدمات زیادہ بک رہی ہیں۔ اسی طرح موسم کے حساب سے بھی ضروریات تشکیل پاتی ہیں۔ گروسری کی اشیا کی سارا سال سبھی کو ضرورت رہتی ہے؛ چنانچہ سب سے پہلے ایسی چیزوں کی فہرست بنائیں جن کی زیادہ طلب ہے۔ او ایل ایکس یا آن لائن سٹورز پر جا کر دیکھیں کہ لوگ کس قیمت پر کیا کچھ بیچ رہے ہیں۔ نیچے خریداروں کے کمنٹس بھی ہوتے ہیں انہیں غور سے پڑھیے اس سے آپ کو علم ہو گا کہ لوگوں کو دراصل کس طرح کی چیزیں درکار ہوتی ہیں اور وہ کس طرح سے خریداری کرتے ہیں۔اگر آپ کے ذہن میں کبھی یہ خیال آتا ہے کہ میں نے تو کبھی آن لائن چیز نہیں خریدی تو پھر کوئی کیوں خریدے گا تو ایسے خیال دل سے نکال دیجئے۔ کورونا کے بعد دنیا کو تو چھوڑیں پاکستان میں بھی آن لائن خریداری میں چار سے پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ آپ خود ہی سوچیں آپ کو سرف صابن گھی چاہیے مگر اس کیلئے آپ کو گرمی میں بازار جانا ہے‘ پٹرول خرچ کرنا ہے‘ ایک گھنٹہ ضائع کرنا ہے اور اوپر سے کورونا کا بھی خطرہ مول لینا ہے تو اگر آپ کو یہی چیزیں گھر بیٹھے اسی ریٹ پر مل جائیں یا پچاس یا سو روپے فالتو دے کر بھی مل جائیں تو آپ کی کتنی چیزوں کی بچت ہو گی۔ وہی ایک گھنٹہ آپ کسی اور کام میں خرچ کر سکیں گے‘ آپ کا پٹرول اور توانائی الگ بچے گی اور آپ کورونا سے بھی بچ جائیں گے تو اور آپ کو کیا چاہیے؟ چنانچہ آج کے دور میں اگر روایتی ملازمتیں جا رہی ہیں تو بہت سے نئے مواقع بھی آ رہے ہیں۔ قدرت ہمیشہ زندگی میں توازن قائم رکھتی ہے۔بظاہر ہمیں لگتا ہے کہ ایک راستہ بند ہو چکا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی نئے راستے بھی کھل جاتے ہیں۔ یہ آپ کی اپنی مرضی اور کوشش پر منحصر ہے کہ آپ نئے راستوں پر چلنا چاہتے ہیں یا پھر ایک راستے کے بند ہونے پر افسردہ رہنا چاہتے ہیں۔
 
Columnist
Ammar Chaudhry
Column date
Jul 3, 2020

Back
Top