Urdu Articles & Columns

Pakistani Urdu Columns, English Columns, Urdu Articles, Urdu Editorials, Special and Investigative Reports, Important News and Events from Pakistan, Political News and Views, Javed Chaudhry Latest Columns, World News, Cricket News, Sports News Analysis and much more from Jang, Express, Nawaiwaqt, Khabrain, Dawn, TheNews, TheNations and other Urdu and English Newspapers at one place.
Sticky threads
ریڈ لائن ۔۔۔۔۔ عمران یعقوب خان ۔26 فروری 2019ء کو رات کی تاریکی میں بھارت نے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کے نام پر بزدلانہ کارروائی کی فضائی کوشش کی۔ کسی ہدف اور نشانے کے بجائے پاکستان کے معصوم عوام نشانے پر تھے۔ پاک فضائیہ کے چوکس ہونے کے باعث بھارتی طیارے بد حواسی میں بالا کوٹ کے مقام پر اپنا بارود درختوں میں ہی پھینک کر چلے گئے۔ بھارتی میڈیا نے اس بزدلانہ کارروائی کو لے کر سرجیکل سٹرائیک کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ پورا بھارت جنگی جنون میں مبتلا دکھائی دیا۔ اس کو پاکستان کے خلاف بھارت کی بڑی کارروائی قرار دیا گیا۔ لیکن پاکستان نہ تو گھبرایا نہ پریشان ہوا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ اصل میں بھارت گھبرایا ہوا ہے اور دشمن کتنا بزدل ہے۔ اسی لئے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا کو اس مقام پر لے گئے...
پیپلز پارٹی بھی ایک پیج پر ؟ ۔۔۔۔۔ عمران یعقوب خان ۔18 اکتوبر کو کراچی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ڈی ایم کے جلسے کی میزبانی کی گئی۔ سندھ میں برسراقتدار پیپلز پارٹی کی جانب سے جلسے سے قبل اہتمام کیا گیا کہ کراچی آنے والی سیاسی قیادت کو پورا پروٹوکول فراہم کیا جائے۔ یہی اہتمام مسلم لیگ (ن )کے لیے بھی تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کراچی پہنچی تو ان کے کارکنوں اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ان کا گرم جوش استقبال کیا گیا۔ کراچی میں منقسم سیاسی مینڈیٹ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو صورتحال کا اندازہ تھا‘ لہٰذا معاملات کو پوری احتیاط سے ہینڈل کیا جا رہا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کا سیاسی اعتبار سے سندھ میں وہی حال ہو چکا ہے جو اس وقت پیپلزپارٹی کا پنجاب میں ہے۔ مریم نواز بطور سیاسی لیڈر پہلی بار کراچی پہنچی تھیں‘وہ اپنے شوہر اور مقامی لیگی قیادت اور کارکنوں...
بیچ کے بے چارے .... ایم ابراہیم خان ''بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر ...‘‘ ،''بازار میں کام کی بہت اشیا تھیں‘ لیکن ...‘‘ ،''میں نے ارادہ تو کرلیا ہے مگر ...‘‘ ،''آپ کا مشورہ اگرچہ صائب اور قابلِ عمل ہے مگر جہاں تک عمل کا تعلق ہے ...‘‘ یہ اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے ''مگریہ‘‘ جملے آپ کو یومیہ بنیاد پر سُننے کو ملتے ہیں اور آپ خود بھی کبھی کبھی ایسے ہی جملے ادا کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیا محض تحت الشعوری یا لاشعوری طور پر؟ یقیناً نہیں۔ کوئی بات کبھی کبھار بے دھیانی میں کہی جاسکتی ہے۔ باقاعدگی سے کہی جانے والی بات ہمارے شعور کا حصہ ہوتی ہے۔ جن کی گفتگو کی راہ میں ہر دو چار قدم کے بعد مگر یا لیکن کی منزل آجائے وہ اٹکے ہوئے کہلاتے ہیں۔ یہ ہیں بیچ کے بے چارے یعنی فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ جائیں تو جائیں کہاں۔ جون ایلیا نے ایسی ہی کسی کیفیت کے لیے کہا...
اُلجھنستان .... ایم ابراہیم خان ہمارا قومی مزاج بہت سی خامیوں اور خرابیوں کا ملغوبہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک طرف اشتعال کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے اور دوسری طرف پژمردگی ہے کہ جان نہیں چھوڑ رہی۔ زندگی مجموعی طور پر بد نظمی کے مرحلے سے گزر کر اب بے نظمی کے دائرے میں داخل ہو رہی ہے۔ جہاں بے نظمی رواج پانے لگے وہاں کچھ بھی ٹھکانے پر نہیں رہتا۔ ہمارا معاشرہ رفتہ رفتہ اُس مقام کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں شاید کوئی بھی معاملہ اپنے منطقی مقام پر دکھائی نہ دے۔ خرابی کی یہ کیفیت کوئی راتوں رات پیدا نہیں ہوئی۔ عشروں کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی عمل نے چھوٹی چھوٹی خرابیوں کو پروان چڑھاکر معاشرے کو اس مرحلے تک پہنچایا ہے۔ سرِدست کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جو مستقل نوعیت کی خرابی سے دوچار نہ ہو۔ انفرادی اور اجتماعی سطح کے کم و بیش تمام معاملات مختلف علّتوں سے...
اندر کی سازشیں ۔۔۔۔۔ حبیب اکرم کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے کچھ وزرا اور میڈیا سے متعلق دیگر لوگوں کے اجلاس میں پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے معاملے پر پھٹ ہی پڑے۔ انہوں نے اسد عمر اور شبلی فراز کو مخاطب کرکے کہا ''عثمان بزدار کہیں نہیں جارہا‘ لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس کا سیاسی دفاع کرنے والا کوئی نہیں‘ بس ایک فیاض الحسن چوہان ہے جو یہ کام کررہا ہے‘‘۔ یہ سن کر شبلی فراز نے صفائی پیش کی کہ وہ چند دن پہلے لاہور گئے تھے ‘ جہاں وہ خود عثمان بزدار سے مل کر آئے تھے۔ اس پر عمران خان نے کہا ''مجھے سب پتا ہے کون کون بزدار کے خلاف ہے اور کہاں کہاں اس کی شکایتیں لگاتا پھرتا ہے لیکن میں کیوں اسے ہٹاؤں‘ پوری پنجاب اسمبلی میں کون اس قابل ہے جو اس کی جگہ لے سکتا ہو‘‘۔ یہ سن کر اجلاس میں شریک کسی شخص کی جرأت نہیں ہوئی کہ مزید...
سائیکل سے رولز رائس تک ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ گزشتہ روز ایک نوجوان کا میسج آیا۔ اس نے لکھا کہ وہ ایک نہایت ضروری بات کرنا چاہتا ہے جس کیلئے وہ ملاقات یا فون کال کا خواہاں ہے۔ میں نے اپنا پروگرام چیک کر کے اسے جوابی پیغام میں لکھا کہ وہ فلاں وقت کال کرلے۔ نوجوان نے ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے میرے بتائے ہوئے وقت کے عین مطابق کال کی۔ میں نے نرمی سے پوچھا کہ بتائو بیٹا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا :سر! میں گزشتہ ایک دو روز سے شدید مخمصے کا شکار ہوں‘ میں انجینئرنگ کا طالب علم ہوں‘ میرے والد کی سائیکل مرمت کرنے کی دکان ہے جہاں میں خود بھی دو تین گھنٹے کام کرتا ہوں مگر میرے تصورات کی اڑانیں بہت بلند ہیں۔ میں نئی نئی ایجادات کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ میں نے ڈیل کارنیگی اور سٹیفن آرکوے کی کتابیں بھی پڑھ رکھی ہیں۔ ان کتابوں میں اُن کامیاب...
اسلام کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔ خورشید ندیم ہمارے نظریات اور جذبات، اس ہدایت کے تابع ہیں جو اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ لے کر آئے یا یہ ہدایت ہمارے نظریات اور جذبات کے تابع ہے؟ لوگ بے تکلفی کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ میرے نزدیک اسلام کی بنیاد فلاں عقیدہ ہے۔ دلیل کوئی نہیں دیتاکہ آپ نے اسلام کی یہ بنیاد کہاں سے اخذ کی؟ کوئی بہت احتیاط کرے گا تو کوئی تاریخی واقعہ سنا دے گا جو قصوں کہانیوں کی کسی کتاب میں نقل ہوگیا۔ کیا دین سمجھنے کا یہی طریقہ ہے؟ کیا دین کی بنیاد ایسی غیرمصدقہ اطلاعات پر ہے؟ اس امت میں افراط و تفریط پر مبنی دین کی جتنی تعبیرات رائج ہوئیں، ان میں انسانی جذبات نے حاکم کا کردار ادا کیا یا اس کے خود ساختہ نظریات نے۔ کبھی جذبات کو حاکم مانا گیا، پھر دین سے اس کی بنیاد تلاش کی گئی۔ محکم دلیل ہاتھ نہیں آئی تو کسی کمزور روایت یا قصے کے...
کڑوی گولی ۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان معاشرے تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اور تبدیلی کیا‘ یہ دور تو تبدیلیوں کا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا منظر تبدیل ہو جاتا ہے ع یوں ہی دنیا بدلتی ہے، اِسی کا نام دنیا ہے خیر! تبدیلی کب سب سے بڑی حقیقت نہیں تھی جو اس کے تسلسل پر حیرت ہو؟ ایک بس تبدیلی ہی تو ہے جو مسلسل ہے، دم بہ دم ہے۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ع ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں جس دور میں علامہ نے یہ بات کہی تھی‘ تب تبدیلی کا عمل تیز تھا نہ زیادہ حیرت انگیز۔ سبھی بدلتا تھا مگر توازن اور ترتیب کے ساتھ۔ اب یہ بات کچھ زیادہ اور آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔ فی زمانہ ہر معاشرہ غیر معمولی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے۔ گزرے ہوئے ادوار میں تفکر، تصور، ثقافت اور اقدار کے نام پر جو کچھ بھی پایا تھا یا تیار کیا تھا‘ اس کا بڑا حصہ داؤ پر لگ چکا ہے۔ یہ عمل جاری...
سیاسی بحران ۔۔۔۔۔ کنور دلشاد عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے والی آئینی درخواستوں پر تفصیلی فیصلے میں نہ صرف صدارتی ریفرنس کو آئین اور قانون کی خلاف ورزی قرار دیا اور صدر مملکت کو اپنے صوابدیدی اختیارات کے درست استعمال میں ناکام ٹھہرایا ہے‘ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں جتنے بڑے پیمانے پر قانون سے انحراف کیا گیا‘ اسے بد نیتی تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے مضر اثرات بہت گہرے اور دور رس ہوں گے۔ ملک کی عدالتی تاریخ کا یہ انتہائی اہم فیصلہ ہے اور کابینہ کے کچھ اراکین کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آئین اور قانون کی خلاف ورزی تھی۔ ریفرنس داخل کرنے کا سارا عمل آئین اور قانون کے...
کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے ... عمار چوہدری جیسے جیسے زمانہ ترقی کر رہا ہے انسانوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس جدید دور میں سہولتیں تو مل رہی ہیں لیکن لوگوں کی بے چینی‘ برداشت اور طبیعت میں چڑچڑا پن بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک طرح سے انسانوں کی اہمیت کم ہو رہی ہے کیونکہ آٹومیشن کی وجہ سے انڈسٹری میں لیبر کی جگہ مشینوں نے لے لی ہے۔ پانچ پانچ سو لوگوں کا کام اکیلی مشین کر رہی ہے جس سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قوتِ خرید کم ہونے سے انسان جب ضروریات پوری نہیں کر پاتا تو لامحالہ طبیعت میں بے چینی اور کھردرا پن ابھر آتا ہے۔ پھر اس موبائل فون نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ انفوٹینمنٹ کا سیلاب لوگوں کو کچھ سوچنے سمجھنے کی مہلت ہی نہیں دے رہا۔ موبائل فون جس کام کے لئے اٹھایا جاتا ہے‘ وہ کرنے کے بجائے انسان...
’’کچہری‘‘ ..... ایم ابراہیم خان بہت کچھ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس میں باتیں بھی شامل ہیں۔ جی ہاں‘ باتیں ہی باتیں ہیں۔ اور تو کیا دھرا ہے اب زندگی میں۔ ایک قوم ہے کہ باتوں کی ہوکر رہ گئی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ وقت سے بڑی نعمت اور دولت کوئی نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں بخشا جانے والا وقت محدود ہے اس لیے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ سیانوں نے وقت کو محدود کیوں قرار دیا ہے۔ اپنی اصل میں تو وقت لامحدود ہے اور ہمارے ہاں وقت کو اسی زاویے سے دیکھا گیا ہے۔ کوئی مانے یانہ مانے‘ حقیقت یہی ہے کہ ہم نے وقت کو اُس کی اصل کے مطابق برتنا ہی سیکھا ہے یعنی جو کچھ بھی کیجیے صرف یہ سوچتے ہوئے کیجیے کہ وقت لامحدود ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب ایسی بہت سی سرگرمیاں ہمارے معمولات کا حصہ ہیں جن کا ہماری زندگی...
صبر اوربرداشت .... زاہد اعوان پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے 2018ء کے عام انتخابات سے قبل سو دنوں میں تبدیلی کی بات سوچ سمجھ کر اورخلوصِ نیت سے کی تھی‘ کپتان کاارادہ بھی ٹھیک تھا‘کوشش بھی کی گئی‘ اگر حسبِ توقع نتائج نہ مل سکے تو اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں کیونکہ ابھی انہیں نظامِ حکومت کوبہتر انداز میں چلانے کیلئے تجربہ چاہئے جو سو ایام میں تو ممکن ہی نہیں۔ پھر چھ ماہ کا وقت لیاگیا لیکن اس عرصے میں بھی کیاہوسکتا ہے‘ اسی لئے سبز باغ لگانے‘ دودھ کی نہریں بہانے‘ ایک کروڑ نوکریاں بانٹنے ‘ پچاس لاکھ مفت گھروں کی تقسیم ‘ کرپشن کوجڑ سے اکھاڑنے‘ ہرطرف انصاف کابول بالا کرنے اور وزیراعظم ہائوس اورایوان صدر سمیت تمام اہم عمارتوں میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کیلئے ایک سال کی مہلت لی گئی‘وزیراعظم عمران خان صاحب نے وزرا اور دیگر حکومتی ٹیموں کو...
عمران خان اور آل پارٹیز کانفرنس ۔۔۔۔ صابر شاکر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چھٹی کے دن دو اتوار بازار لگتے ہیں ایک بازار پشاور موڑ جی نائن سیکٹر کے قریب اور دوسرا آبپارہ کے مقام پر جہاں پر اشیائے خورو نوش کچھ سستے داموں تو ملتی ہی ہیں لیکن ان اتوار بازاروں کی ایک اور خوبی بھی ہے کہ کم وبیش ضرورت کی تمام اشیایہاں ایک چھت تلے دستیاب ہوتی ہیں‘ اس لیے اتوار کے روز ان بازاروں میں بہت رش ہوتا ہے اور کم آمدنی کے ساتھ متوسط طبقے اور سفید پوش لوگ بھی ان بازاروں سے استفادہ کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ پوش ایریا کے لوگ بھی اپنی شناخت کو چھپاتے ہوئے اپنے ملازمین کو بھیج کر یہاں سے ہفتہ بھر کا سودا سلف منگوالیتے ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ تنخواہ دار طبقے کو ہوتا ہے کیونکہ ان کے وسائل محدود ہوتے ہیں ۔ان اتوار بازاروں میں بھی زیادہ تر سٹال بڑے تاجروں کے...
جھوٹ کا سفر ۔۔۔۔۔۔ رؤف کلاسرا کسی نے درست کہا تھا‘ اتنا جھوٹ بولو کہ آپ کو خود یقین آنا شروع ہوجائے کہ آپ سچ بول رہے ہیں ۔جھوٹ کو بار بار دہرانا پڑتا ہے جبکہ سچ ایک ہی دفعہ بولا جائے تو ہزار سال بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے بندے کو اقتدار میں آ کر کیا ہوجاتا ہے؟کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت ہوشیار‘ چالاک ہیں؟ وہ جب چاہیں اچھے اداکار کی طرح موقع کی مناسبت سے اداکاری کرسکتے ہیں۔ وہ جب چاہیں اپنی اداکاری سے لوگوں کو رلا دیں اور اگلے سین میں ہنسا دیں ؟لوگوں کا اعتماد توڑ کر اپنا مطلب نکال لینا کیا بہت بڑا کارنامہ ہے؟ یہی لوگ جب اپوزیشن کررہے ہوتے ہیں تو لگتا ہے ان سے زیادہ قوم کا ہمدرد کوئی نہیں ‘ مگراقتدار ملتے ہی یہ لوگ بدل جاتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے لاہور کے جلسے میں کہا تھا کہ وہ کبھی قوم سے جھوٹ نہیں بولیں گے‘...
جنوری تک ۔۔۔۔۔۔ منیر احمد بلوچ سندھ میں گزشتہ دنوں پولیس کے حوالے سے کچھ معاملات سامنے آئے تو گزرا ہوا زمانہ نظر کے سامنے گھوم گیا۔سندھ کے آئی جی مشتاق مہر‘ جن کے گزشتہ دنوں کسی وجہ سے اچانک چھٹی پر چلے جانے کی خبر آئی تھی‘ کے بارے ماضی کی اپنی کچھ یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں۔ عوام کو یاد ہو گا اور میڈیا ریکارڈ سے بھی یہ بات چیک کی جا سکتی کہ جب وہ سی پی او کراچی تھے تو انہیں سندھ کے حکمرانوں کے خلاف چلنے والے جعلی اکائونٹس کیس کے گواہاں کو ہراساں کرنے پر عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں جو کچھ سندھ میں ہوا‘ اس کی اصل کہانی کیا ہے اور تار کہاں سے ہلائے جا رہے ہیں؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ محاذ کس کی جانب سے کھولا گیا ہے۔ ابھی تو ابتدا ہے‘ دیکھتے جائیے جنوری تک بہت کچھ ہو سکتا ہے؛ تاہم اگر تحریک انصاف...
فرق ۔۔۔۔۔ اقتدار جاوید میدان تو پہلے ہی تیار تھا کہ سنجرانی صاحب، عمران خان سے بھی کئی ماہ پہلے چیئرمین سینیٹ بن چکے تھے۔ وہ تھے بھی منظور ِ نظر اس بارے میں کوئی دوسری راے ہی نہیں۔ دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے ابھی عمران خان کی وزارت ِ عظمیٰ پنگھوڑے میں بھی نہیں تھی کہ وہ مملکت کے تیسرے اہم ترین شخص بن چکے تھے۔ وہی صادق سنجرانی، وہی جو نواز شریف کے پچھلی صدی کی وزارت عظمیٰ میں معاون رہے۔ پچھلی صدی‘ وہ جو پنجابی زبان کے شاعر نے مرزا صاحباں تصنیف کرتے ہوئے لکھا کہ ایہہ واقعہ اٹھویں صدی دا جیویں راوی دین خبر اج چودہویں صدی سراج نے فیر پھولیا ایہہ دفتر دیکھتے دیکھتے پچھلی صدی ہمارے سامنے ختم ہوئی۔ دوسری صدی کا ایک ربع بھی ہونے کو ہے۔نواز شریف کی دوسری وزارت ِ عظمیٰ میں ان کے ساتھ معاون اور یوسف رضا...
پوچھنے والے جیتے ۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان علم کا حصول ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اس پیچیدہ عمل کو آسان بنانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ ایک اچھا اور آزمودہ طریقہ ہے سوال کرنا۔ سوال کرنا ایک فن ہے جس میں مہارت کے ذریعے انسان کسی بھی شعبے سے متعلق بنیادی باتیں تیزی سے اور اچھی طرح جان سکتا ہے۔ سوالوں کے ذریعے صرف معلومات یا علم ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ ان کی مدد سے دوسروں کو بہت کچھ کرنے کی تحریک بھی دی جاسکتی ہے، لوگوں سے احسن طریقے سے جُڑا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان اپنے ذہن میں ابھرنے والے خیالات کو دوسروں تک آسانی سے پہنچا سکتا ہے۔ کسی بھی کورٹ روم میں بیٹھ کر دیکھیے! فریقین کے وکلا سوالوں ہی کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر جج کو بیچ میں بولنا پڑے تو وہ بھی سوال ہی کا سہارا لیتا ہے۔ یاد رکھیے! اگر آپ کو دوسروں سے کچھ جاننا...

Browse forums

Have Fun with PWPians

Events & Festivals

English Literature Forum

Library

Education, Knowledge & IT

Contests, Awards, Interviews

Children & Parenting

Back
Top