Urdu Articles & Columns

Pakistani Urdu Columns, English Columns, Urdu Articles, Urdu Editorials, Special and Investigative Reports, Important News and Events from Pakistan, Political News and Views, Javed Chaudhry Latest Columns, World News, Cricket News, Sports News Analysis and much more from Jang, Express, Nawaiwaqt, Khabrain, Dawn, TheNews, TheNations and other Urdu and English Newspapers at one place.
Sticky threads
جسے پیا چاہے ۔۔۔۔۔ صابر شاکر بے جان‘ بدحال‘ پریشان اپوزیشن گزشتہ اڑھائی سال سے دل گرفتہ اور دربدر ہے اور اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ اس کا ''پِیا‘‘ اس سے سخت بیزار ہو گیا ہے۔ جس پِیا کے ساتھ اپوزیشن کا برسوں کا یارانہ تھا‘ اس میں بد اعتمادی کی ایک بہت بڑی خلیج حائل ہو چکی ہے۔ تھوڑے بہت فطری سے گلے شکوے ہوتے تھے‘ جنہیں اپوزیشن دور کر کے ''پِیا‘‘ کو راضی کر لیا کرتی تھی‘ ہلکی پھلکی پیار محبت بھری ناراضیاں ہو جایا کرتی تھیں‘ کْچھ دن ہجر و فراق میں گزرتے تھے‘ مصلح سمجھا بجھا کر دونوں میں غلط فہمیاں دور کروا دیتے تھے اور'' پِیا‘‘ بھی درگزر کر دیا کرتا تھا۔ ''پِیا‘‘ کبھی پنجاب کے قریب ہو جاتا تھا‘ کبھی سندھ کے اور پھر ''پِیا‘‘ نے ایسا راستہ نکالا کہ دونوں ہی ناراض نہ ہوں‘ ایک کو اپنے پاس جڑواں شہر میں بڑے گھر میں بلا لیتا تھا اور دوسرے کو لاہور...
کورونا اور دعائیں ۔۔۔۔ منیر احمد بلوچ مجھے ایسے لگا کہ میں کسی بہت بڑے اور پُرنور و معطر دربار میں حاضر ہوں جہاں حدِ نظر تک انسانی جسم ہی نظر آ رہے ہیں، میں ان کے درمیان کھڑا خالقِ حقیقی سے رو رو کر درمندانہ طریقے سے کورونا جیسی مہلک بیماری کو سرے سے ہی ختم کرنے کیلئے دن رات کروڑوں روزہ داروں کی عاجزی سے مانگی ہوئی دعائیں قبول نہ ہونے کا شکوہ کر رہا ہوں۔ مالکِ ارض و سما سے پاکستانیوں کی روزہ کی حالت میں شکووں سے بھری دعائوں کے واسطے دیتی ہوئی میری التجا پر وہاں حد نگاہ تک مردوں اور عورتوں کا مجمع میرا ہم آواز ہو کر زور زور سے فریادی اور احتجاجی انداز سے چلانا شروع ہو گیا۔ جب چیخ و پکار حد سے بڑھ گئی تو اچانک ایک پرشکوہ آواز گونجی جس نے سب سے گویا قوتِ گویائی چھین لی ہو۔ لمحے بھر میں ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اُس پرشکوہ اور کڑک دار...
مفکّر ۔۔۔۔۔ اقتدار جاوید 'ملک کسی کاغذ پر بنا کمرہ نہیں ہوتا‘‘ ایسا تاریخی جملہ لکھنا آسان بات نہیں‘ یہ جملہ وہی لکھ سکتا ہے جو اپنی ایک فکری تاریخ رکھتا ہو، جس نے اپنی فکری نہج بھی متعین کر لی ہو اور جسے اپنے لکھے ہوئے کی صداقت اور صراحت پر یقین ہو، یہ ایک مفکر کا ہی جملہ ہو سکتا ہے۔ یہ مشرف عالم ذوقی کا جملہ ہے، جس کے سارے ناول اب اسی پس منظر میں تخلیق ہو رہے ہیں کہ ہندوستان میں مسلم قوم کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ اُس آتشِ رفتہ کے سراغ کی کڑی ہے جب اُس کی سوچ کے تانے بانے فکری عظمت سے جڑنے لگے تھے۔ ہندوستان میں پے درپے ہونے والے انہونے واقعات نے اس کو ایک ایسی سوچ کا وارث بنا دیا جو صرف اس کی ہے۔ جو کام وہاں کی مسلم جماعتیں اور لیڈران نہیں کر پائے وہ کام مشرف عالم نے اپنے قلم سے ''ہندوستان ایک حراستی...
فرانس کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والے پاکستانی کے ساتھ خواتین اور مرد حضرات بھی کام کرتے ہیں فیکٹری میں 50 سال کی ایک فرنچ خاتون اک دن اسے کہنے لگی کہ سنا ہے تم پاکستان کے لوگ عورتوں کے حقوق نہیں دیتے انہیں گھر میں بند رکھتے ہو اور کام بھی نہیں کرنے دیتے نوجوان نے لیڈی سے سوال کیا کہ آپ کو کام کرتے کتنا عرصہ ہو گیا جواب ملا جب میں 18 سال کی تھی تب سے نوکری کر رہی ہوں جواب میں پاکستانی ماں کے بیٹے نے کہا کہ آپ گھر کا کام بھی کرتی ہیں جاب بھی کرتی ہیں اور آپ کی عمر بھی کافی ہو گئی جبکہ ہمارے ہاں غالب اکثریت کے گھرانوں میں جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو بچپن سے لے کر جب تک اس کی شادی ہوتی ہے اس وقت تک اس کے اس لڑکی کے والد اور بھائی اپنی اس بیٹی کو اللہ کی رحمت قرار دیتے ہوئے اپنی آنکھوں کا تارا بنا کر رکھتے ہیں اس کی عزت...
بنگال کی انگڑائی منیر احمد بلوچ بھارت کی شدید مخالفت اور دھمکیوں کے با وجود بنگلہ دیش کا اپنی کر کٹ ٹیم کو پاکستان آنے کی اجا زت دینا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس کیلئے بنگلہ دیشی عوام اور حکومت کو اپنی خود مختاری کے اظہار پر مبارکباد دی جانی چاہیے اور ہم پاکستانی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے ان بھائیوں کیلئے اپنی خاص رحمتیں نازل کرتے ہوئے انہیں اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین) یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ بنگلہ دیشی بھائیوں نے راشٹریہ سیوک سنگھ کے نافذ کئے گئےسی اے اے کے خلاف بھی یک زبان ہو کر آواز اٹھائی ہے‘ ان کا یہ عمل بھی قابل ِستائش ہے‘ بلکہ سرحد پار اپنے مسلمان بھائیوں کیلئے محبت اور اخوت کا پیغام بھی ہے۔ بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں ایک سازش کے تحت مسلط راشٹریہ سیوک...
کشمیریوں کی قربانیاں .......... علامہ ابتسام الہٰی ظہیر والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر اپنے عہد کے ایک بڑے خطیب تھے اور ملک کے طول وعرض میں ان کو مذہبی اور سیاسی اجتماعات سے خطاب کرنے کی دعوت دی جاتی تھی۔ یہ 23مارچ 1987ء کی بات ہے کہ وہ حسب ِمعمول مینار پاکستان کے عقب میں واقع راوی روڈ پر ایک بڑی سیرت النبیﷺ کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس کانفرنس سے خطاب کرنے کے دوران رات 11:30بجے کے لگ بھگ ایک بم دھماکہ ہوا‘ جس میں والد گرامی اپنے دیگر بہت سے رفقاء کے ساتھ زخمی ہوئے اور میو ہسپتال‘ لاہور میں 6دن تک ان کا علاج ہوتا رہا۔ بعدازاں ان کو علاج کے لیے سعودی عرب کے شہر ریاض کے ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ملٹری ہسپتال میں منتقلی کے چند گھنٹے بعد ہی آپ کی طبیعت میں کمزوری پیدا ہونا شروع ہو گئی اور آپ 30 اور31مارچ کی درمیانی رات کو اس دنیا...
دریافت سے ایجاد تک ایم ابراہیم اس دنیا میں آپ کا آنا یا موجود ہونا کافی ہے؟ یہ سوال ہر اُس انسان کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے‘ جو کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اِس دنیا میں ہماری موجودگی اِس بات کا تو بھرپور اور تسلیم شدہ ثبوت ہے کہ قدرت کی مہربانی سے ہم نے اِس دنیا کی بس مِس نہیں کی۔ قدرت نے دنیا کی بس میں سوار کردیا ہے تو کیا اِس کرم کو کافی سمجھ لیا جائے؟ کیا ہمارا اِس دنیا میں بھیج دیا جانا اِتنی بڑی بات ہے کہ ہم صبر و شکر کے ساتھ ایک طرف بیٹھ رہیں اور اچھی خاصی بے عملی کے ساتھ زندگی کو ضائع کردیں؟ دنیا میں ہماری موجودگی کا کوئی نہ کوئی مقصد تو ہونا ہی چاہیے۔ بس‘ اُس مقصد کے بارے میں سوچنا ہی اِس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے وجود اور کردار کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ اِس دنیا میں ہمارا موجود ہونا کچھ کر دکھانے کے حوالے سے سنہرا موقع ہے۔...
ایک دن کا روزنامچہ ۔۔۔۔۔ مسعود اشعر مشورہ دیا جا رہا ہے کہ گھر میں خالی نہ بیٹھو۔ کچھ نہ کچھ کرتے رہا کرو۔ کتابیں پڑھنے کی بات ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔ لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ اس کے علاوہ بھی کچھ اور کیا کرو۔ کچھ نہیں تو اپنا روزنامچہ ہی لکھتے رہا کرو۔ لکھو، کہ آج صبح سے شام تک تم نے کیا کیا۔ اب ظاہر ہے تم سے کوئی ملنے تو آ ہی نہیں سکتا کہ ملنے جلنے پر پابندی لگا دی گئی ہے‘ بلکہ گھر کے لوگوں کے بارے میں بھی کہا گیا کہ ان سے بھی ذرا فاصلے سے ہی ملو۔ اب یہ لکھو کہ تم نے صبح کا سورج نکلتے دیکھا یا نہیں؟ اگر دیکھا تو وہ سورج کیسا تھا؟ ویسا ہی تھا جیسے ہر صبح ہوتا ہے یا اس میں کوئی فرق تھا؟ دیکھیے نا، ہم چیزوں کو صرف جسمانی آنکھ سے ہی نہیں دیکھتے‘ بلکہ دل کی آنکھ سے بھی دیکھتے ہیں اور دل کی آنکھ ہمیں وہ دکھاتی ہے جو جسمانی آنکھ نہیں...
دنیا بھرمیں ان دنوں کورونا وائرس کے باعث کروڑوں انسان خطرے میں ہیں۔ چین کے بعداس جان لیوا وائرس نے ایشیا اوراب، یورپ وامریکا میں اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں، کیونکہ چین اور اٹلی کے بعد سب سے زیادہ تعدادمتاثرین کی تعداد امریکا میں ریکارڈ کی جارہی ہے، جو قریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد بتائی جارہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو یہ بیان دے کر مزید تشویش میں مبتلا کر دیاہے کہ اگر اموات کی تعداد ایک لاکھ تک کنٹرول کر لی گئی تو یہ امریکا کی بہت بڑی کامیابی ہو گی، لیکن دوسری طرف طبی ماہرین اموات کی تعداد دولاکھ بتا رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ کافی عرصے سے چلی آرہی ہے اور امریکا مسلسل چین کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں رہتا ہے، لہٰذا کیا ایسی صورتِ حال میں یہ موذی وائرس مصنوعی طریقے سے پھیلایا گیا؟ یہ وہ سوال...
ضمنی انتخابات اور نتائج .... منیر احمد بلوچ ۔19فروری کو دو قومی اور دو صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو دو حلقوں میں شکست اور ایک میں کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ سیالکوٹ کے قومی اسمبلی کے حلقہ 75 کے نتائج الیکشن کمیشن نے روک رکھے ہیں کیونکہ اس حلقے کے 360میں سے 20 پولنگ سٹیشنوں کے نتائج میں الیکشن کمیشن کو ردوبدل کا شبہ ہے۔مسلم لیگ نواز سمیت پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں ضمنی الیکشن میں اس کامیابی پر اطمینان کا اظہار کر نے کا حق رکھتی ہیں۔ یہ کامیابی میاں نواز شریف کی مقبولیت کی وجہ سے ہے یا حکومت کے اقدامات پر عوام نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے‘ اس پر بحث ہو سکتی ہے ‘ بہرکیف ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں قائم ہونے والے قومی اتحاد کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان کی گیارہ چھوٹی بڑی سیا سی جماعتیں...
خدا کیلئے انکوائری نہ کروانا ۔۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر دنیا بھر میں پٹرول کے فروخت کنندگان قطار اندر قطار ‘ خریداروں کی منتیں کررہے ہیں‘لیکن ہمارے یہاں ہمیشہ کی طرح اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یکم جون سے پٹرول کے نرخوں میں کمی کیا ہوئی کہ یہ جنس ہی ناپید ہوکر رہ گئی ہے۔اللہ اللہ کرکے ہمارے وزیراعظم صاحب نے بالآخر اس صورت ِحال کا بھی سخت نوٹس لے لیا ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں اُن کی طرف سے معصومانہ انداز میں استفسار کیا گیا‘‘ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ ہم نے پٹرول سستا کیا ہے تو پھر یہ غائب کیسے ہوگیا؟کچھ وزراء سے سخت سوالات بھی کیے اور جوابات اطمینان بخش نہ ہونے پر چیئرمین اوگرا کو بھی طلب کرلیا گیا۔طلبی کے بعد چیئرمین اوگرا کو سخت الفاظ میں متنبہ کیا گیا کہ بھئی اگر اس تمام صورتِ حال کے ذمہ دار آپ ہوئے تو پھر آپ کو نتائج...
کل نہیں‘ آج ۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے سب سے بڑھ کر جس معاملے کو سمجھنا ہے ‘وہ وقت ہے‘ جس نے وقت کی اہمیت کو سمجھا اور تسلیم کیا‘ وہی حقیقی اور مکمل کامیابی سے ہم کنار ہوا۔ حتمی تجزیے میں کسی بھی انسان کیلئے حقیقی دولت وقت ہے۔ وقت کو سب سے بڑی (مادّی) دولت سمجھنے اور اُس کی قدر کرنے سے انکار کرنے والا ہر انسان بالآخر غیر معمولی ناکامی کے گڑھے میں جا گِرتا ہے۔ ہم زندگی بھر تین زمانوں کے اسیر رہتے ہیں۔ ایک گزرا ہوا کل ہے اور ایک آنے والا کل؛ دونوں کے بیچ ہے لمحۂ موجود۔ حق یہ ہے کہ لمحۂ موجود ہی ہمارے لیے سب سے بڑی ارضی حقیقت ہے‘ جس نے اسے سمجھ لیا‘ وہ فتح یاب ہوا۔ زندگی ہم سے جو چند بڑے تقاضے کرتی ہے‘ اُن میں پہلے نمبر پر ہے لمحۂ موجود کو سمجھنا ۔ ہم گزرے ہوئے زمانے کے انسان ہیں نہ آنے والے انسان کے۔ یہ...
پھر وہی کھیل تماشا ۔۔۔۔۔ عمار چوہدری کورونا لاک ڈائون جہاں انسانی زندگی کے لئے کئی خطرات لایا تھا‘ وہیں اس کی وجہ سے ایسے فوائد بھی حاصل ہوئے جو شاید اربوں ڈالر لگا کر بھی حاصل نہ ہوتے۔ ان میں سے ایک فضائی اور زمینی آلودگی میں انتہائی کمی تھی۔ فروری‘ مارچ کے بعد چونکہ پوری دنیا لاک ڈائون میں چل رہا تھا اس لئے ٹرانسپورٹ‘ کارخانے وغیرہ بند ہونے سے آلودگی کا تناسب کم ہو گیا۔ اب پاکستان سمیت کئی ملکوں میں لاک ڈائون ختم ہونے سے انسانی زندگیوں کو کورونا سے تو براہِ راست خطرہ کم ہو گیا ہے لیکن بالواسطہ انداز میں کئی خطرات دوبارہ سر اٹھانے لگے ہیں۔ صرف آلودگی کی ہی بات نہیں‘ ہسپتالوں میں بھی کورونا کے علاوہ دیگر مریضوں کا آنا جانا تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ کل لاہور‘ جیل روڈ پر سے گزر ہوا تو نجی ہسپتالوں کے باہر رش کی صورت حال دیکھ کر رونگٹے...
ناک سے آگے بھی دیکھنا چاہیے .... سہیل احمد قیصر اندازہ لگائیے کہ ایک کام اپنے مطلب کے وقت بالکل ٹھیک ہوتا ہے‘ وہی کام کسی دوسرے کے مفادات کی تکمیل کرے تو غلط ہو جاتا ہے۔ اپنا مطلب پورا نہ ہو سکے تو تبصروں کا طومار باندھ دیا جاتا ہے، دوردراز کی کوڑیاں لائی جاتی ہیں،بازو ہوا میں لہرا لہرا کر بتایا جاتا ہے کہ دیکھیں کیسا ظلم ہوگیا ہے، کیسے پیسے کی چمک دکھا کر ہمارے ساتھیوں کو منزل سے بھٹکایا گیا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاتا کہ سننے والے اِسے کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ حکومتی موقف کے مطابق‘ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے جو کچھ کیا گیا‘ وہ ضمیر کی آواز تھی اور یوسف رضاگیلانی کی کامیابی ضمیر فروشی کی بدترین مثال تھی۔ سینیٹ کے لیے اسلام آباد کی اہم نشست کے نتائج کے بعد حکومت کی طرف سے جو...
آج نہیں تو کل ۔۔۔۔۔ عمار چوہدری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم کے خلاف احتجاج صرف پانچ فروری تک محدود نہیں بلکہ اب تو یہ سلسلہ سارا سال ہی جاری رہتا ہے۔ اس کی وجہ خود بھارت ہے جس نے آزادی کی اس تحریک کو دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے اس قدر بھونڈے انداز میں اپنائے کہ یہ تحریک سرعت کے ساتھ پھیلتی چلی گئی۔ بھارت کا نشانہ عام کشمیری عوام ہی نہ تھے بلکہ اس نے جدوجہدِ آزادی کے علمبردار چیدہ چیدہ کشمیری رہنمائوں کو چن چن کر نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ آج‘ اکیس مئی کا دن بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بربریت کے باعث یاد رکھا جاتا ہے کیونکہ آج سے ٹھیک اکتیس برس قبل 21مئی 1990ء کو معروف حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق کے والد میر واعظ مولوی محمد فاروق کو بھارتی مسلح افراد نے سری نگر میں ان کی رہائش گاہ میں گھس کر گولی مار دی تھی جس سے وہ موقع پر ہی شہید...
اُن کو بھی شکنجے میں آنا چاہیے ۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر کیسی سرکس ہے گویامستقل بنیادوں پر چلتی چلی جارہی ہے ۔ مختلف کاری گر آتے ہیں اور اپنے اپنے کرتب دکھا کر نکل جاتے ہیں ۔ کیسے کیسے شاندارہنرمند وں کا فن دیکھنے کو ملتا رہتا ہے جو ہاتھ کے اشارے سے سینکڑوں ایکڑ زمین غائب کردیتے ہیں۔ اربوں روپے کی رقوم ڈکار مارے بغیر ہی ہڑپ کرجاتے ہیں اور تو اور قرضوں کی مد میں لی گئی بھاری رقوم پلک جھپکتے میں معاف کرالیتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد پیچھے رہ جاتا ہے تحقیقات کا ڈھول جو اتنے زور شور سے بجایا جاتا ہے کہ اپنی کرنیاں اِس کی آوازوں میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایکشن ری پلے کے طور پر مسلسل رونما ہوتا چلا جارہا ہے، آج سے نہیں گزشتہ 74سالوں سے۔ اِسی کی آڑ میں مخالفین کو کھڈے لائن لگایا جاتا ہے اور اِسی کی اوٹ میں اپنے مفادات کی تکمیل کو...
دکھوں کامداوا کون کرے گا؟ ۔۔۔۔ زاہد اعوان ہم آج تک صرف دہرے معیار ونصابِ تعلیم کارونا روتے آئے ہیں کہ پاکستان میں یکساں نصابِ تعلیم نہیں‘ امیروغریب کے بچوں کے لیے الگ الگ معیارقائم ہے‘ صاحبِ حیثیت کابچہ سکول میں روزِ اول سے ہی انگریزی میں پڑھتاہے‘ جبکہ غریب کابچہ ساری زندگی مارہی انگریزی کی وجہ سے کھاتاہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ معیار کے نجی تعلیمی اداروں نے یہ تفریق توکسی حد تک ختم کردی ہے اور غریب بچوں کو بھی معیاری تعلیم وتربیت فراہم کرنے کابیڑہ اٹھا رکھاہے جبکہ صحت کی سہولیات سے لے کر ہرشعبہ زندگی میں امیر وغریب کی تفریق موجود ہے بلکہ ہرروز بڑھتی جارہی ہے‘ حتیٰ کہ قبرستانوں تک وی آئی پی کلچر پایاجاتا ہے۔ راولپنڈی سمیت بڑے شہروں میں کئی قبرستانوں کے بھی دو‘ دو حصے ہیں‘ قبرستان کے ایک حصے میں کسی جدید ہائوسنگ سوسائٹی کی طرح...

Browse forums

Have Fun with PWPians

Events & Festivals

English Literature Forum

Library

Education, Knowledge & IT

Contests, Awards, Interviews

Children & Parenting

Back
Top