Urdu Articles & Columns

Pakistani Urdu Columns, English Columns, Urdu Articles, Urdu Editorials, Special and Investigative Reports, Important News and Events from Pakistan, Political News and Views, Javed Chaudhry Latest Columns, World News, Cricket News, Sports News Analysis and much more from Jang, Express, Nawaiwaqt, Khabrain, Dawn, TheNews, TheNations and other Urdu and English Newspapers at one place.
Sticky threads
کبھی تو ہوں گے کم،کروڑوں محنت کشوں کے غم محنت کشوں کا بڑا حصہ زراعت ،ٹریڈ اور ٹرانسپورٹ سیکٹر سے منسلک ہے جہاں سرے سے لیبر قوانین نافذ نہیںمزدوروں میں شوگر کا مرض پھیل رہا ہے، اور شوگر بینائی چھین رہی ہے آج دنیا بھر کے محنت کش ’’مزید محنت کر کے ‘‘ اپنا دن منا رہے ہیں ، اس دن کا سوگ منا رہے ہیں جب شکاگو میں 1886ء میںکارپور یٹ سیکٹر کی پولیس نے 8گھنٹے کام کرنے کا مطالبہ کرنے کے جواب میں براہ راست فائرنگ کر کے سڑکیں محنت کشوں کے خون سے سرخ کر دی تھیں۔پولیس کی اندھا دھند فائرنگ سے ایک طویل جدوجہد نے جنم لیا، کارپوریٹ سیکٹر کو بھی آخرکار گھٹنے ٹیکنا پڑ گئے اور 1919 ء میں عالمی ادارہ محنت نے اپنے دستور میں سماجی انصا ف کی اہمیت کو تسلیم کر لیا اور مان لیا کہ اگر سماجی انصاف نہ ملا تو کارپوریٹ سیکٹر بھی نہیں چل سکے گا۔ بدقسمتی سے دنیا...
بندۂ مزدور کے تلخ سوالات ۔۔۔۔۔ محمد طاہر جپہ اٹھارہویں صدی کے آخر میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا اور جلد ہی پوری دنیا پر چھا گیا۔ سرمایہ داروں نے فیکٹریاں لگائیں اور پیداواری صلاحیت بڑھانے، مال کمانے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کرنے لگے۔ مقابلے کی فضا پیدا ہوئی تو فیکٹریاں اور کارخانے ڈبل شفٹ پر چلانے شروع کر دیے مگر ان کارخانوں میں ایندھن کے ساتھ ساتھ مزدورں کے خون پسینے کو بھی جلانا شروع کر دیا گیا۔ اس خوفناک استحصال پر گوشت پوست کے بے بس انسان چیخ اُٹھے۔ انہوں نے اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا شروع کی اور 1880ء کی دہائی میں محنت کشوں کی طرف سے آٹھ گھنٹے کے اوقاتِ کار کے مطالبے کے لیے پریڈ، مارچ اور احتجاج کا آغاز ہوا جس سے یومِ مزدور کی بنیاد پڑی۔ ٹریڈ یونینز، مزدور تنظیموں اور دیگر سوشلسٹ اداروں نے کارخانوں میں...
18 اپریل 2021 کو ، رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے دوران ، جب شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ، حکومت نے ان مظاہرین پر ہتھیاروں کے ساتھ کریک ڈاؤن کیا جو فرانس کی جانب سے سرکاری طور پر رسول اللہ ﷺکی ناموس پر حملے کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 12 اپریل 2021 کو سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد سے حالات شدید حد تک خراب ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان صاحب نے 19 اپریل 2021 کو قوم سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے فرانس کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پاکستان کو بہت فرق پڑے گا۔ پاکستان کی معیشت جو کہ ان کے مطابق اوپر اٹھ رہی ہے، وہ بیٹھ جائے گی۔ یورپی ممالک سے تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ختم ہو جائے گی ، بیروزگاری بڑھے گی اور صنعتیں بند ہو جائیں گی۔...
جہانگیر ترین گروپ اور تحریک انصاف۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔ عبدالکریم کیا جہانگیر ترین گروپ حکومت کے لیےخطرہ ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جوآج کل حکومت کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ حکومت کو سب سے زیادہ خطرہ اپنے لوگوں سے ہے۔ یہ سب کے سامنے ہے کہ موجودہ حکومت کے قائم ہونے میں جہانگیر ترین کا کتنا ہاتھ ہے؟ کہ کس طرح سے جہانگیر ترین لوگوں کو اپنے جہاز میں بیٹھا کر بنی گالہ لائے اور پارٹی کو ایلکٹیبلز سے بھر دیا۔ یہ جہانگیر ترین ہی تھے جن کے جہاز کو عمران خان نے اپنی الیکشن مہم میں استعمال کیا۔ جہانگیر ترین پارٹی میں عمران خان کے بعد سب سے زیادہ بااثر تھے۔ پارٹی کے سب بڑے اور چھوٹے فیصلوں میں جہانگیر ترین موجود ہوتے تھے اور پارٹی پوزیشن پر اپنی رائے بھی دیتے تھے۔ بعض دفعہ ان کی رائے کو من و عن تسلیم بھی کیا جاتا تھا اورجس کافائدہ جہانگیرترین...
مذہب اور سیاسی جماعتیں ۔۔۔۔۔ خورشید ندیم یہ جہاں عبرت کدہ ہے۔ کم لوگ ہی مگر اس کا ادراک رکھتے ہیں۔ بروز جمعہ قومی اسمبلی کے ایوان میں، اہلِ سیاست کو اپنے ہی گریبانوں سے الجھتے دیکھاگیا۔ اپوزیشن نے پوسٹر لہرائے۔ چند لمحوں بعد حزبِ اقتدار کے لوگ اٹھے اور ان کے ہمنوا ہوگئے 'فرانس کے سفیر کو نکالو‘۔ شاید انہیں یہ خوف لاحق تھاکہ یہاں خاموش رہے تو اس کی سزا کہیں حلقے میں نہ ملے۔ احسن اقبال صاحب کی مثال ان کے سامنے تھی۔ ارکانِ اسمبلی کا یہ خوف ان کے نعروں میں ڈھل گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس خوف کو ریاست نے بطور حکمتِ عملی اپنایا۔ ایک بار نہیں، بار بار۔ مذہب جو خیر کی ایک قوت تھی، اسے سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھیار بنا دیا گیا۔ یہ خوف اب گلی بازار میں پھیل چکا۔ اب لال حویلی ہو یا پیلی حویلی، کوئی عمارت اس سے محفوظ نہیں۔ ان حویلیوں کے مکین مجبور...
بھارتی جوتشی اور ہمارے جگادری ۔۔۔۔ آصف عفان جوتشیوں نے شبھ گھڑی کا جھانسہ دے کر بھارت کو جہنم بنا ڈالا۔کمبھ کا جو میلہ 2022ء میں منعقد ہونا تھا اسے ایک سال پہلے ہی کروا کر لاشوں کے انبار اور مریضوں کی ناختم ہونے والی قطاریں لگوا دیں۔ ماہرین نے وارننگ بھی جاری کی تھی کہ یہ میلہ قبل از وقت کروانے سے صورتحال بے قابو ہو سکتی ہے لیکن جوتشیوں کا کہنا تھا کہ میلہ اگر اس سال نہ منایا گیا تو یہ شبھ گھڑی 83سال بعد لوٹ کر آئے گی۔ شبھ گھڑی کے متلاشی لاکھوں کی تعداد میں گنگا اشنان کرنے پہنچ گئے اور اب یہ عالم ہے کہ شمشان گھاٹوںمیں لاشیں جلانے کیلئے جگہ نہیں رہی اور اب تو لاشوں کو بھی اپنی باری کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے کہ کس کی باری کب آتی ہے۔ بھارت سرکار نے یہ اعلامیہ بھی جاری کر ڈالا ہے کہ اگر شمشان گھاٹ میسر نہیں تو کھیتوں اور کھلے میدانوں میں...
بائیکاٹ ۔۔۔۔۔۔ محمد اظہارالحق یہ1985ء تھا۔ دنیا کا مشہورترین مشروب( سافٹ ڈرنک) بنانے والی امریکی کمپنی نے مشروب بنانے کا فارمولا بدل ڈالا۔ مشروب کا ذائقہ تبدیل ہو گیا۔ لوگ پہلے والے ذائقے کے شوقین تھے۔ امریکی صارفین نے نئے مشروب کا بائیکاٹ کردیا۔ ہزاروں کے حساب سے کمپنی کو فون آنا شروع ہو گئے۔ ریستورانوں نے باقاعدہ بورڈ لگا لیے کہ '' یہاں اصلی یعنی پہلے والا مشروب پیش کیا جاتا ہے‘‘۔چند ماہ میں کمپنی کا دماغ درست ہو گیا اور اسے پہلے والا مشروب دوبارہ بازار میں لانا پڑا۔ اس سے پہلے‘1973ء میں امریکہ میں گوشت مہنگا ہو گیا۔ صارفین کی انجمنیں حرکت میں آگئیں۔ تحریک چلی کہ گوشت کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس تحریک میں عورتوں‘ بالخصوص خواتینِ خانہ نے نمایاں کردار ادا کیا کیونکہ گھر کے سودا سلف کی ذمہ داری ان کی تھی۔ ایک ہفتے میں گوشت سپلائی کرنے...
اسلامو فوبیا کا توڑ ۔۔۔۔۔ عمار چوہدری مغرب میںمسلمانوں کو بنیاد پرست ‘جنونی اورانتہاپسندبنا کر پیش کرنے میں خود مغربی میڈیا کا اہم کردار ہے۔ نائن الیون کے بعد اس میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ امریکہ سمیت یورپی ممالک میں ایسے واقعات دیکھنے کو ملے جن میں چھوٹا موٹا کریکر بھی چلا تو فوری طور پر ٹی وی ہیڈلائنز میں بغیر تحقیق کئے دہشت گردی کا واقعہ بنا کر مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ خود امریکہ میں ہر سال درجنوں واقعات میں سکولوں‘ کالجوں اور میوزک کنسٹرٹس میں غیرملکی انتہا پسند عام شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہیں لیکن امریکہ نہ یورپ‘ کوئی بھی اسے مذہب سے جوڑنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ ایسے شخص کو دماغی مریض کہہ کر بات کو گول مول کر دیا جاتا ہے۔ امریکہ کے تعلیمی اداروںمیں شاید ہی کوئی واقعہ ہوا ہو جس میں کسی مسلمان شخص نے...
شاباش ‘ٹھیک جا رہے ہو! ۔۔۔۔۔ ایاز امیر پاکستانی قوم ایک بات دل میں سمو لے۔ غیروں سے مرعوب ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ یہ فضول کی باتیں ہیں کہ فلاں ملک مریخ تک پہنچ گیا ہے اور وہاں کائنات کی تاریخ میں پہلی بار اُس ملک نے ایک چھوٹے سے ہیلی کاپٹر کی مختصر اُڑان بھی کر لی ہے۔ مریخ سے تازہ خبر یہ ہے کہ زمین پہ بیٹھے امریکی سائنسدانوں نے وہاں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آکسیجن نکال لی ہے۔ ایسی چیزوں سے ہمیں کوئی پروا نہیں ہونی چاہئے۔ امریکہ اور دیگر ممالک نے جو کرنا ہے کریں۔ ہم نے اپنے راستے متعین کئے ہوئے ہیں اور ہم وہی کریں گے جو ہم ٹھیک سمجھتے ہیں۔ دیگر اقوام کو اس دنیا کی پڑی ہوئی ہے۔ ہمیں اس دنیا سے بس اتنا سروکار ہے کہ مال بنانے کے مواقع ہاتھ سے نہ جائیں۔ اس کے علاوہ ہماری فکر اگلے جہان کی ہے۔ جنہوں نے مریخ کے بارے میں اپنے سر...
خود احتسابی ۔۔۔۔۔ طاہر جپہ ہمارے معاشرے میں اخلاقی قدریں، سماجی بندھن اور انسانی رویے بڑی تیزی سے زوال پذیر ہیں اور اس اخلاقی بحران اور معاشرتی انتشار کے کئی عوامل اور بے شمارمحرکات ہیں۔ کافی حد تک سسٹم کی خرابی، سیاسی عدم استحکام، معاشی تفاوت اور انصاف کی عدم فراہمی اس بگاڑ کے ذمہ دار ہیں مگر انفرادی سطح پر ہمارے اپنے اندر بھی بہت سی خرابیاں ہیں جنہیں ہم اس تنزلی کے سفر میں کہیں شمار نہیں کرتے بلکہ اپنی ان ساری وارداتوں، کج رویوں اور کوتاہیوں کو نظام کے کھاتے میں ڈال کر پتلی گلی سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ چاروں طرف لوٹ کھسوٹ، منافع خوری، گراں فروشی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، رشوت ستانی، اقربا پروری، تشدد اور عدم برادشت کے نت نئے ریکارڈ بنتے اور ٹوٹتے نظر تو آتے ہیں مگر ان خرابیوں کی ذمہ داری انفرادی سطح پر کوئی بھی شخص اپنے کھاتے...
پولیس اور ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔ منیر احمد بلوچ لاٹھیوں، ڈنڈوں، پتھروں اور گولیوں کی بارش کو شکست دیتے ہوئے غازی ڈاکٹر فضل الرحمن جاں بلب مریضوں کیلئے زندگی کا پیغام لاتے ہوئے آکسیجن سلنڈرز کا وہ کنٹینر بحفاظت لانے میں کامیاب ہو گئے جس کے انتظار میں گوجرانوالہ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں جان کنی کی حالت میں 125 مریض اور ان کے لواحقین تڑپ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ڈسٹرکٹ ہسپتال گوجرانوالہ میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔ ایک طرف سانسوں کی ٹوٹتی ہوئی ڈوریں تھیں تو دوسری طرف لاٹھیوں، ڈنڈوں سے لیس اور سڑکوں پر دھرنا دیے بپھرا ہوا ہجوم۔ پہلے سوچا گیا کہ پولیس کی بھاری نفری بھیج کر یہ کنٹینر نکالا جائے لیکن ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا کیونکہ جیسے ہی پولیس کی وردی پر احتجاج کرنے والوں کی نظر پڑتی‘ وہ آگ کا گولہ بن کر اہلکاروں پر ٹوٹ پڑتے اور جس...
کرشمہ ۔۔۔۔ عمار چوہدری گزشتہ ایک عشرے میں پیدا ہونے والے بچوں کو زندگی کے آغاز میں جو تین لفظ سب سے زیادہ سننے کو ملے ہیں‘ وہ دہشت گردی‘ دھرنے اور کورونا ہیں۔ دہشت گردی تو گزشتہ تین چار برسوں میں تقریباً ختم ہو چکی ہے لیکن کورونا اور دھرنے بدستور جاری ہیں۔ لاہور کی مال روڈ کا تو نام ہی دھرنا روڈ پڑ چکا ہے کہ یہ سال میں کم از کم ساٹھ ستر روز تو ضرور بند رہتی ہے۔ کبھی ینگ ڈاکٹرز‘ کبھی پیرا میڈیکل سٹاف‘ کبھی اساتذہ تو کبھی کوئی اور آ کر اپنے مطالبات منوانے کے لئے اس شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جاتا ہے اور کاروبار کا بھٹہ بھی بٹھا دیتا ہے۔ شہر کے مرکز اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سمیت اہم سرکاری اداروں کی موجودگی کی وجہ سے یہ جگہ احتجاج کرنے والوں کا حسنِ انتخاب ٹھہرتی ہے۔ اب مگر یہ سلسلہ مال روڈ تک محدود نہیں رہا۔ شہر کے وہ تمام مقامات جہاں...
وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے 3اپریل 2021کو ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ اس سال رمضان کا چاند 13اپریل کو نظر آئے گا اور پہلا روزہ 14اپریل کو ہو گا۔ مزید یہ کہ چاند اسلام آباد، لاہور، پشاور اور کراچی میں واضح طور پر دیکھا جا سکے گا۔ حکومت کی جانب سے اس ٹویٹ نے رؤیت ہلال کے مسٔلہ پر ایک بار پھر بحث کا آغاز کر دیا۔ اس ٹویٹ پر رؤیت ہلال کمیٹی کے نئے چئیرمین مولانا عبد الخبیر آزاد نے بھی خفگی کا اظہار کیا کہ فواد چوہدری صاحب کو کمیٹی کے اجلاس کا انتظار کرنا چاہیئے تھا جبکہ وزارت سائنس کے ایک سینئر آفیسر رؤیت ہلال کمیٹی کے باقاعدہ ممبر بھی ہیں۔ یاد رہے کہ فواد چوہدری صاحب نے 26مئی 2019 کو رؤیت ہلال پر مبنی پاکستان کی سرکاری ویب سائٹ pakmoonsighting.pk کو بھی لانچ کیا تھا اور 30مئی 2019 کو "دا رؤیت "(The Ruet) کے نام سے ایک...
انصاف ہونے تو دیں! ۔۔۔۔۔۔ رسول بخش رئیس ریاست کمزور ہو جائے تو وہی ہوتا ہے جو ہم گزشتہ چند عشروں سے وطنِ عزیز میں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ پتا نہیں آپ کی نظریں کہاں ہوں‘ میں نے تو اس ملک اور غریب عوام کو لٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ اگر کچھ لٹیرے رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں‘ ثبوت موجود ہوں‘ اور معاملات عدالتوں تک جائیں تو اس طبقے کے پاس دفاع کے لیے سب سے مضبوط ہتھیار فقط چند مختصر فقروں تک محدود نظر آتا ہے۔ لوٹنے والے کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو‘ یا نوکر شاہی کے اس ٹولے سے تعلق رکھتا ہو‘ جس کا مقصد خدمت نہیں‘ مال بٹورنا ہے‘ سب ایک ہی زبان استعمال کرتے ہیں: ہمارے خلاف انتقامی کارروائی ہو رہی ہے‘ حکومت کے پاس کوئی ثبوت نہیں‘ ہمیں انصاف نہیں مل رہا۔ انتظامیہ کمزور ہو تو احتساب کے اداروں‘ عدلیہ اور تفتیشی افسروں پر ملزم چڑھائی کرتے...
سیاسی اختلاف یا دشمنی؟ .... خورشید ندیم یہ سیاست نہیں دشمنی ہے۔ جاتی امرا میں نواز شریف صاحب کے گھر کو گرانے کی خواہش سیاست نہیں ہو سکتی۔ بات گھروں تک پہنچ جائے تو اسے دشمنی سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کی راہ پر دشمنی کے کانٹے بکھر جائیں تو سب کے پاؤں سے لہو بہتا ہے۔ اس لیے کہ ہر سیاست دان کے گھر تک کوئی نہ کوئی راستہ ضرور جاتا ہے۔ بنی گالہ کے راستے پر پڑے کانٹے نئی قانون سازی سے ہٹا دیے گئے لیکن یہ دوبارہ بھی بکھر سکتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ سب گھروں کے راستے کھلے رہیں۔ میرے مرحوم دوست خلیل ملک نے مجھ سے جنرل پرویز مشرف کے دور کا ایک واقعہ روایت کیا تھا۔ مشرف صاحب بھی شریف خاندان کے گھروں تک پہنچ گئے تھے۔ ماڈل ٹاؤن کے گھر ان کے دور میں سرکاری قبضے میں لے لیے گئے تھے۔ چوہدری شجاعت حسین ان دنوں پرویز مشرف صاحب کے ساتھ تھے۔ اس خاندان کا رکھ...
کس کا جسم،کہاں کی مرضی۔۔رابعہ احسن جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے گئے وقتوں میں محبت کے نام پر صرف دھوکا ہوتا تھا اور آج اس ترقی یافتہ معاشرے میں محبت ،دھوکے جیسے چھوٹے سے لفظ سے بہت دور کہیں اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی ہے ۔ حوا کی بدقسمتی یہ ہے کہ محبت کے ہر پہلو نے اسے تکلیف میں مرتے چلے جانے کے سوا شاید ہی کوئی راہ دکھائی ہو۔ اور تکلیف کی بات کرنے لگیں تو مغرب کی عورت کہیں بھی مشرق سے کم تکلیف میں نہیں ہے۔ مغرب میں ٹین ایج لڑکیوں کو ہمدردی اور محبت کے جھانسے میں پھنسا کر سیکس ٹریفکنگ کا آلہ کار بنایا جارہا ہے ۔تو پاکستان میں عورت میرا جسم میری مرضی کی آواز لگاتی ہے تو سات سمندر پار بیٹھے ہوئے میرا دل بھر آتا ہے کہ جانے کس کا جسم ، اور کہاں کی مرضی۔ یہ آزادی کے عجیب وغریب بینر اٹھائے...
" بھارت اور پاکستان کے مستحکم تعلقات جنوبی اور وسطی ایشیا کی اُن صلاحیتوں کو کھولنے کی چابی ہیں،جن سے اب تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا ۔۔۔اس مسئلے کی بڑی وجہ کشمیرکا تنازعہ ہے۔۔۔۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے"۔ اسلام آباد میں 18 مارچ 2021 کو ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےپاکستان کے سپہ سالار نے کشمیر، پاکستان ، بھارت اور خطے سے متعلق اپنی سوچ اور ارادوں کا اظہار کیا جس نے ماضی کو دفنانے کے حوالے سے عوام میں ایک نئی گرما گرم بحث کا آغاز کیا ہے ۔ اس حوالے سے یہاں مختلف سوالات جنم لیتے ہیں۔ مثلاً: آخر ماضی کی وہ کونسی چیز ہے جس کو دفن کرنے کا تذکرہ ہو رہا ہے؟ آخر وہ کون ہے جس کے لیے کشمیرکا تنازعہ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور اُس کے لئے اِس سے نجات حاصل کرنا انتہائی ضروری ہوچکا ہے؟...

Browse forums

Have Fun with PWPians

Events & Festivals

English Literature Forum

Library

Education, Knowledge & IT

Contests, Awards, Interviews

Children & Parenting

Back
Top