Urdu Articles & Columns

Pakistani Urdu Columns, English Columns, Urdu Articles, Urdu Editorials, Special and Investigative Reports, Important News and Events from Pakistan, Political News and Views, Javed Chaudhry Latest Columns, World News, Cricket News, Sports News Analysis and much more from Jang, Express, Nawaiwaqt, Khabrain, Dawn, TheNews, TheNations and other Urdu and English Newspapers at one place.
Sticky threads
میگا سیل، سرخ مرچ اور بجلی کا بل ۔۔۔ منیر احمد بلوچ شہر کے ایک بہت بڑے شاپنگ مال کے باہر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی نہ ختم ہونے والی طویل قطاریں دیکھ کر آگے بڑھنے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے واپس جانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اب مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ گاڑی کو کس طرف سے واپس موڑا جائے۔ میرے دوست نے گاڑی اپنے ڈرائیور کے حوالے کرتے ہوئے پیدل ہی شاپنگ مال کی جانب جانے کا فیصلہ کیا۔ ہجوم اور بے ترتیب ٹریفک میں سے گزرتے ہوئے ہم جیسے ہی شاپنگ مال کے داخلی دروازے کے قریب پہنچے تو اندر داخل ہونے کیلئے مردوں اور عورتوں کی علیحدہ علیحدہ طویل قطاریں دیکھتے ہی چکرا کر رہ گئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شہر کے تمام مرد و خواتین اس شاپنگ مال میں امڈ آئے ہیں۔ ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد جب سکیورٹی کے تمام مراحل طے کرتے ہوئے شاپنگ مال کے اندر پہنچے...
اور تبدیلی کسے کہتے ہیں؟ ۔۔۔۔ زاہد اعوان تحریک انصاف نے تبدیلی کے نام پر قوم کے نوجوانوں کو متحرک کیا، ایک سو چھبیس دن تک دھرنا انتخابی اصلاحات کے لیے دیا، 2018ء میں بھرپور انتخابی مہم چلائی گئی، روایتی سیاست سے تنگ عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیے اور یوں یہ پارٹی اقتدار میں آ گئی۔ مگر اقتدار ملنے سے پہلے تبدیلی کے جو بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے‘ چہروں کی تبدیلی، نظام کی تبدیلی اور جانے کیا کیا خواب دکھائے گئے تھے، سو دنوں میں کرپشن کا خاتمہ، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر اور ملکی قرضوں سے نجات سمیت کیا کیا دعوے کیے گئے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم صاحب نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اپوزیشن میں دعوے کرنا اور نعرے لگانا آسان ہوتا ہے، حکومت کا پہلے تجربہ نہیں تھا، اب پتا چلا کہ یہ کام بہت مشکل...
بنیادی اکائی ۔۔۔۔ قمرالنساء قمر وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں عورت خاندان کی بنیادی اکائی ہے اور خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ۔ جب تک خاندان مستحکم نہیں ہو گا، معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور خاندانی استحکام عورتوں کے مرہون منت ہے۔ مستحکم خاندان کے لیے عورت کا مضبوط اورمستحکم ہونا اشد ضروری ہے۔ تو یہ طے ہے کہ معاشرے کی ترقی کے لیے عورت کو میدان عمل میں اترنا ہو گا، اپنی تہذیب و تمدن کے زیر سایہ سماجی تقاضوں کے مطابق خاندان کی تشکیل نو کرنا ملکی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے، جس پر عمل پیرا ہو کر عورت قدرت کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریوں کو بآسانی نبھا سکے۔ اس لائحہ عمل میں دو باتوں کا دھیان رکھنا انتہائی ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ کلچر اور اقدار کے مطابق ڈیزائن...
سیاسی میوزیکل چیئر ۔۔۔۔۔۔۔ آصف عفان ملکی سیاست ڈرامائی تبدیلیوں کے ساتھ دن بدن دلچسپ اور مضحکہ خیز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ سیر کو سوا سیر اور نہلے پہ دہلا تو سنتے اور دیکھتے چلے آئے تھے بلکہ ایسے مناظر بھی ہیں کہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے: موت کو بھی موت ہے۔ انصاف سرکار کو ٹف ٹائم دینے کیلئے اکٹھے ہونے والے سماج سیوک اپنے اپنے آئٹمز کے ساتھ شائقین کو متوجہ کرنے کیلئے قلابازیاں کھا رہے ہیں اور دیگر کرتب پیش کر رہے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کو بھی اپوزیشن کا سامنا ہے۔ یہ منظرنامہ دیکھ کر مولانا رومی کا وہ قول بے اختیار یاد آرہا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ کشتی میں سوار سبھی کے درمیان سوراخ کرنے کا مقابلہ جاری ہے اور سبھی ایک دوسرے سے شاکی اور نالاں ہیں کہ فلاں کا سوراخ میرے سوراخ سے بڑا تھا، اور اسی لیے کشتی ڈوب گئی۔ ویسے بھی کشتی اندر کے پانی...
ویکسی نیشن .... اقتدار جاوید کہتے ہیں لاہور کا اپنا ایک خاص مزاج ہے جسے لاہوریاپن کہتے ہیں۔ یہی اس کی پہچان ہے اور اسی وجہ سے ''لاہور لاہور ہے‘‘ کی خوبصورت ترکیب وضع ہوئی ہے جو اس کے مزاج کی صحیح تفہیم کرتی ہے ۔ ایک مفکر ادیب سے کلچر اور تہذیب کی تفہیم کے لیے کئی بار گفتگو ہوئی۔ وہ اس سلسلے میں لاہور کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ایک اصطلاح ''لاہوریت‘‘ استعمال کرتے تھے۔ وہ اس شہر کے باسیوں کی زندہ دلی اور خوش دلی کا واقعہ سناتے ہوئے خود بھی محظوظ ہوتے اور لاہوریت کے دیوانے ہو ہو جاتے ۔وہ کہتے: تاریخ میں کئی دفعہ لاہور کا محاصرہ ہوا‘ شہری اندر بند ہو جاتے‘ کئی کئی دن قتلِ عام ہوتا اور خونریزی ہوتی۔ایسے ہی کسی موقع پر ایک شہری اپنے دو ننھے منے بچوں کو نئے کپڑے پہنا کر ہنستا کھیلتا جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا: اس خونریزی کے عالم میں کدھر؟ وہ کہنے...
عوام بھی ٹھیک نہیں ملے؟ ۔۔۔۔۔ طارق حبیب ''عوام لاپروائی کر رہے ہیں، کورونا ایس او پیز پر عمل نہیں ہو رہا، صورتحال سنگین ہو سکتی ہے‘‘۔ یہ وہ بیانات ہیں جو آج کل تواتر کے ساتھ حکومتی حلقوں کی جانب سے سننے میں آ رہے ہیں۔ صبح اٹھ کر سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو یہی پیغامات ملتے ہیں، ٹی وی سکرینوں پر دیکھیں تو عوام ہی لفظی گولہ باری کا نشانہ بن رہے ہوتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارا قصور غیر سنجیدہ عوام کا ہی ہے جنہیں اپنی جان کی پروا نہیں۔ حکمران بے چارے تو دن رات اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حکومتی شاندار کارکردگی بس بیانات میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر زمینی حقائق پر غور کرنا شروع کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک فیصد عوام بھی حکومتی حمایت میں نہیں ہیں۔ حکومت اس مسئلے کا حل یہ نکالتی ہے کہ سارا ملبہ عوام پر گرا کر اپنی ذمہ داریوں سے...
اس وقت پاکستان کے معاشی حلقے میں جو بحث سب سے زیادہ گرم ہے وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ترمیمی بل 2021 ہے جس کی وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی ہے اور اب ایک صدارتی آردیننس کے ذریعے اس کو قانون بنانے کی تیاری کی جارہی ہے جس کے بعد یہ نافذ العمل ہوجائے گا۔ اس قانون کے تحت اسٹیٹ بینک کو اتنے وسیع اختیارات تفویض ہوجائیں گے کہ اس کی حیثیت ایک قومی اور حکومتی ادارے کی بجائے ایک آزاداور نجی ادارے جیسی ہوجائے گی جس پر حکومت پاکستان کا کوئی کنٹرول باقی نہیں رہے گا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حقیقت حکومتی خزانے یا بیت المال جیسی ہے ، کیونکہ ملک کے واحد سونے کے ذخائر جو کہ تقریبا 65 ٹن ہیں ، یہاں موجود ہیں ۔ اسی طرح زرمبادلہ یعنی بیرونی کرنسی کے بھی کم و بیش 90 فیصد ذخائر یہاں موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی بیرونی ادائیگیاں ہوتی ہیں وہ کمرشل بینکوں...
پی ڈی ایم اور ایک زرداری سب پر بھاری۔۔۔ ۔۔۔۔۔ عبدالکریم زرداری صاحب نے پی ڈی ایم کی رہی سہی عزت تار تار کر دی۔اب پاکستانی سیاست میں ہر طرف یہی نعرہ لگ رہا ہے ایک زرداری سب پر بھاری۔ ن لیگ کے علاوہ سارے لوگ زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت کے گن گا رہے ہیں کہ زرداری صاحب ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، سیاست کی شطرنج کے گاہک کھلاڑی ہیں، جس طرح سے موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کے لیے جگہ بنائی ہے حالانکہ پیپلز پارٹی وفاق کی پارٹی سے ایک صوبے کی پارٹی رہ گئی تھی۔ بہت سارے لوگوں کے خیال میں پیپلز پارٹی کو یہاں تک پہنچانے والے بھی زرداری صاحب ہی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جس طرح سے زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کو سنبھالا اس وقت پیپلز پارٹی بہت بکھر گئی تھی۔ جب محترمہ کی شہادت ہوئی، لگ رہا تھا کہ پارٹی کا کنٹرول نظریاتی...
گڈ بائے ہٹ مین ..... سالار سلیمان جب خان صاحب کے کارپوریٹ گرو اسد عمر وزارت خزانہ چلانے میں ناکام رہے تو پھر آئی ایم ایف کے اکانومی ہٹ مین حفیظ شیخ کو دبئی سے پاکستان امپورٹ کرلیا گیا۔ حفیظ شیخ دبئی میں اپنا بزنس وغیرہ کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کو خزانہ کا پورٹ فولیو تھمادیا گیا۔ قانونی مسائل کی وجہ سے وہ وزیر کے عہدے پر تو متمکن نہ ہوسکتے تھے، لہٰذا انہیں مشیر خزانہ بنا دیا گیا۔ لیکن باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ حفیظ شیخ کے پاس جو پاورز فار ایکسرسائز تھیں وہ کسی بھی وزیر سے کم نہیں تھیں۔ شیخ صاحب اس سے قبل زرداری کے وقت میں بھی وزارت خزانہ کی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں اور وہاں بھی انہوں نے مہنگائی کا طوفان برپا کردیا تھا۔ یہ اپنے پرانے باس کو بھی کوئی نیک نامی نہ دے سکے تھے۔ موجودہ حکومت میں بھی حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر پاکستان...
نئے زمانے کے شیخ چلی۔۔۔۔ محمد کامران شیخ چلی کی شخصیت سے کون واقف نہیں۔ ہم سب نے اس کی کہانی پڑھ رکھی ہے کہ کیسے اس نے اہلیت نہ ہونے کے باوجود ایسے خواب دیکھے جو اس کی پہنچ سے دور تھے۔ مگر وہ ان کو حاصل کرنے میں اس قدر پر اعتماد تھا کہ اس نے اپنا نقصان ہی کر ڈالا، یعنی انڈوں کی ٹوکری گرا کر تمام انڈے ہی توڑ ڈالے۔ یہی حال کچھ اس وقت پاکستان کی حکمراں جماعت کا ہے کہ تقریباً چھ فیصد کی شرح ترقی انھیں بہت کم لگی اور انھوں نے ملک کو سو فیصد ترقی یافتہ بنانے کا سوچا، مگر وہ منفی اعشاریہ چار پہ دھڑام سے جاگری۔ پھر بھینسوں، کٹوں، مرغیوں، انڈوں سے اس کو سہارا دینے کی سوجھی تو مرغیوں نے ہڑتال کردی اور انڈوں کی قیمت دگنی بڑھ گئی۔ پھر غریب عوام کا خیال دل میں سما گیا اور ان کےلیے کچھ کرنے کی سوجھی اور تاریخ میں پہلی بار غریب لوگوں کےلیے لنگر...
افغان امن عمل ۔۔۔۔ شمشاد احمد جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ امن جنگ کی عدم موجودگی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ممالک دوسرے ملکوں کے ساتھ جنگ نہ کر رہے ہوںوہ آپس میں امن سے رہ رہے ہوں۔ آج امن کا مطلب ریاستوں یا ممالک کے درمیان فوجی تنازع سے بڑھ کر کچھ ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے قوموں کے اندر ہم آہنگی اور آسودگی۔ یہی امن ہے جس کی افغانستان کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔ جاری افغان جنگ کے پورے عرصے میں بنیادی مسئلہ یہ نہیں رہا کہ یہ جنگ کس طرح لڑی جائے بلکہ یہ رہا ہے کہ اس کا خاتمہ کیسے کیا جائے گا۔ اس معاملے میں فوجی تاریخ کا جو بنیادی سبق نظرانداز کیا گیا‘ یہ ہے کہ آپ کو جنگ شروع نہیں کرنی چاہئے جب تک آپ کو یہ نہ معلوم ہوکہ اسے ختم کیسے کرنا ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے تناظر میں افغانستان پر حملہ کر دیا‘ دہشت گردی کے خلاف ایک غیرمتعلق...
ہماری شاہ خرچیاں ۔۔۔۔ امتیاز گل کہتے ہیں کہ مالِ مفت دلِ بے رحم‘ ہر وہ پیسہ جس کے کمانے پر خرچ کرنے والے کا پسینہ نہ بہا ہو وہ ان پیسوں کی قدر و قیمت کا اندازہ کبھی بھی نہیں لگا سکتا۔ وطن ِ عزیز کا یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی حکمران آیا اس نے پاکستان کے عوام پر خرچ ہونے والا پیسہ اپنا سمجھ کر خرچ کیا بلکہ اگر کہا جائے کہ اُڑایا تو زیادہ مناسب ہوگا۔ آیئے ہم آپ کو کچھ ایسے واقعات یاد دلائیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح ہمارے حکمران عوامی وسائل کو ذاتی جاہ و جلال پر خرچ کرتے ہیں۔مثلاً ایک قصہ آپ کو ایک ایسے افسر کا سناتے ہیں جس نے امریکہ میں پاکستانی سفارتحانہ کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں اپنی خدمات انجام دی ہیں ‘ ان کا کہنا ہے کہ 1998ء میں وزیر اعظم پاکستان امریکہ گئے اور بلیئر ہاؤس اور سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں مقیم رہے۔ ایک دن...
صدارتی ایوارڈ ؟ مولانا کو ؟؟ ۔۔۔۔۔۔ محمد اظہار الحق مہنگائی اپنی جگہ‘ اپوزیشن اور حزبِ اقتدار کی باہمی کشمکش اپنی جگہ‘پی ڈی ایم کا انتشار اپنی جگہ‘ اصل مسئلہ جو اس وقت مملکت کو درپیش ہے یہ ہے کہ مولانا کو تمغۂ حسن کار کردگی دے دیا گیا ہے۔آدھی سے زیادہ قوم اس پر پریشان ہے۔ دلوں میں اضطراب پَل رہا ہے۔ جسموں کے اندر روحیں بے چین ہیں کہ یہ کیا نئی بات ہو گئی۔ ایک مولانا کو ‘ ایک صاحبِ دستار و ریش کو‘ جس کا لباس ٹخنوں سے اوپر ہے‘ اتنا بڑا ایوارڈ مل گیا ہے!! حد ہو گئی!! اس سے پہلے بھی مولانا بہت سوں کی دل آزاری کا سبب بنے ہیں۔ ایک فاؤنڈیشن بنا ڈالی تاکہ اس کی آمدنی سے مدارس چل سکیں اور چندہ نہ مانگیں۔ اس پر بھی بہت سوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ تو کیا مدرسے اب ہمارے چندوں کے بغیر چلیں گے ؟ چندہ دینے والوں کا سٹیٹس جیسے اس سے مجروح...
ٹال مٹول، ڈبّا گول ۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان ہمارا قومی مزاج نمایاں طور پر جن چند باتوں کا مرکب ہے اُن میں معاملات کو ٹالتے رہنا بھی شامل ہے۔ اب یہ خصلت اس حد تک پروان چڑھ چکی ہے کہ کسی کو بری بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ٹال مٹول کی عادت مزاج کا حصہ بن کر زندگی کے کم و بیش ہر معاملے پر محیط ہوچکی ہے۔ معاملات یا کام کو ٹالتے رہنا کس حد تک مفید ہے؟ ہوسکتا ہے کسی کام کو ٹالنے کی صورت میں وقتی طور پر کچھ فائدہ پہنچ جائے اور وہ بھی معمولی سا مگر حتمی تجزیے میں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ٹال مٹول سے معاملات محض خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ معاملت اُسی وقت بارآور ثابت ہوتی ہے جب اُس کے تمام اجزا بروقت اور جامع ہوں۔ کوئی بھی معاملہ فائدہ تبھی دیتا ہے جب ہم اُسے وقت پر مکمل کرتے ہوئے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹال مٹول سے...
اتنا… زیادہ؟… ۔۔۔ مسعود اشعر آج کل ٹیلی وژن پر کچھ اس طرح کا ایک اشتہار نظر آتا ہے، ایک صاحب بڑے سے چمچے سے تیل کی دھار اوپر سے نیچے گرا رہے ہیں‘ اور حیرت سے آنکھیں اور منہ پھاڑے کہہ رہے ہیں ''اتنا... زیادہ؟‘‘ یہ اشتہار ہمیں جوہر ٹائون کے ایکسپو سنٹر جا کر یاد آیا جہاں کورونا کی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ ہم تو سمجھے تھے کہ یہ بھی ایسا ہی کوئی مرکز ہو گا جیسے عام طور ہمارے صحت کے مرکز ہوتے ہیں۔ وہی ضرورت مندوں کا ہجوم۔ وہی افرا تفری کا عالم۔ کسی کو یہ علم نہیں کہ کہاں جا نا ہے؟ اور وہاں کیا کرنا ہے؟ لیکن ایکسپو سنٹر پہنچ کر تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور منہ سے بے ساختہ نکلا ''اتنا زیادہ؟... اتنا اچھا؟ اتنا سلیقے کا؟ اتنا صاف ستھرا؟ کوئی افراتفری نہیں۔ کوئی کسی کو آگے پیچھے نہیں دھکیل رہا ہے۔ ہر شخص اپنی باری کا انتظار کر...
Myth۔۔۔۔۔ ڈاکٹر منور صابر Mythکا لفظ سچ یا حقیقت کے متضاد کے طور پر لیا جاتا ہے ۔اس سے مراد ایک ایسی بات ‘فلسفہ یا نظریہ لیا جاتا ہے جس کو عقیدے کی حد تک صحیح مانا جاتا ہے مگر یہ''عقیدہ‘‘ غلط ہوتا ہے ۔اس کی سب سے بڑی مثال اہلِ یونان کے ہاں پایا جانے والا عقیدہ تھا جس کے مطابق یہ لوگ درجنوں دیوی ‘دیوتائوں کی پوجا کرتے تھے ۔ان کے ہاں جنگ ‘محبت‘ہوا‘آگ وغیرہ کے دیوتا پائے جاتے تھے جن پر وہ لوگ یقین رکھتے تھے ۔اس فرسودہ یقین کو ختم کرنے کا سہرا عظیم سکالرسقراط کے سر جاتا ہے جس نے ایسے نظریات کو نہ صرف چیلنج کردیا تھا بلکہ اس پاداش میں زہر کا پیالہ بطور سزاپیا اور اپنی جان دے دی۔ سچ اور حقیقت کے علم کی تلاش کیلئے انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی قربانی مانی جاتی ہے ۔اس قربانی نے اہلِ یونان میں سوچ‘ فکر اور عمل کی ایک مکمل نئی راہ کھولی دی ‘اسی...
گھوڑے چھائوں میں باندھیں .... رؤف کلا سرا آج جو کچھ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے مابین دیکھنے میں آرہا ہے اس سے مجھے اگست 2007 کے لندن کے دن یاد آگئے۔ شریف برادران کو داد دیں‘ انہیں یہ فن خوب آتا ہے کہ کب مظلوم بن کر ہمدردیاں سمیٹنی ہیں اور موقع بنتے ہی ڈیل مارکر اقتدار بھی لے لینا ہے۔ اس وقت سینیٹ میں جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے شریف خاندان تو بڑا اصول پسند ہے‘ لیکن اس کے مخالفیں سیاسی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ شریفوں ساتھ بڑا ظلم ہوتا ہے اور ہر کوئی انہیں استعمال کرجاتا ہے اور یہ بے چارے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور ان کے ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔ زرداری صاحب کو تیز‘ چالاک بناکر پیش کیا جاتا ہے کہ 'زرداری سب پر بھاری‘ ہے۔ شریف جب چاہیں ڈیل کر لیں، جب چاہیں اصولی موقف کے نام پر پہاڑ پر چڑھ جائیں‘ کوئی کچھ نہیں کہتا۔ وہ...

Browse forums

Have Fun with PWPians

Events & Festivals

English Literature Forum

Library

Education, Knowledge & IT

Contests, Awards, Interviews

Children & Parenting

Back
Top