Umar kat jaey aane jane mein - Muhammad Izhar ul Haq Column

عمر کٹ جائے آنے جانے میں
محمد اظہار الحق

یہ میری آنکھیں مُند کیوں رہی ہیں؟ یہ خون میں لرزش سی کیوں ہے؟ یہ رگوں میں لہو ہے یا مشعلیں جل رہی ہیں؟

یہ راستہ جس پر گاڑی دوڑ رہی ہے، کیا وہی ہے جس پر اونٹنی اِس کائنات کے مقدس ترین سوار کو لے کر چلی تھی؟ ہمارا کوچوان بتاتا ہے کہ یہ وہی راستہ ہے! یہ رخسار بھیگ کیوں رہے ہیں؟ یہ راستہ ہے یا نور کی لکیر ہے! ہم یہاں رینگ رینگ کر کیوں نہیں چل رہے! ہم ایک ایک کنکر کو، مٹی کے ایک ایک ذرے کو چوم کیوں نہیں رہے!

وہ آٹھ دن کا سفر تھا۔ دو بے یار و مددگار راہِ ہجرت کے مسافر اور ایک بدرقہ! چشمِ فلک نے ایسا قافلہ اس سے پہلے دیکھا نہ اس کے بعد! پندرہ صدیاں ہو چکیں۔ کھرب ہا کھرب زائرین اس قافلے کے تتبّع میں، مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ کا سفر کر رہے ہیں۔ قیامت تک کرتے رہیں گے!
دنیا کی کوئی لغت، فنونِ لطیفہ کی کوئی صنف، اظہار کا کوئی ذریعہ، ابلاغ کا کوئی ڈھنگ، اُن جذبات کی ترجمانی نہیں کر سکتا جو زائر کے دل میں اُس وقت ابھرتے ہیں جب وہ مدینۃ النبی میں داخل ہوتا ہے۔ مدینۃ النبی! جس کے درختوں پر پرندے آسمانی ہیں! جس کے کوچوں میں کنکر ہیرے اور پتھر موتی ہیں! جس کی ہوائیں بہشتی ہیں۔ جس کی فضا جنت کو چھو کر آتی ہے ۔ یہاں وہ مقدس پائوں پڑے تھے جو اصحابِ رسول کے سینوں پر پڑے اور سینے ستاروں سے بھر گئے۔ یہاں وہ مسجد ہے جو گارے اور کھجور کی ٹہنیوں سے بنی، آج جس میں لاکھوں افراد بیک وقت جمع ہو کر درود و سلام پڑھتے ہیں اور سجدہ ریز ہوتے ہیں! ہر بادشاہ، ہر شہنشاہ، ہر حکمران کی یہی خواہش تھی کہ اپنے ہاتھوں، اپنے عہد میں، اس مسجد کے لیے کچھ کر جائے! جس رسولﷺ نے امت کے لیے فاقے کیے، اُس کی امت آج آسودہ حال ہے! مسجد میں قیمتی پتھر لگے ہیں، گراں بہا قالینیں ہیں! جھاڑ اور فانوس ہیں! عنبر اور عود کی خوشبوئیں ہیں! مسجد کے چاروں طرف اعلیٰ درجے کی اقامت گاہیں ہیں۔ اشیائے خور و نوش کی افراط ہے! دنیا بھر کے پکوان اور میوہ ہائے تازہ و شیریں میسّر ہیں! مالِ تجارت سے بازار بھرے ہیں۔ یہ سب اُن فاقوں کا صدقہ ہے جو آپﷺ نے کیے۔ یہ سب اُن پتھروں کا کمال ہے جو بھوک کی وجہ سے آپﷺ نے پیٹ پر باندھے! یہ سب اُس چٹائی کا معجزہ ہے جس پر جسمِ اطہر استراحت فرماتا تھا تو جسمِ اطہر پر چٹائی کے نشان پڑ جاتے تھے۔ یہ سب اُس ریت کا اعجاز ہے جس پر آپﷺ تشریف فرما ہوتے تھے۔ صبح آپﷺ سے پوچھ کر شعائیں بکھیرتی تھی۔ ستارے اجازت لے کر طلوع ہوتے تھے۔ چاند انگلی کے اشارے سے دو حصّوں میں بٹ جاتا تھا۔

مکّہ سے مدینہ کا بے یارو مددگار سفر! راستے میں سراقہ بد نیتی سے سامنے آیا۔ گھوڑے کے پائوں زمین میں دھنس گئے۔ تائب ہوا! مقدس لبوں سے خوشخبری ملی کہ کسریٰ کے کنگن پہنو گے! پھر اس نے امیرالمومنین عمر فاروقؓ کے عہدِ مبارک میں کسریٰ کے کنگن پہنے! یہ بھی ہجرت کا معجزہ تھا!

مکہ سے مدینہ کا کیا ہی انوکھا، اچھوتا سفر تھا! ہر روز اہلِ یثرب اپنے گھروں، اپنی دکانوں، اپنے کارخانوں سے نکلتے اور مکہ سے آنے والے راستے پر جا بیٹھتے! وہ راستہ دیکھتے کہ ان کا مہمان آ رہا ہے یا نہیں! کبھی اونچی چٹانوں پر، کبھی اونچے درختوں پر، پھر شام کا اندھیرا پھیلنے لگتا۔ وہ نا امید ہو کر گھروں کو لوٹ جاتے۔ دوسرے دن پھر آتے اور راستہ دیکھنا شروع کر دیتے۔ وہ جس مہمان کے منتظر تھے، ویسا مہمان دنیا کے کسی اور شہر کو، کسی اور شہر کے مکینوں کو آج تک نصیب نہیں ہوا۔ پھر بخت نے یاوری کی! یثرب کی گلیوں کی قسمت جاگ اٹھی! وہ اونٹنی کے دائیں بائیں چل رہے تھے اور ان کے دل اچھل اچھل کر حلق تک آ رہے تھے کہ اونٹنی کہاں بیٹھتی ہے۔ پھر اونٹنی، خالقِ کائنات کی رضا سے، اُس گھر کے سامنے بیٹھی جس کا مکین آج قسطنطنیہ میں محوِ خواب ہے! کیا معجزہ تھا اس مسافر اونٹنی کا! سینکڑوں سال پر محیط سلطنت عثمانیہ کا ہر حکمران اپنا دورِ حکومت حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری سے آغاز کرتا! شاید ہی کوئی ایسا مسلمان ہو جو استانبول آئے اور آپؓ کے مزار پر نہ حاضر ہو! کیا میزبانی تھی جس کا شرف ابو ایوب انصاریؓ کو ملا! اب بھی آپ لاکھوں، کروڑوں زائرین کی میزبانی فرما رہے ہیں! قیامت تک یہ میزبانی جاری رہے گی!

مسجد نبوی میں امام مالکؒ حدیث کا درس دیتے تو فرطِ ادب سے نامِ نامی زبان پر نہ لاتے! بس یہ کہتے کہ اس قبر میں سونے والے نے یہ فرمایا ! مدینہ کی گلیوں میں امام مالکؒ برہنہ پا چلتے کہ جوتے پہنے تو بے ادبی ہو گی!

چشمِ تصوّر سے فضا میں اٹھ کر دیکھیے! کرۂ ارض سے کتنے فاصلے مدینۃ النبی کی سمت رواں ہیں! ہر آن! ہر لمحہ! ہر لحظہ! اس وقت بھی جب گناہوں کا یہ پُتلا مسجد نبوی کے ایک کونے کے پاس بیٹھ کر یہ سطور لکھ رہا ہے! اُس وقت بھی جب لوگ یہ سطور اخبار پر اور انٹرنیٹ پر پڑھ رہے ہوں گے، یہ قافلے مسلسل مدینہ کی طرف رواں ہیں! انڈونیشیا سے‘ فجی سے، نیوزی لینڈ سے، جاپان سے، وسطی ایشیا سے، جنوبی ایشیا کے ملکوں سے، شرقِ اوسط سے، افریقہ سے، یورپ سے، امریکہ سے!

یہاں مالدیپ سے آئے ہوئے زائر ہیں! چینی ہیں جن کی داڑھیوں کے بال صرف ان کی ٹھوڑیوں پر ہیں! افغان ہیں جن کی کالی پگڑیوں کے سرے ان کی کمر کمر تک ہیں! ایک زائر کو دیکھا جس نے لمبے بالوں کی پونی کی ہوئی تھی! عبائوں اور چغوں والے بھی تھے۔ پتلونوں والے بھی! تہمد پوش بھی! شلوار قمیصوں والے بھی! عورتیں ڈھکے ہوئے چہروں والی اور کھلے چہروں والی! مشرقِ بعید والے زرد رُو بھی تھے۔ مغرب کے سفید فام بھی! افریقہ کے زنگی بھی، جنوبی ایشیا اور مصر کے گندمی بھی! اس زمین پر، اس آسمان کے نیچے، کوئی اور ایسا ملک نہیں جہاں بیک وقت اتنی زبانوں، اتنی نسلوں، اتنے لباسوں، اتنی مختلف قامتوں والے لوگ اکٹھے ہوں اور سارا سال، آتے رہیں جاتے رہیں! حافظ محمد ظہورالحق ظہور نے کہا تھا؎

طیبہ جائوں اور آئوں پھر جائوں
عمر کٹ جائے آنے جانے میں

کئی سال ہوئے یارِ طرحدار شعیب بن عزیز نے شکوہ کیا تھا اور کیا ہی شیریں شکوہ تھا کہ اس فقیر کا یہ شعر؎

کئی موسم مجھ پر گزر گئے احرام کے ان دو کپڑوں میں
کبھی پتھر چوم نہیں سکتا کبھی اذنِ طواف نہیں ہوتا
اُن کے عمر ے پر چھایا رہا۔

آج جامیؔ ہوتے تو شکوہ تو کیا کرتا، ان کے پائوں پکڑ کر شکریہ ادا کرتا، خراجِ تحسین پیش کرتا! حسّان بن ثابت کی نعت کو تو استثنیٰ حاصل ہے۔ آپﷺ کے حضور پڑھی! اس نعت کا کیا جواب ہو سکتا ہے! اس کے بعد جامیؔ کی نعت کا بھی جواب نہیں! ادھر اس عاصی نے مدینہ کا رُخ کیا، ادھر زبان پر اشعار رواں ہو گئے!

زمہجوری برآمد جانِ عالم/ ترحم یا نبی اللہ ترحم/ نہ آخر رحمۃ اللعالمینی/ ز محروماں چرا غافل نشینی!/ بروں آور سر از بُرد یمانی/ کہ روئے تست صبحِ زندگانی/ شبِ اندوہِ ما را روز گرداں/ ز رویت روز ما فیروز گرداں/ بہ تن در پوش عنبر بوئی جامہ/ بسر بر بند کافوری عمامہ/ ز حجرہ پائے در صحنِ حرم نہ/ بفرقِ خالِ رہ بوساں قدم نہ!

ہجر سے کُل عالم کی جان نکلی جا رہی ہے ! رحم فرمائیے اللہ کے نبی! رحم فرمائیے! آپ رحمۃ اللعالمین ہیں، محروموں سے کیوں بے نیاز ہیں؟ یمنی چادر سے اپنا مبارک سر باہر نکالیے کہ آپ کا چہرہ ہی تو زندگی کی صبح ہے! ہماری اندوہناک رات کو دن کر دیجیے اور اپنے رُخ انور سے ہمارے دن کو ظفر یاب فرما دیجیے! عنبر کی خوشبو والا ملبوس زیب تن فرمائیے! سر پر کافوری عمامہ رکھیے! حجرۂ پاک سے حرم کے صحن میں قدم رنجہ فرمائیے۔ آپ کی خاکِ رہ کو چومنے والے منتظر ہیں۔ ان کے سر پر پائے مبارک رکھیے۔​
 
ہجر سے کُل عالم کی جان نکلی جا رہی ہے ! رحم فرمائیے اللہ کے نبی! رحم فرمائیے! آپ رحمۃ اللعالمین ہیں، محروموں سے کیوں بے نیاز ہیں؟ یمنی چادر سے اپنا مبارک سر باہر نکالیے کہ آپ کا چہرہ ہی تو زندگی کی صبح ہے! ہماری اندوہناک رات کو دن کر دیجیے اور اپنے رُخ انور سے ہمارے دن کو ظفر یاب فرما دیجیے! عنبر کی خوشبو والا ملبوس زیب تن فرمائیے! سر پر کافوری عمامہ رکھیے! حجرۂ پاک سے حرم کے صحن میں قدم رنجہ فرمائیے۔ آپ کی خاکِ رہ کو چومنے والے منتظر ہیں۔ ان کے سر پر پائے مبارک رکھیے۔
ماشاءاللہ
اللہ اکبر
بہت عمدہ
شیئر کرنے کا شکریہ
 

@Maria-Noor
آمین یا رب العالمین
یہ دعا ہے
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
@intelligent086
ثم آمین
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top