Resham se Rumiyun ki mohabbat By Rizwan Ata

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
ریشم سے رومیوں کی محبت ........ تحریر : رضوان عطا

resham.jpg

شاہراہِ ریشم دورِ قدیم میں تجارتی راستوں کا ایک جال تھا۔ رسمی طور پر اس کا قیام چین کی ہان سلطنت کے دور میں عمل میں آیا۔ 130 ق م سے 1453ء تک اس شاہراہ نے دورِ قدیم کے خطوں کے درمیان رابطہ قائم رکھا۔ شاہراہِ ریشم چونکہ مشرق سے مغرب کی جانب کوئی ایک راستہ نہیں تھا ، اس لیے تاریخ دانوں میں ’’ریشمی راستے‘‘ (سِلک روٹس) کی اصطلاح زیادہ مقبول ہو رہی ہے، البتہ ’’شاہراہِ ریشم‘‘ زیادہ عام اور جانی مانی ہے۔ یورپی سیاح اور مہم جُو مارکو پولو (1254-1324ء) نے ان راستوں پر سفر کیا اور اپنے معروف کتاب میں بہت تفصیل سے انہیں بیان کیا۔ لیکن نام دینے کا سہرا اس کے سر نہیں۔ راستوں کے اس جال کے لیے دو اصطلاحوں کو جرمن جغرافیہ دان اور سیاح فرڈینینڈ وان رختھوفن نے 1877ء میں سب سے پہلے برتا جو جرمن زبان میں ’’Seidenstrasse‘‘ (شاہراہِ ریشم) یا ’’Seidenstrassen‘‘ (ریشمی راستے) ہیں۔ مارکو پولو اور بعد ازاں وان رختھوفن نے ان اشیا کا ذکر کیا ہے جن کی نقل و حمل شاہراہِ ریشم پر ہوا کرتی تھی۔ مغرب سے مشرق جانے والی اشیا یہ تھیں: گھوڑے، زین اور گھڑ سواری کا سامان۔ انگوری بیل اور انگور۔ کتے اور دوسرے نمائشی اور پالتو جانور۔ جانوروں کی پشم اور چمڑا۔ شہد۔ پھل۔ شیشے کے ظروف۔ اون کے کمبل، دریاں اور قالین۔ پارچہ جات، جیسا کہ پردے۔ سونا اور چاندی۔ اونٹ۔ غلام۔ ہتھیار اور زرہ۔ مشرق سے مغرب جانے والی اشیا یہ تھیں:ریشم۔ چائے۔ رنگ و روغن۔ قیمتی پتھر۔ چینی کی پلیٹیں، پیالے، اور چینی مٹی۔ مصالحے، جیسا کہ دارچینی اور ادرک۔ تانبے اور سونے کی مصنوعات۔ دوائیں۔ خوشبوئیں۔ ہاتھی دانت۔ چاول۔ کاغذ۔ بارود۔ راستوں کے اس جال کا استعمال 130 ق م سے باقاعدگی سے اس وقت ہونے لگا جب ہان سلطنت نے مغرب سے تجارت کو رسمی طور پر کھولا۔ یہ تجارت 1453ء تک ہوتی رہی لیکن اس برس سلطنتِ عثمانیہ نے مغرب سے تجارت کا بائیکاٹ کر دیا اور تجارتی راستے بند کر دیے۔ اس وقت تک یورپی مشرقی اشیا کے عادی ہو چکے تھے۔ شاہراہِ ریشم بند ہونے پر تاجروں کو اشیا کی طلب پوری کرنے کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ شاہراہِ ریشم کی بندش نے عہدِ دریافت (1453-1660ء) کا آغاز کیا جس سے زمینی راستوں کے متبادل کے لیے یورپی مہم جوؤں کا نئے بحری راستوں کے لیے نکلنا مراد لی جاتی ہے۔ عہدِ دریافت نے دنیا بھر کی ثقافتوں پر اثر ڈالا کیونکہ بحری جہازوں کے ذریعے آمد پر یورپیوں نے اپنے مذہب اور ملک کے نام پر بعض خطوں پر اپنا حق جتایا تو بعض کو مغربی ثقافت اور مذہب سے متاثر کیا۔ اسی کے ساتھ دوسری اقوام بھی یورپی ثقافت پر اثر انداز ہوئیں۔ شاہراہِ ریشم نے اپنے آغاز سے اختتام تک عالمی تمدن کی نشوونما پر اتنا اثر ڈالا کہ اس کے بغیر جدید دنیا کو تصور میں لانا مشکل ہے۔ فارس کی شاہراہِ شاہی: شاہراہِ ریشم کی تاریخ عملاً ہان سلطنت کے قیام سے پہل کی ہے کیونکہ فارس کی شاہراہِ شاہی (پرشین رائل روڈ)، جو بعدازاں شاہراہِ ریشم کا اہم ترین حصہ بنی، ہخامنشی سلطنت (500-330 ق م) میں قائم کی گئی تھی۔ شاہراہِ شاہی فارس کے شمال میں (موجودہ ایران) شوش سے شروع ہو کر مشرق قریب میں بحیرہ روم تک (موجودہ ترکی) جاتی تھی۔ اس کی خاص بات راستے میں موجودہ چوکیاں تھیں جہاں تازہ دم گھوڑے قافلوں کے پیغامات پوری سلطنت میں پہنچانے کے لیے تیار رہتے۔ ہیروڈوٹس فارس کے پیغام بروں کی رفتار اور قابلیت کے بارے میں لکھتا ہے: ’’دنیا میں فارس کے قاصدوں سے تیز رفتار کوئی چیز نہیں۔ نہ برف باری، نہ بارش، نہ گرمی اور نہ ہی رات کا اندھیرا ان قاصدوں کو انتہائی تیز رفتاری سے اپنے منزل تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں۔‘‘ اہلِ فارس شاہراہِ شاہی کا بہت خیال رکھتے تھے اور یہ چھوٹے ذیلی راہوں تک بھی پھیل جاتی تھی۔ یہ راستے میسوپوٹامیا، مصر اور برصغیر کے اندر جاتے تھے۔ چین اور مغرب: فارس پر فتح پانے کے بعد سکندراعظم نے وادیٔ فرغانہ (جدید تاجکستان) میں سکندریہ اسخاتہ کا شہر بسایا۔ اپنے زخمی سپاہیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سکندر آگے بڑھ گیا۔ وقت کے ساتھ ان مقدونی جنگجوؤں کی شادیاں مقامی لوگوں میں ہوئیں جس سے یونانی و باختری ثقافت تشکیل پائی اور یہ سکندر کی موت کے بعد سلوقی سلطنت میں پھلی پھولی۔ یونانی و باختری بادشاہ یوتھیدیموس (260-195 ق م ) کے دور میں یونانیوں و باختریوں نے اپنے اقتدار کو وسیع کیا۔ یونانی تاریخ دان سٹرابو (63-24ء) کے مطابق یونانیوں نے ’’اپنی سلطنت سیرس تک پھیلا دی تھی۔‘‘ یونانی اور رومی چین کو ’’سیرس‘‘ کے نام سے جانتے تھے جس کا مطلب ہے ’’وہ سرزمین جہاں سے ریشم آتا ہے‘‘۔ اسی لیے خیال کیا جاتا ہے کہ چین اور مغرب کے مابین پہلا رابطہ 200 ق م کے لگ بھگ ہوا۔ چین کی ہان سلطنت (202 ق م تا 220ء ) کو شمالی اور مغربی سرحدوں پر شونگ نو کے خانہ بدوش قبائل مسلسل ہراساں کیے رکھتے تھے۔ 138 ق م میں، شہنشاہ وو نے اپنے سفیرجونگ چین کو مغرب میں یوئے چی لوگوں کے پاس مذاکرات کے لیے بھیجا تاکہ شونگ نو والوں کو شکست دینے کے لیے ان کی مدد حاصل کی جا سکے۔ سفر کے دوران سفیر کا رابطہ وسط ایشیا کی بہت سی ثقافتوں اور تمدنوں سے ہوا، ان میں وہ بھی شامل تھے جنہیں اس نے ڈایوان اور’’عظیم آئیونی‘‘ کہا جو سکندراعظم کی فوج کی اولاد سے تھے اور یونانی و باختری تھے۔ جونگ چین نے واپسی پر بتایا کہ ڈایوان کے پاس بہت بڑے گھوڑے ہیں، اور غارت گری کرنے والے شونگ نو لوگوں کے خلاف انہیں کامیابی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جونگ چین کے سفر کے نتائج یہ ہوئے کہ چین اور مغرب کے درمیان رابطے نہ صرف بڑھ گئے بلکہ گھڑسوار دستوں کو مضبوط بنانے کے لیے چین میں گھوڑوں کی افزائش کا ایک منظم اور مؤثر منصوبہ شروع کیا گیا۔ شانگ سلطنت (-1046 1600 ق م) سے چین میں گھڑسوار دستوں اور گھوڑے کے چھکڑوں کا استعمال ہو تا تھا لیکن بڑی جسامت اور رفتار کی وجہ سے چینی مغربی گھوڑوں کو پسند کرتے تھے۔ ڈایوان کے مغربی گھوڑوں کے ساتھ ہان سلطنت نے شونگ نو کے قبائل کو شکست دی۔ اس کامیابی سے شہنشاہ وو سوچنے لگا کہ مغرب سے تجارت کرکے مزید کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے اور پھر 130 ق م میں شاہراہِ ریشم کو کھولا گیا۔ 171 ق م سے 138 ق م کے دوران پارتھیا کے مہرداد اول نے میسوپوٹامیا میں اپنی سلطنت کے پھیلاؤ اور استحکام کے لیے مہم شروع کی۔ سلوقی بادشاہ اینٹیوکوس ہفتم سیڈیٹس (138-129 ق م) نے اس توسیع کی مزاحمت کی۔ وہ اپنے بھائی ڈیمیٹریوس کی موت کا بدلہ لینے کا بھی خواہش مند تھا۔ مگر اینٹیوکوس کی شکست کے ساتھ میسوپوٹامیا پارتھیوں کے زیرانتظام آ گیا اور اس کے ساتھ شاہراہِ ریشم کا کنٹرول بھی۔ اس کے بعد پارتھی چین اور مغرب کے درمیان اہم ترین واسطہ بن گئے۔ شاہراہِ ریشم سے اشیا کی تجارت: اگرچہ شاہراہِ ریشم سے بہت سی اقسام کا سامانِ تجارت گزرتا تھا، لیکن اس کا نام مغرب بالخصوص روم میں چینی ریشم کی مقبولیت کی وجہ سے رکھا گیا۔ شاہراہِ ریشم کے راستے چین سے برصغیر، ایشیائے کوچک، میسوپوٹامیا، مصر، براعظم افریقہ، یونان، روم اور برطانیہ تک پھیلے ہوئے تھے۔ شمالی میسوپوٹامیا کا خطہ (موجودہ ایران) چین کا قریبی تجارتی شریک تھا اور پارتھی سلطنت میں دونوں کے مابین ثقافتی تبادلے بھی ہوئے۔ ہان سلطنت میں ایجاد ہونے والا کاغذ، اور چینیوں کا ایجادکردہ بارود ریشم سے بڑھ کر ثقافتوں پر اثرانداز ہوا۔ مشرق کے قیمتی مصالحوں نے بھی ریشم کی صنعت سے پیدا شدہ فیشن سے زیادہ اثر ڈالا۔ رومی شہنشاہ آگسٹس (دورِ اقتدار 27 ق م تا 14ء) کے عہد تک چین اور مغرب کے درمیان تجارت مستحکم ہو چکی تھی اور مصر، یونان اور خاص طور پر روم میں ریشم کی بہت مانگ تھی۔ روم میں ریشمی کپڑے کی مقبولیت : شہنشاہ بننے سے پہلے آگسٹس نے ریشمی کپڑوں کے متنازع موضوع کو چھیڑ کر اپنے مخالفین مارک انتونی (83-30 ق م) اور قلوپطرہ ہفتم (69-30 ق م) کو نیچا دکھایا۔ دونوں چینی ریشم کو پسند کرتے تھے تاہم یہ عیاشی کی علامت سمجھا جانے لگا تھا۔ آگسٹس نے اس کا فائدہ اٹھا کر مخالفوں کو ناقابل قبول قرار دیا۔ اس نے اگرچہ انتونی اور قلوپطرہ پر فتح پا لی لیکن ریشم کی مقبولیت کم کرنے کے لیے وہ کچھ نہ کر سکا۔ تاریخ دان ول ڈیورنٹ لکھتا ہے: ’’رومیوں کا خیال تھا کہ یہ (ریشم) ایک نباتی پیداوار ہے جسے درختوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور وہ اسے سونے جیسا قیمتی سمجھتے۔ بیشتر ریشم جزیرہ کوس آتا تھا، جہاں اس سے روم اور دوسرے شہروں کی عورتوں کے لباس تیار کیے جاتے تھے؛ 91ء میں میسینیا کی نسبتاً غریب ریاست نے اپنے ہاں ریشم کے شفاف لباس پہننے پر مذہبی اعتراضات کی بنا پر پابندی لگا دی۔‘‘سنیکا جواں عمر (4 ق م تا 65ء) کے دورِ حکمرانی تک رجعت پسند رومی آگسٹس سے بڑھ کر چینی ریشم کو عورتوں کے لیے غیر اخلاقی اور مردوں کے لیے زنانہ کپڑا کہنے لگے تھے۔ اس تنقید کے باوجود روم میں ریشم کی تجارت نہ رک سکی۔ جزیرہ کوس ریشمی کپڑے تیار کرنے کی وجہ سے دولت مند اور پُرتعیش ہو گیا۔ جیسا کہ ڈیورنٹ لکھتا ہے، ’’تجارت کا توازن اٹلی کے حق میں نہیں تھا…بیچنے سے زیادہ وہ خریدتا تھا‘‘۔ اس کے باوجود چین کو قیمتی اشیا برآمد کی جاتی تھیں مثلاً ’’قالین، جواہرات، امبر، دھاتیں، رنگ و روغن، ادویات اور شیشہ۔‘‘ شہنشاہ مارکوس آریلوس (دورِ اقتدار 161 تا 180ء) کے عہد تک روم میں سب سے قیمتی جنس ریشم تھی اور اس کی تجارت یا اس کے رواج پر کسی قسم کی رجعتی تنقید بظاہر اثرانداز نہ ہوئی۔ آریلوس کے بعد بھی 476ء میں سلطنت روم کے انحطاط تک ریشم مقبول رہا، تاہم یہ زیادہ قیمتی ہوتا گیا۔ سلطنتِ روم کا مشرقی نصف قائم رہا جسے بازنطینی سلطنت کے طور پر جانا جاتا ہے اور جہاں ریشم سے دیوانگی برقرار رہی۔ 60ء کے لگ بھگ مغرب جان گیا کہ ریشم چین میں درختوں پر نہیں اگتا بلکہ ریشم کا کیڑا اسے بناتا ہے۔ چینیوں نے جان بوجھ کر ریشم کی حقیقت کو راز رکھا ہوا تھا، اور جب یہ راز افشاں ہو گیا تو وہ ریشم کے کیڑوں اور ریشم کی تیاری کے عمل کی حفاظت کرنے لگے۔ بازنطینی شہنشاہ جسٹینین (527- 565ء) مہنگے چینی ریشم کی قیمت ادا کرتے تھک چکا تھا۔ اس نے چین سے ریشم کے کیڑے چوری کرنے اور انہیں مغرب سمگل کرنے کے لیے جوگیوں کے بھیس میں دو افراد بھیجے۔ یہ منصوبہ کامیاب رہا اور اس سے بازنطینی ریشم کی صنعت کا آغاز ہوا۔ جب 1453ء میں بازنطینی سلطنت ترکوں کے ہاتھوں ختم ہوئی تو سلطنت عثمانیہ نے شاہراہِ ریشم کو بند کر دیا اور مغرب سے تمام تعلقات منقطع کر لیے۔ شاہراہِ ریشم کی میراث: شاہراہِ ریشم کی سب سے قابلِ قدر چیز ثقافتی تبادلہ ہے۔ فن، مذہب، فلسفہ، ٹیکنالوجی، زبان، سائنس، فنِ تعمیر اور تمدن کے دوسرے تمام اجزا کا ان راستوں سے تبادلہ ہوا۔ انہی راستوں پر تجارتی سامان ایک سے دوسرے ملک لایا جاتا۔ راستوں کے اس جال کے ساتھ بیماریوں نے بھی سفر کیا، جس کا ثبوت 542ء کا بوبونی طاعون ہے جو شاہراہِ ریشم کے راستے قسطنطنیہ پہنچا اور جس نے بازنطینی سلطنت برباد کر ڈالی۔ شاہراہِ ریشم کی بندش کے راستے تاجر سمندر سے تجارت کرنے پر مجبور ہوئے جس سے عہدِ دریافت کا آغاز ہوا، اسی سے عالمی سطح پر رابطہ قائم ہوا اور عالمی برادری وجود میں آئی۔ اپنے وقتوں میں شاہراہِ ریشم سے لوگوں کی کرۂ ارض کے بارے میں جانکاری میں وسعت آئی، اس کی بندش نے یورپیوں کو سمندر پار دریافتوں کی طرف مائل کیا جس کے نتیجے میں انہوں نے نام نہاد ’’امریکا کی نئی دنیا‘‘ کو فتح کیا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جدید دنیا کے قیام کی بنیادیں شاہراہِ ریشم نے رکھیں۔ (تحریر: جوشا جے مارک)​
 

مصر، یونان اور خاص طور پر روم میں ریشم کی بہت مانگ تھی۔ روم میں ریشمی کپڑے کی مقبولیت : شہنشاہ بننے سے پہلے آگسٹس نے ریشمی کپڑوں کے متنازع موضوع کو چھیڑ کر اپنے مخالفین مارک انتونی (83-30 ق م) اور قلوپطرہ ہفتم (69-30 ق م) کو نیچا دکھایا۔ دونوں چینی ریشم کو پسند کرتے تھے تاہم یہ عیاشی کی علامت سمجھا جانے لگا تھا۔ آگسٹس نے اس کا فائدہ اٹھا کر مخالفوں کو ناقابل قبول قرار دیا۔ اس نے اگرچہ انتونی اور قلوپطرہ پر فتح پا لی لیکن ریشم کی مقبولیت کم کرنے کے لیے وہ کچھ نہ کر سکا۔ تاریخ دان ول ڈیورنٹ لکھتا ہے: ’’رومیوں کا خیال تھا کہ یہ (ریشم) ایک نباتی پیداوار ہے جسے درختوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور وہ اسے سونے جیسا قیمتی سمجھتے۔ بیشتر ریشم جزیرہ کوس آتا تھا، جہاں اس سے روم اور دوسرے شہروں کی عورتوں کے لباس تیار کیے جاتے تھے؛ 91ء میں میسینیا کی نسبتاً غریب ریاست نے اپنے ہاں ریشم کے شفاف لباس پہننے پر مذہبی اعتراضات کی بنا پر پابندی لگا دی۔‘‘سنیکا جواں عمر (4 ق م تا 65ء) کے دورِ حکمرانی تک رجعت پسند رومی آگسٹس سے بڑھ کر چینی ریشم کو عورتوں کے لیے غیر اخلاقی اور مردوں کے لیے زنانہ کپڑا کہنے لگے تھے۔ اس تنقید کے باوجود روم میں ریشم کی تجارت نہ رک سکی۔ جزیرہ کوس ریشمی کپڑے تیار کرنے کی وجہ سے دولت مند اور پُرتعیش ہو گیا۔ جیسا کہ ڈیورنٹ لکھتا ہے، ’’تجارت کا توازن اٹلی کے حق میں نہیں تھا…بیچنے سے زیادہ وہ خریدتا تھا‘‘۔ اس کے باوجود چین کو قیمتی اشیا برآمد کی جاتی تھیں مثلاً ’’قالین، جواہرات، امبر، دھاتیں، رنگ و روغن، ادویات اور شیشہ۔‘‘ شہنشاہ مارکوس آریلوس (دورِ اقتدار 161 تا 180ء) کے عہد تک روم میں سب سے قیمتی جنس ریشم تھی اور اس کی تجارت یا اس کے رواج پر کسی قسم کی رجعتی تنقید بظاہر اثرانداز نہ ہوئی۔ آریلوس کے بعد بھی 476ء میں سلطنت روم کے انحطاط تک ریشم مقبول رہا، تاہم یہ زیادہ قیمتی ہوتا گیا۔ سلطنتِ روم کا مشرقی نصف قائم رہا جسے بازنطینی سلطنت کے طور پر جانا جاتا ہے اور جہاں ریشم سے دیوانگی برقرار رہی۔ 60ء کے لگ بھگ مغرب جان گیا کہ ریشم چین میں درختوں پر نہیں اگتا بلکہ ریشم کا کیڑا اسے بناتا ہے۔ چینیوں نے جان بوجھ کر ریشم کی حقیقت کو راز رکھا ہوا تھا، اور جب یہ راز افشاں ہو گیا تو وہ ریشم کے کیڑوں اور ریشم کی تیاری کے عمل کی حفاظت کرنے لگے۔ بازنطینی شہنشاہ جسٹینین (527- 565ء) مہنگے چینی ریشم کی قیمت ادا کرتے تھک چکا تھا۔ اس نے چین سے ریشم کے کیڑے چوری کرنے اور انہیں مغرب سمگل کرنے کے لیے جوگیوں کے بھیس میں دو افراد بھیجے۔ یہ منصوبہ کامیاب رہا اور اس سے بازنطینی ریشم کی صنعت کا آغاز ہوا۔ جب 1453ء میں بازنطینی سلطنت ترکوں کے ہاتھوں ختم ہوئی تو سلطن م
اتنی پرانی تاریخ اور ہم آج دیکھ رہے ہیں ہمیں تو سی پیک کا ہی پتہ ہے
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 
Back
Top