Dehati aurat bi isi muashray ka hissa hai By Raheela Aslam Article


دیہاتی عورت بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے

aurat.jpg

تحریر : راحیلہ اسلم
عورت اور مرد دونوں زندگی کے ساتھ اور گاڑی کے دو پہیے کہلاتے ہیں اور کسی ایک کے بغیر زندگی کا تصور بہت روکھا پھیکا سا لگتا ہے اور یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ زندگی کو بڑھانے اور قائم رکھنے میں عورت کا بہت بڑا حصہ ہے


aurat1.jpg


ان سب باتوں کے باوجود ہمارے معاشرے میں عورت کی حیثیت بہت کم ہے اسے وہ درجہ اور مقام نہیں دیا جاتا جس کی وہ حقدار ہے ہمیشہ اسے مردوں سے کم تر تصور کیا جاتا ہے یہاں تک کہ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کے مرد بھی عورتوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں جب ہماری شہری آبادی کے انتہائی قابل مرد ایسا سوچیں گے تو دیہاتی آبادی کے بارے میں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جہاں کہ عورت خوراک ، لباس ، آرام ، سہولت، صحت، تعلیم اور احترام سے تقریباََ محروم رہتی ہے اور شاید بہت سے پڑھنے والوں کو عورت کے متعلق میرے یہ الفاظ انتہا پسندی نظر آئیں مگر ایسا ہر گز بھی نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی بھی ذی شعور دیہاتوں کا رخ کرے اور وہاں کے گھروں، زچہ خانوں اور سکولوں میں جا کر گہری نظر سے سروے کرے تو روز روشن کی طرح یہ حقیقت سامنے آ جائے گی کہ دیہاتی طبقے کی عورتوں کو کن کن مسائل کا سامنا ہے کس طرح ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے ان کی رائے کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوتی حد تو یہ ہے کہ بیٹی پیدا ہوتے ہی اس کا نام کسی کے نام کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے یعنی کہ دنیا میں آنکھ کھولتے ہی اس کا رشتہ طے کر دیا جاتا ہے اور بعض دفعہ تو ماں کے پیش میں ہی معصوم کا رشتہ اس صورت میں طے کر دیا جاتا ہے کہ اگر میرے گھر بیٹی ہوئی تو وہ تمھاری بہو بنا دی جائے گی اور پھر 10یا 12سال کی عمر میں شادی کر دی جاتی ہے اور یوں کئی بچیوں کا تو بہت ہی چھوٹی عمر میں ہی ماں بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور جن کے سال دو سال گزر جائیں تو ان کو طعنے دیئے جاتے ہیں اور اسی طرح اگر کچھ اور ٹائم گزر جائے تو طعنوں کے ساتھ ساتھ سنگین قسم کی دھمکیاں بھی ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ عزت نفس پر کچوکے لگائے جاتے ہیں، دل آزاری کی جاتی ہے، توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور اگر ایسے میں بھی لڑکی کی قوت برداشت ساتھ دے جائے اور وہ نئے مہمان کی آمد کی نوید سنا دے تو بھی اس کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا جاتا اس سے بھاری کام لیے جاتے ہیں جو کہ عموما جانوروں کی دیکھ بھال کے ہوتے ہیں ان کو چارہ ڈالنا، گھاس کاٹنا، ان کو دھوپ چھائوں میں باندھنا ، صفائی ستھرائی کرنا وغیرہ ۔ یوں بچیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے اور زیادہ تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے اور ان بے چاریوں کی ڈلیوری بھی گھر پر ہی کروائی جاتی ہے تو ظاہر ہے جب 12سے 16سال تک کی عمر کی بچیاں جو پہلے ہی خوراک صحیح نہ ملے، آرام پورا نہ ہونے کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہوتیں ہیں ان میں سے کئی تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور دیہاتوں میں یہ کبھی کبھی والے کیس نہیں ہیں بلکہ ہر سال زچگی کے دوران ہزاروں کم سن بچیاں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں اگر ہماری دیہاتی عورتوں کو صحیح خوراک، آرام اور علاج میسر ہو تو کئی معصوم جانیں بچ سکتی ہیں۔ ڈاکٹر تحقیق کے مطابق جو بھی خواتین کسی بھی قسم کے جذباتی یا جسمانی دبائو کا شکار ہوں تو ان کے بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں اور پھر ایسے کمزور بچے 2سے 3سال کی عمر تک پہنچنے پر فوت ہو جاتے ہیں اور ایسے واقعات دیہاتوں میں بہت عام ہیں دیہاتی عورتوں کو پورے کیا آدھے حقوق بھی نہیں مل رہے مردوں کی ناجائز حکمرانی ہے کسی بھی کمسن لڑکی کے بغیر پوچھے ، بغیر سوچے اپنی سے دگنی عمر کے مرد سے شادی کر دی جاتی ہے اور پھر سسرال میں جو دکھ اسے جھیلنے پڑتے ہیں کسی کو بھی رتی برابر بھی احساس نہیں ہوتا۔ اس سے سارے گھر کے کام لیے جاتے ہیں باہر کھیتوں پر کام کروایا جاتا ہے گھڑوں میں پانی بھروایا جاتا ہے ، مویشیوں کی دیکھ بھال کا کام سونپ دیا جاتا ہے۔ دیہاتوں میں عورتوں کی تعلیم کا تناسب بہت ہی کم ہے بہت سی بچیوں کو اگر سکول داخل کروا بھی دیا جائے تو صرف دو تین کلاسیں ہی پڑھنے کے بعد سکول سے اٹھا لیا جاتا ہے اور اس میں چاہے بچی کی مرضی جتنا بھی پڑھنے لکھنے کی ہو تو اس کی ایک نہیں سنی جاتی۔تعلیم، جائیداد یا وٹہ سٹہ جو بھی مسئلہ ہو نزلہ ہمیشہ عورت پر ہی گرتا ہے۔ بعض اوقات تو سگے بھائی صرف جائیداد کے لالچ میں سگی بہنوں کو مار دیتے ہیں۔ کاروکاری کے الزم میں عورت قتل کر دی جاتی ہے اور مرد بچ نکلتا ہے ۔ دشمنی کا بدلہ لینے کیلئے ایک دوسرے کی ماں ، بہن، بیوی ، بیٹی اٹھا لی جاتی ہے۔ عورت کو گائے بھینس اور بھیڑ بکری کی طرح خریدا جاتا ہے اسے شک کی بنا پر مار دیا جاتا ہے عورت بے چاری کی تو کئی حیثیت ہی نہیں سمجھی جاتی اور اگر عورت بیمار ہو اور صحیح علاج کی بجائے دوسری شادی حل ڈھونڈ لیا جاتا ہے اور بہانہ یہی کہ گھر کو کون سنبھالے اور یوں دوسری شادی رچا لی جاتی ہے اگر کسی لڑکی کے پیچھے کوئی ماں ، بہن بھائی یا باپ بولنے والے ہوں تو پھر جو لیا پھنسنے والے واقعات رونما ہونے لگتے ہیں حتیٰ کہ سانپ ڈسوا کر اسے ہلاک کرنے تک کے واقعات بھی ہو چکے ہیں اور پھر فیصلے مردوں کے جرگے میں ہوتے ہیں ایک دوسرے سے بدلہ لینے کے لیے ظلم عورتوں پر ہی ہوتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ دیہاتوں میں عورتیں گھر کے کام کاج کے علاوہ کھیتوں میں کپاس چنتی ہیں ۔ گندم کی کٹائی کرتی ہیں اور چند پیسے جیسے ہی حاصل ہوتے ہیں گھر کے مرد حیلوں بہانوں سے وہ محنت کی کمائی بھی عورتوں سے لے لیتے ہیں ۔ کیونکہ جب بھی سیزن کی فصل ہو گائوں کی عورتیں بہت زیادہ محنت مشقت کرتی ہیں اور صبح سویرے ناشتہ بنا کر اپنے مل مویشیوں کو چارہ پانی ڈال کر کھیتوں میں نکل جاتی ہیں کپاس چننا ہو یا گندم کا شت کچھ بھی آسان نہیں ہے اور اس دوران مرد گھروں کے سربراہ گھر میں چارپائیاں توڑتے ہیں اور پھر شام کو واپس آ کر بھی عورتوں کو ہی گھر دیکھنا ہوتا ہے۔اپنے مال ڈنگروں کے چارے پانی کا انتظام کرنا ہوتا ہے مگر نجانے کیوں مردوں میں ہمدردی کے جراثیم پیدا نہیں ہوتے۔ ہم خود کو ایسی مظلوم عورتوں کی جگہ رکھ کر سوچیں تو شاید ہم میں کچھ ہمدردی کے جراثیم پیدا ہو سکیں ۔ شکر ہے اب موجودہ نوجوان نسل اس طرف بھی توجہ دے رہی ہے ہمارے ملک میں عورتوں کے مسائل پر بہت سی فلمیں اور ڈرامے بنائے جا رہے ہیں تا کہ دیکھنے والے کچھ سبق حاصل کر سکیں تعلیم کی اہمیت کو سمجھ سکیں کیونکہ ہر ملک کی ترقی میں عورتوں کا بہت بڑا حصہ ہے اور اگر عورتیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونگی تو ان کی سوجھ بوجھ میں اضافہ ہو گا یہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکیں گی تو خدا را اس طرف توجہ دیں تمام این جی اوزاور سوشل میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ شہروں سے باہر دیہاتوں میں جا کر عورتوں کے مسائل پر بھی کچھ تو جہ دیں انہیں ان کے حقوق دلوائیں حکومتی سطح پر بھی چاہیے کہ وہ اس معاشرے کی بے زبان مخلوق کی آواز کو سنیں اور اس کی بہتری کے لیے کچھ کریں۔




 
@intelligent086
شکر ہے ان مسائل کی طرف بھی کسی کی توجہ گئی ہے
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 

Back
Top