Roman Urdu se jan kab chuttay gee By Hassan Akbar Article

رومن اردو سے جان کب چھوٹے گی

Roman Urdu.jpg

حسن اکبر
آج سے پندرہ بیس سال پہلے اگر کوئی غلط اردو بولتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ وہ ’گلابی اردو‘ بولتا ہے۔ گلابی اردو بولنے والے عموماً اردو میں انگریزی کی آمیزش زیادہ کرتے تھے، یعنی ان کا ہر جملہ مکمل اردو یا انگریزی میں ہونے کے بجائے مکس شدہ ہوتا تھا جس کا واحد مقصد دوسرے پر اپنی انگریزی دانی کا رعب ڈالنا ہوتا تھا۔

وہ زمانہ گزر گیا۔ اب جبکہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر شخص اپنی پسند کے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار زیادہ آسانی سے کر رہا ہے تو یہاں ہمیں گلابی اردو کی جگہ ’رومن اردو‘ نے آگھیرا ہے۔

گذشتہ بارہ پندرہ سالوں میں انٹرنیٹ اور موبائل کے سستے اور عام آدمی کی قوت خرید تک ہونے کی وجہ سے یہ اب عام ہوتی جا رہی ہے، جبکہ پاکستان کے خواص میں یہ بہت پہلے سے مقبول تھی۔ کہا جاتا ہے کہ رومن اردو کی ابتداء فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں شروع ہوئی۔ چونکہ جنرل ایوب اردو رسم الخط پڑھ نہیں سکتے تھے، اس لیے ان کی تقریر رومن اردو میں ٹائپ کی جاتی تھی۔ اسی طرح کی بات سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے لیے بھی مشہور ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں پی پی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری کے کراچی کے جلسے کی تقریر کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ اطلاعات نشر ہوئیں کہ ان کو بھی تمام تقریر ’رومن اردو‘ میں پیش کی گئی۔

پاکستان میں جب انٹرنیٹ سستا ہوا اور عوام الناس نے اس کا عام استعمال شروع کیا تو چونکہ اس وقت محدود ٹیکنالوجی کی وجہ سے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تھی، اس لیے رومن اردو استعمال کی جانے لگی۔ پہلے پہلے تو چیٹ روم میں چیٹنگ کے لیے رومن اردو کا استعمال شروع ہوا، اور بعد میں مختلف ویب فورمز میں رومن اردو میں پوسٹ عام ہونے لگی۔ لیکن جب فیس بک، اسکائپ، سنیپ چیٹ، ٹوئٹر، واٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر پاکستانیوں کا رش ہونا شروع ہوا تو اس وقت رومن اردو کا استعمال بہت تیزی سے بڑھنے لگا۔

شروع شروع میں مختلف آپریٹنگ سسٹم اردو کو سپورٹ نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے کمپیوٹر میں اردو زبان انسٹال کرنا کافی مشکل عمل تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں عام تعلیمی اداروں میں اردو ٹائپنگ (اردو کمپیوزنگ) سکھائی نہیں جاتی جبکہ انگریزی ٹائپنگ نوکری کے لیے لازمی تصور کی جاتی ہے۔ اس لیے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد باقاعدہ طور پر انگریزی ٹائپنگ سیکھتی ہے۔

ایک اور وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بھی انگریزی زبان میں اپنے خیالات لکھنے کی صلاحیت پر عبور نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے وہ اپنے اردو خیالات کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بجائے اس کو رومن اردو میں تحریرکرنے پر ترجیح دینے لگے۔

بعض ماہرین کے مطابق ہم لوگ بطورِ قوم انگریزی زبان سے مرعوب ہیں اور ہمیں شدید احساس کمتری ہے کہ ہمیں انگریزی زبان نہیں آتی، حالانکہ ہمیں چینی زبان نہیں آتی، جرمن نہیں آتی، فرانسیسی نہیں آتی، ہمیں کبھی اس پر شرمندگی نہیں ہوئی، لیکن انگریزی نہ آنے پر ہم خود کو کمتر سمجھتے ہیں۔

رومن اردو ٹائپ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اپنی سستی کی وجہ سے نہ تو انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرتی ہے، اور نہ ہی اردو ٹائپنگ سیکھنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ اردو ٹائپ کرنے سے ان کا علمی رعب باقی نہیں رہے گا۔ رومن اردو میں لکھنے سے ہمارا کچھ نہ کچھ بھرم تو قائم رہے۔

رومن اردو کے اصول

جس طرح ایک ہندوستانی فلم میں سلمان خان کا ڈائیلاگ ”مجھ پر ایک احسان کرنا کہ مجھ پر کوئی احسان نہ کرنا“ مشہور ہے، اسی طرح رومن اردو لکھنے کا اصول یہ ہے کہ اس کا کوئی اصول نہیں ہے۔

کیونکہ رومن اردو کوئی باقاعدہ تسلیم شدہ رسم الخط نہیں ہے، اس لیے نہ ہی اس کے کوئی قواعد و ضوابط ہیں، اور نہ ہی اس کی تعلیم کے لیے کوئی ادارہ موجود ہے۔ جس شخص کی جو مرضی ہو۔ اس کے دل کو جو ہجے بہتر لگیں، وہ وہی تحریر کرتا ہے (چاہے وہ سامنے والے شخص کی سمجھ سے باہر ہی کیوں نہ ہو)۔ انگریزی یا دیگر زبانوں کا کوئی لفظ آپ کو سمجھ نہ آئے تو آپ گوگل سے مدد لے سکتے ہیں لیکن رومن اردو کے مواد میں مدد کا صرف ایک ہی حل ہے، اور وہ یہ کہ جس نے تحریر کیا اس کو فون کر کے پوچھا جائے "بھائی جی یہ کیا لکھا ہے؟"

میرے خیال میں جس شخص کو سزا دینی ہو اس کو سوال یا جواب رومن اردو میں کر دیا جائے تو اس کے لیے کافی ہے، خاص کر اگر وہ چالیس سال سے زائد عمر کا ہے۔ میں نے کئی دفعہ ٹی وی شو کے میزبانوں کو "ناظرین کے کمنٹس" پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس وقت ان کو خاصی پریشانی ہوتی ہے۔ رومن اردو سے کچھ گزارہ تو ہو جاتا ہے مگر وہ طمانیت نہیں حاصل ہوتی جو اردو رسم الخط میں پڑھنے سے ہوتی ہے۔ اگر رومن اردو میں تحریر لمبی ہو جائے تو یہ ایک تھکا دینے والا اور کافی بیزار کن کام محسوس ہوتا ہے۔

بد قسمتی سے رومن اردو کا استعمال دن بدن بڑھ رہا ہے۔ پہلے صرف عوام آپس میں اس کو ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا پر استعمال کرتے تھے۔ لیکن اب تو موبائل فون اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی معلومات اور اشتہارات بھی رومن اردو میں بھیجتی ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن مہم میں ایس ایم ایس، بلکہ صوبائی حکومت کی طرف سے سرکاری پیغامات بھی موبائل فون پر اردو یا انگریزی کے بجائے رومن اردو میں موصول ہو رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اردو کے فروغ، ترقی، تحفظ اور بقا کے لیے حکومت کیا کررہی ہے؟ اس وقت پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر نجانے کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جو اردو کے فروغ اور بقا کے لیے "دن رات کام" کررہے ہیں جن میں ’’ادارہ فروغ قومی زبان‘‘ (مقتدرہ قومی زبان)، مجلس ترقی ادب، اردو سائنس بورڈ، قومی لغت بورڈ، اکادمی ادبیات، نظریہ پاکستان فاؤئڈیشن، اردو لغت پاکستان، اقبال اکادمی، قائد اعظم اکادمی، مرکز تحقیقات اردو پروسیسنگ، وغیرہ وغیرہ ہیں جن کو حکومت کی جانب سے لاکھوں کروڑوں روپے کے ماہانہ فنڈز بھی مل رہے ہیں، لیکن ان حکومتی اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟

خود مقتدرہ قومی زبان نے اپنی ویب سائٹ پر درج کیا ہوا کہ ادارۂ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کا قیام 4 اکتوبر 1979ء کو آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں آیا تاکہ قومی زبان 'اردو' کے بحیثیت سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے، نیز مختلف علمی، تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے مابین اشتراک و تعاون کو فروغ دے کر اردو کے نفاذ کو ممکن بنائے۔

یہ ادارہ اپنے اہداف کے ساتھ کس قدر انصاف کر سکا اور کتنی کامیابی ملی، اس کا فیصلہ قارئین خود کریں۔

سوشل میڈیا اور کمپیوٹر میں اردو استعمال کیسے کریں؟

اردو زبان کا سوشل میڈیا پر استعمال بہت آسان ہے۔ آپ کو صرف اور صرف یہ کرنا ہے کہ آپ جو بھی آپریٹنگ سسٹم استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں صرف اردو کی بورڈ انسٹال کرنا ہے۔

کمپیوٹر میں ’یونی کوڈ‘ کے آنے سے پہلے اردو انسٹال کرنا کافی مشکل کام تھا۔ لیکن اب نہیں۔ یونی کوڈ کی ایجاد سے اب کمپیوٹر میں ہر اہم زبان میں تحریر ممکن ہے۔ تقریباً تمام ہی بڑے سوفٹ ویئر یونی کوڈ کو سپورٹ کرتے ہیں، اس لیے کمپیوٹر میں اردو کا استعمال بہت آسان ہوگیا ہے۔ آپ کو اپنے کمپیوٹر سسٹم میں صرف اردو کی بورڈ ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اردو کی بورڈ بڑے اردو اخبارات کے علاوہ بے شمار ویب سائٹس پر مفت میں دستیاب ہے جس سے آپ اپنے کمپیوٹر میں اردو تحریر با آسانی شروع کر سکتے ہیں۔
 
ہے
رسم الخط کسی بھی زبان کی پہلی پہچان ہے۔ رسم الخط بدل دینے سے اس زبان سے وابستہ ادب ، فن اور ثقافت بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس کی بہ ترین مثال ترکی زبان ہے جس کو عربی رسم الخط کی بجائے رومن میں لکھا جانے لگا تو ترکی کا ادب ، فن و ثقافت اور اقدار سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ یہ کہنا کہ "اردو لکھنا بہت مشکل ہے" صرف اور صرف لاعلمی کی وجہ سے ہے، ورنہ آپ ہر جگہ اردو نہایت آسانی سے لکھ سکتے ہیں خواہ موبائل ہو یا ٹیبلٹ ہو یا کمپیوٹر۔ صرف ذرا شوق کی بات ہے۔ اور احساسِ کم تری سے پیچھا چھُڑانے کی دیر ہے۔ موبائل اور ٹیبلٹ پر آپ کو انتہائی آسانی سے اردو کی بورڈ مل جاتے ہیں جن کا استعمال بہت ہی آسان ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر کے لیے بھی آسان ترین کی بورڈ دست یاب ہیں۔ آپ ایک مرتبہ اس طرف آکر تو دیکھیں آپ کی جان انگریزی سے چھوٹ جائے گی۔ جب کبھی میرا طویل رومن اردو تحریر سے واسطہ پڑتا ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ اس کو نظر انداز ک
میں نے کب اختلاف کیا ہے..... جب بچپن میں بچوں نے اس کا استعمال شروع کیا رابطے کی زبان رومن اردو تھی کال ریٹ زیادہ تھے میسج پیکج سستا پڑتا تھا موبائل-فون کے کی پیڈ صرف انگریزی میں ہوتے تھے.... ان مضر اثرات کا بھی دھیان ہونا چاہیے تھا
 
میں نے کب اختلاف کیا ہے..... جب بچپن میں بچوں نے اس کا استعمال شروع کیا رابطے کی زبان رومن اردو تھی کال ریٹ زیادہ تھے میسج پیکج سستا پڑتا تھا موبائل-فون کے کی پیڈ صرف انگریزی میں ہوتے تھے.... ان مضر اثرات کا بھی دھیان ہونا چاہیے تھا
@Maria-Noor
بحث کو طول دینے کا اب فائدہ
بحثیت استاد آپ لوگوں نے اسوقت کوئی قدم اٹھایا ہو ؟
 

قومی زبان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی داستان
1605652-urduziyadtix-1553506730-805-640x480.jpg

قومی زبان کو لہولہان کرنے والوں میں سب سے اوپر وہ طبقہ ہے جو خود کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیتا ہے۔ (فوٹو: فائل)
انگریزی میں نشر ہونے والے پیش نامے (پروگرام) میں آپ نے کبھی اردو کا کوئی لفظ سنا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کیوںکہ بولنے والا جانتا ہے کہ ایسا کرنے پر سامعین اس کی ہنسی اڑائیں گے اور جاہل کے خطاب سے بھی نوازیں گے۔ تو پھر اردو بولنے والے اگر دوسری زبانوں کے الفاظ کا بے دھڑک استعمال کریں تو کسی کے ماتھے پر شکن نہیں ابھرتی۔ آخر کیوں؟
اگرچہ پاکستان میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا جاچکا ہے لیکن اس بے یار و مددگار صنف کے ساتھ ظلم و ستم کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ستم گر کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی ہیں۔ اگر قومی زبان کو لہولہان کرنے والوں کی فہرست مرتب کی جائے تو سب سے اوپر وہ طبقہ نظر آئے گا جو خود کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیتے نہیں تھکتا؛ یعنی ہمارے ذرائع ابلاغ سے وابستہ دانشور طبقہ۔ ان تعلیم یافتہ جاہلوں میں سب سے زیادہ ظلم ان نابغہ روزگار شخصیات نے کیا ہے جو برقی ذرائع ابلاغ یا دور نما (ٹیلی ویژن) پر جلوہ نما ہوتے ہیں۔ پھر اشاعتی ذرائع ابلاغ میں اپنے قلم کے جوہر دکھانے والے صحافی ہیں اور آخر میں، میری دانست میں، لاسلکی لہروں پر اپنی آواز کا جادو جگانے والے خواتین و حضرات ہیں۔ ٹی وی ہو یا ریڈیو، اخبار ہو یا کوئی جریدہ، ہر پیش نامے اور ہر تحریر میں شاذ و نادر ہی کوئی مکمل جملہ اردو میں سننے پڑھنے کو ملتا ہے۔ ورنہ ہر قاری اس بات کی گواہی دے گا کہ ان جاہلوں نے اردو کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور پہنچا رہے ہیں۔
یہ لوگ اردو بولتے اور لکھتے ہوئے بدیسی زبانوں کے الفاظ اس قدر بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں کہ نئی نسل کی اکثریت یہ سمجھنے لگی ہے کہ ہماری قومی زبان میں الفاظ کی بہت کمی ہے اور غیر زبانوں بالخصوص انگریزی کا سہارا لیے بغیر اب گزارہ نہیں ہوسکتا۔ بلا شبہ ہماری حکومتیں بھی برابر کی قصوروار ہیں کہ انہوں نے ذرائع ابلاغ پر پیش کیے جانے والے پیش ناموں کا کوئی معیار مقرر نہیں کیا، لہٰذا منہ میں جو آیا، بولا جانے لگا اور ذہن میں جو آیا، لکھا جانے لگا۔
دور نما کے پیش ناموں میں جلوہ گر ہونے والے میزبان اور تجزیہ کار (سوائے چند ایک کے) بمشکل ہی اردو میں ایک مکمل جملہ بولنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جب ان عقل مندوں سے پوچھا جائے کہ آپ ہمیشہ اردو میں ملاوٹ کیوں کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ عوام کی زبان ہے۔ لیکن دوسری طرف دعویٰ ان کا یہ ہے کہ یہ لوگ عوام الناس کی ذہن سازی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ یہ عجیب تضاد ہے۔
یہاں بازاری جریدوں اور ماہناموں (ڈائجسٹ اور میگزین) میں لکھنے والے سطحی ذہن کے حامل افسانہ نگاروں کا ذکر بھی برمحل ہوگا جن کا ہر کردار بازاری زبان کے ساتھ ساتھ اردو انگریزی کا آمیزہ پیش کرتا ہے۔ دراصل یہ بےچارے اپنی قابلیت کے ہاتھوں معذور و مجبور ہیں۔
درحقیقت یہ صحافی، دانشور، تجزیہ کار و تجزیہ نگار، میزبان، خبر لکھنے والے اور پڑھنے والے (الّاماشاء اللہ)، یہ سب لغت کے نام ہی سے ناواقف ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ اتنی ضخیم لغات کیوں مرتب کی جاتی ہیں اور انہیں استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ بھلا غور فرمائیے کہ میری اس تحریر میں انگریزی کے کتنے الفاظ آپ کی نظر سے گزرے؟ ہمیں اپنی زبان کو جاہلوں کے نرغے سے نکالنا ہوگا اور خالص اردو زبان کو فروغ دینا ہوگا۔ شستہ اور نکھری ہوئی اردو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا ہوگی۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ:
چہ کافرانہ قمار حیات می بازی
کہ با زمانہ بسازی بخود نمی سازی
یعنی اے شخص! تو کس کافرانہ انداز سے (یہاں مراد ہے نہایت برے طریقے سے) زندگی کی بازی کھیل رہا ہے؟ تو خود کو زمانے کی طرح بنا رہا ہے اور زمانے کو اپنے مطابق نہیں بنا رہا۔۔
خلیل رفاعی​
 
اردو زبان سیکھنے والوں کی دس عام غلطیاں
دنیا کاکوئی کام بھی انسان کے لیے مشکل نہیں ہوتا۔ محنت اور مسلسل کوشش سے انسان اپنی منزل کو بہرحال حاصل کر ہی لیتا ہے۔ اسی وصف کی بدولت انسان نے دنیا میں بے حد ترقی کی ہے۔
زبان سیکھنا مشکل کام ہے لیکن اپنی محنت اور کوشش سے انسان اس کام کو آسان بنا لیتا ہے۔ دنیا میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ کچھ آسان ہوتی ہیں اور کچھ مشکل۔ اردو زبان ایک قدیم زبان ہے، مشکل زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اردو زبان سیکھنے والے عام طور پر جن غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، ذیل میں ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا گیا ہے۔
کوئی بھی شخص جب اردو زبان سیکھتا ہے تو سب سے پہلا مسئلہ جو اسے درپیش ہوتا ہے وہ اردو رسم الخط کا ہے۔ اردو حروف تہجی میں بہت سے الفاظ کی شکل کافی حد تک ملتی جلتی ہے۔ ان میں صرف نقطوں کی بنیاد پر فرق کیا جاتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اردو زبان سیکھنے والے اردو حروف تہجی میں کرتے ہیں۔
بار بار کوشش اور محنت کے بعد جب حروف تہجی سیکھ لی جاتی ہے، تو اس کے بعد آتا ہے اشکال کا مسئلہ۔ انگریزی زبان میں حروف چھوٹے یا بڑے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ حروف کی کوئی تیسری شکل نہیں ہوتی۔ لیکن اردو زبان میں ایسا نہیں ہے۔ حروف کی پوری شکل کچھ اور ہوتی ہے۔ کسی لفظ کے ابتدا میں ان حروف کو کسی اور طریقے سے لکھا جاتا ہے، لیکن لفظ کے درمیان میں لکھتے وقت حروف کی شکل بدل جاتی ہے۔ اور کچھ حروف کی آخری شکل بدلتی ہے اور کچھ کی نہیں بدلتی۔ لہٰذا دوسری بڑی غلطی اردو سیکھنے والوں سے اردو لکھتے یا پڑھتے وقت حروف کی پہچان میں ہوتی ہے۔
اردو حروف تہجی میں بہت سے الفاظ اپنی آواز کے اعتبار سے ایک جیسے لگتے ہیں۔ جیسے ز ذ ض اور ظ کی ایک ہی آواز ہے، جس کی وجہ سے بہت سے اردو سیکھنے والے غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں اور غلط حرف کااستعمال کر بیٹھتے ہیں۔
ہر زبان میں بولنے اور لکھنے کے انداز میں فرق ہوتا ہے۔ الفاظ کا چناؤ اور جملوں کی ساخت بولنے اور لکھنے میں مختلف ہوتی ہے۔ جس طرح زبان روزمرہ بولی جاتی ہے ویسے لکھی نہیں جاتی۔ اس معاملے میں اردو سیکھنے والے غلطیاں کرتے ہیں۔
’ ہوں۔ ہے۔ ہیں‘ کے استعمال میں بہت سے نئے سیکھنے والے غلطی کر جاتے ہیں۔ ’ہوں‘ اپنی ذات کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ’ہیں‘ جمع کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اکثر نئے سیکھنے والے شاگرد ان الفاظ کا غلط استعمال کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
’میرا نام سارہ ہے‘ کی جگہ ’میرا نام سارہ ہوں‘ کہہ دیا جاتا ہے۔
عام طور پر لوگ زبان سیکھنے کے لیئے گرائمر کے قواعد سے ابتدا کرتے ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق گریمر کے اصولوں میں پھنسنے کی غلطی کرنے کے بجائے زبان بولنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اردو سیکھنے والوں کو چاہیے کہ اردو بولنے والوں کے ساتھ گھلیں ملیں، ان سے بات چیت کریں اور اردو زبان بولنے کی کوشش کریں۔ چاہے ٹوٹی پھوٹی ہی صحیح، لیکن کوشش ضرور کریں۔ کیونکہ زبان بولنے سے ہی آتی ہے۔ صرف اصول اور قوانین سیکھ لینا کافی نہیں ہوتا۔
اردو زبان میں جملے کی ساخت انگریزی سے مختلف بلکہ الٹ ہوتی ہے۔ اس لیے اکثر لوگ ترجمہ کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں اور Subject / Object کا order خراب ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے بات کا مطلب واضح نہیں ہوتا اور جملہ غلط ہو جاتا ہے۔
’کا، کی، کے‘ کے استعمال میں اکثر لوگوں سے غلطی ہو جاتی ہے۔ کا،کے، کی کا استعمال Object کے مطابق ہوتا ہے۔ Object مذکر ہے یا مونث یا جمع ہے، اُس کے مطابق کا، کی، کے کا استعمال ہوتا ہے۔ اکثر اوقات ان معاملات میں لوگ غلطی کر جاتے ہیں۔ الفاظ کی تذکیر و تانیث سے صحیح واقفیت ہو تو آسانی ہوتی ہے اور غلطی کا امکان کم ہو جاتا ہیں۔
’نے‘ کا استعمال بھی اکثر شاگردوں کے لیے مسئلہ بنتا ہے اور وہ اس میں کافی غلطیاں کرتے ہیں۔ جہاں لفظ ’نے‘ کا استعمال ہونا ہو وہاں نہیں کرتے اور جہاں نہ ہونا ہو، وہاں کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
میں نے کھانا کھایا۔ اس جملے میں ’نے‘ کا استعمال ٹھیک کیا گیا ہے، یہ جملہ فعلِ ماضی کا ہے۔ لیکن جب یہ جملہ فعل حال کے مطابق بولا جاتا ہے تو ’نے‘ کا استعمال نہیں ہو گا۔ جیسے:
میں کھانا کھاتا ہوں۔ اس جملے میں ’نے‘ کااستعمال نہیں ہوتا۔
’کو‘ کے استعمال میں بھی اکثر اوقات لوگ غلطی کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
علی کو لاہور جانا ہے۔ یہ جملہ ٹھیک ہے لیکن ’علی کو لاہور جاتا ہے‘ اس میں ’کو‘ کا استعمال غلط ہے۔ یہاں کو استعمال نہیں ہو گا
 
Back
Top