Hadith Hajj Qayamat ki ik bari Nishaani | Sahih Bukhari Hadith No. 1593

Angelaa

Angelaa

Popular Pakistani
6
 
Messages
2,471
Reaction score
4,080
Points
276
Sahih Bukhari Hadith 1593 - Read hadith with English and Urdu translation. Read Sahih Bukhari Hadith 1593 in Arabic with complete references.

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: The Prophet said The people will continue performing the Hajj and `Umra to the Ka`ba even after the appearance of Gog and Magog. Narrated Shu`ba extra: The Hour (Day of Judgment) will not be established till the Hajj (to the Ka`ba) is abandoned.

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عُتْبَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَيُحَجَّنَّ الْبَيْتُ وَلَيُعْتَمَرَنَّ بَعْدَ خُرُوجِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ , تَابَعَهُ أَبَانُ ، وَعِمْرَانُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : عَنْ شُعْبَةَ ، قال : لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُحَجَّ الْبَيْتُ وَالْأَوَّلُ أَكْثَرُ ، سَمِعَ قَتَادَةُ عَبْدَ اللَّهِ ، وَعَبْدُ اللَّهِ أَبَا سَعِيدٍ .

ہم سے احمد بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے حجاج بن حجاج اسلمی نے، ان سے قتادہ نے، ان سے عبداللہ بن ابی عتبہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت اللہ کا حج اور عمرہ یاجوج اور ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی ہوتا رہے گا۔ عبداللہ بن ابی عتبہ کے ساتھ اس حدیث کو ابان اور عمران نے قتادہ سے روایت کیا اور عبدالرحمٰن نے شعبہ کے واسطہ سے یوں بیان کیا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک بیت اللہ کا حج بند نہ ہو جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ پہلی روایت زیادہ راویوں نے کی ہے اور قتادہ نے عبداللہ بن عتبہ سے سنا اور عبداللہ نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا۔

Baitullah-Hajj.jpg
 

@Angelaa
متروک اور موقوف دو الگ الگ معنی رکھنے والے الفاظ ہیں میرے علم کے مطابق متروک لکھنا غلط ہے
واللہ اعلم
 
ہم سے احمد بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے حجاج بن حجاج اسلمی نے، ان سے قتادہ نے، ان سے عبداللہ بن ابی عتبہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت اللہ کا حج اور عمرہ یاجوج اور ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی ہوتا رہے گا۔ عبداللہ بن ابی عتبہ کے ساتھ اس حدیث کو ابان اور عمران نے قتادہ سے روایت کیا اور عبدالرحمٰن نے شعبہ کے واسطہ سے یوں بیان کیا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک بیت اللہ کا حج بند نہ ہو جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ پہلی روایت زیادہ راویوں نے کی ہے اور قتادہ نے عبداللہ بن عتبہ سے سنا اور عبداللہ نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا۔
حدیث نمبر: 1593
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان​
 
@intelligent086 drust farmaye aap ney..
Hal hi main jo twaaf roka giya wo sfaayi ki gharz sey rokaa giya tha.. Baa-laaayi hissey main twaaf jaari raha..ab tou dobara twaaf shuru kr diya giya kafi dino sey...
Khudaay e Bazurgo Bartar Hifz o Amaan main rakhey..:) aur hmain qiyaamat sey pehley hi is dunya e faani sey uthaa ley:( fitno k dor main imaan slaamat rakhna bht mushkil hai:( Hadith mubarka ka mafhoom hai k dua kro k qiyamat sey pehley hi tum duniya sey chaley jao...qiyaamat ki nishaaniyan tou 1400 saal pehley hi shuru ho gayi thi..Quran e MAJEED main Farman hai k wo sa’at jissy hum chupaaney kaa iraada rakhtey hain jald aaney waali hai:(
 
بندہ آپ جتنا پڑھا نہ ہو تو آسان الفاظ میں سمجھا دیں
یہ واقعہ بروز دو شنبہ ذوالحجہ 317 ہجری کا ہے قرامطہ فرقے کا بانی “ابو طاہر سلیمان قرامطی” مکہ معظمہ کا رخ کرتا ہے۔ حاجی وہاں پہنچ چکے تھے اور فریضہ حج ادا کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ابو طاہر سب سے پہلے گھوڑے پر سوار تلوار ہاتھ میں لیے مسجدِ حرام میں داخل ہوتا ہے۔ اس نے شراب منگوائی اور مسجد میں گھوڑے پر بیٹھ کر شراب پینے لگا۔ یہ منظر کسی بھی مسلمان کے جذبہء ایمانی کو بیدار کرنے کے لیے کافی تھا۔ مسجد نبوی میں کچھ لوگ موجود تھے انہوں نے واویلہ کیا اور حاجی احرام باندھے دوڑتے ہوئے اس کی طرف لپکے۔ وہ امن کی جگہ تھی اور سب حاجی نہتے تھے۔ ابو طاہر نے اشارہ کیا اور تمام قرامطی حاجیوں پر ٹوٹ پڑے۔حجاج کا بدترین قتلِ عام شروع ہوا اور حجازِ مقدس کی زمین رنگین ہوتی چلی گئی۔ ابو محلب اس وقت امیرِ مکہ تھا مگر اس کے پاس اُس وقت اتنی فوج نہیں تھی کہ وہ قرامطیوں کا مقابلہ کرتا۔وہ پھر بھی مسلح سپاہیوں کے ساتھ ابو طاہر کے پاس پہنچا اور اُس کو بعض رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ”حجاج کے قتل سے ہاتھ ہٹا لے ابو طاہر کہیں ایسا نہ ہو کہ تو اللہ کے عذاب کی زد میں آجائے۔” ابو محلب نے للکار کر کہا، جس پر ابو طاہر نے ایک قہقہ لگایا، ”امیرِ شہر کو عذاب دکھا دو” اور اپنے سپاہیوں کو ابو محلب پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ابو محلب کی فوج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر قرامطی نہ صرف تعداد میں زیادہ تھے بلکہ زیادہ جنگجو بھی تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے ابو محلب کے سب سپاہی شہید ہوتے چلے گئے۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ غلافِ کعبہ کو کھینچ کر ٹکرے ٹکرے کر دیا جائے۔ تمام قرامطی اس پر ٹوٹ پڑے اور تلواروں کے وار کر کے غلافِ کعبہ کو چھلنی کر دیا۔ قرامطیوں نے چشمہء زم زم کی جگہ کو بھی مسمار کیا اور مورخین کے مطابق وہ گیارہ دن تک حجازِ مقدس کی بے حرمتی کرتے رہے۔ اس کے بعد ابو طاہر نے حجرِ اسود ایک اُونٹ پر لدوایا اور اپنی سلطنت ہجر (بصرہ) کی طرف روانگی اختیار کی۔حجرِ اسود تقریباً 22 سال تک ابو طاہر کے قبضے میں رہا۔ 317 ھ سے 327 ھ تک فریضئہ حج ادا نہ ہو سکا۔ وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ وہاں حجرِ اسود نہیں تھا، بلکہ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حاجیوں کے تمام قافلے قرامطی لُوٹ لیا کرتے تھے اور حاجیوں کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ آخر کارایک قسم کا بھتہ مقرر کیا گیا اور اُس کو ادا کرنے کے بعد ان کی جان بخشی اور حج کی اجازت دی جانے لگی۔اس عرصہ میں کسی ماں نے کوئی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نہیں جنا۔۔ کوئی محمد بن قاسم تھا نہ کوئی طارق بن زیاد۔۔۔ مسلمانوں کی عظمت اور بہادری کے ثناخواں اپنی قلمیں توڑ کر پھینک چُکے تھے۔۔۔ مسلمانوں کی ایک وسیع سلطنت تھی۔ بااختیار خلیفہ تھا، لاکھوں مسلمان تھے اور اُن کے مقابلے میں کچھ ہزار قرامطی۔ خلیفہ ء وقت اس سے پہلے بھی ابو طاہر کی سرکوبی کے لیے کافی لشکر بھیج چکا تھا مگر وہ سب شکست سے دوچار ہوئے۔مسلمانوں کا جذبہء ایمانی ہوا ہو چکا تھا۔وہ لشکر جو اپنی قلت تعداد و رسد کے باوجود بیک وقت دو سپر پاورز قیصر و کسریٰ سے ٹکرا گئے تھے یہاں چند ہزار قرامطیوں سے ذلت آمیز شکست کھاتے رہے۔
قرامطی اپنے آپ کو اہلِ اسلام کہتے تھے اور ابو طاہر اُن کانبی بنا ہوا تھا۔
خلیفہ مطیع باللہ نے مسندِ خلافت سنبھال کر ابو طاہر کو حجرِ اسود کے عوض تیس ہزار دینار کی پیش کش کی جو اُس نے قبول کر لی اور 22 سال کے عرصے کے بعد حجرِ اسود کو واپس خانہ کعبہ میں نصب کر دیا گیا۔ابو طاہر تو ایک اذیت ناک موت کا شکار ہو کر مر گیا مگر اس کا فرقہ زندہ رہا۔ قرامطیوں کی آخری حکومت ملتان میں بنی جہاں یہ بے حد طاقتور بن چُکے تھے۔ ملتان میں رقص و سرود کی محفلیں ہوا کرتی تھیں اور شراب و شباب کے دور چلا کرتے تھے، ملتان کی گلیاں برہنگی کی تصویر بنی رہتی تھیں، کیونکہ قرامطیوں کے عقائد میں جزا و سزا کا کوئی تصور نہیں تھا۔سلطان محمود غزنوی نے مُلتان پر حملہ کیا اور خود ایک سپاہی کی طرح بے جگری سے لڑا۔ مورخین کہتے ہیں سلطان نے اپنی تلوار سے اتنے قرامطی قتل کیے کہ اُس کے ہاتھ قرامطیوں کے خون کی وجہ سے تلوار کے دستے پر جم گئے تھے جسے گرم پانی میں رکھ کر علیحدہ کیا گیا۔ ملتان کی گلیوں کو قرامطیوں کے خون سے نہلا دیا گیا، اور ان کا ملتان میں بالکل صفایا کر دیا گیا۔ یہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک عبرت ناک باب تھا۔ اُس وقت اسلام کمزور نہیں تھا۔ اسلام کی عمر صرف تین صدیوں پر محیط تھی۔ مگر قوت کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا۔۔ خلفائے وقت اپنی خلافت کو محفوظ بنانے میں مصروف تھے تو سلطان اپنی بادشاہت کی دوامی کے لیے بےچین۔
آج اسلام کی حالت اُس دور سے بھی ابتر ہے۔ امتِ واحدہ تقسیم ہو چکی ہے۔نصف صدی سے قبلہء اول کی دردناک آواز پر کوئی صلاح الدین ایوبی بیدار نہیں ہوا۔۔ کسی غزنوی نے غزہ کے قتلِ عام کا انتقام نہیں لیا۔۔ اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد اور مسلمانوں کی موجودہ حالت دیکھ کر میں کافی افسردہ تھا۔ پھر مجھے غزوہ ہند کی حدیثیں یاد آنے لگیں۔۔ایسے ہی جیسے گُپ اندھیرے میں روشنی کی کوئی چمک۔۔ وقت کے تمام خالد، ایوبی، غزنوی اور زیاد نے اس غزوے کے لیے ایک جگہ جمع ہو جانا ہے، یہیں سے مجاہدین کا وہ لشکر تیار ہو گا جس کی سرکردگی کے لیے حضرت عیسیٰ کا نزول ہو گا اور جو پوری دنیا میں عالمِ اسلام کا غلبہ کر دے گا۔۔بخاری شریف (2539:6) میں ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا، ”وہ کفار کے لیے نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے، اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں” ۔ اسی طرح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ذکر ہے ”وہ ناحق خون بہائیں گے”،اور ”وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے” (بخاری و مسلم) ”وہ تمام مخلوق سے بد ترین لوگ ہوں گے” (مسلم) ”گھنی داڑھیوں والے۔۔۔اونچا تہبند باندھنے والے ہوں گے” (بخاری) ْخوارج کے بارے میں صحیحین نے باقاعدہ باب قائم کیے ہیں اور ان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، کالم کی تنگی کےباعث تمام احادیث کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے مگر اِن احادیث کے مطالعہ سے آپ یہ یقین کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ ان خوارج کے بارے میں ہی ہیں جو پاکستان میں طالبان اور عراق و شام میں داعش کے نام سے سرگرم ہے۔ باطل کی لگائی ہوئی یہ آگ اب ان کے ہی گلے پڑنے والی ہے۔۔بھاگتے ہوئے طالبان بوکھلاہٹ میں امریکی اور ہندوستانی قونصل خانوں کا رُخ کر رہے ہیں۔۔ عظمت کی تاریخ رقم ہونے والی ہے۔۔ یہ ”ضربِ عضب” اب حقیقت میں محمد ۖ کے غلاموں کی ضرب بن چکی ہے۔۔ یہ سب محمدۖ کی تلواریں بن چُکے ہیں۔۔اور احادیث میں انہیں وقت کے بہترین لوگ اور بہترین شہید کہا گیا ہے۔۔ اللہ کی فوج کا اللہ نگہبان
منقول :20 مارچ 2019​
 
Back
Top