Battles of Shapur I (r. 241-272) against the Roman Empire in Urdu

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
شاپوراول کی سلطنتِ روم سے لڑائیاں ..... (ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا) بشکریہ ''انشی انٹ ورلڈ‘‘

shapur.jpg

شاپور اول (دورِحکمرانی 240-270ء) کا شمار اپنا حلقۂ اثر بڑھانے، مذہبی رواداری کی پالیسی اپنانے، اچھی منصوبہ سازی اور زرتشتی مقدس کتب (اوستا) کو تحریری شکل دینے کی وجہ سے ساسانی سلطنت کے عظیم بادشاہوں میں ہوتا ہے۔ وہ اردشیر اول کا بیٹا تھا جس نے ساسانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ شاپور اول کے باپ نے اسے اپنا شریک حکمران بنایا اور فنون حرب سکھانے کے لیے عسکری مہمات پر بھی ساتھ لے جاتا رہا۔ اردشیر ماہر عسکری رہنما تھا جس نے متعدد جنگوں میں نہ صرف پارتھی بادشاہ اردوان چہارم کو شکست دی بلکہ آخرکار اسے مار ڈالا۔ اس نے پارتھی سلطنت کو زمین بوس کر کے اس کی جگہ اپنی سلطنت تعمیر کی۔ شاپور اول نے اپنے والد کے پڑھائے ہوئے سبق خوب یاد کیے اور انہیں اپنے دشمنوں، بالخصوص روم کے خلاف مؤثر انداز میں آزمایا۔
سلطنت روم سے جنگوں کے دوران شاپور اول نے خود کو حریفوں کے لیے چالاک اور ناقابل پیشگوئی ثابت کیا۔ وہ پہلا غیرملکی حاکم تھا جس کے سر کسی رومی شہنشاہ (والیرین؍دورِحکمرانی 253-260ء) کو لڑائی کے دوران پکڑ کر قید کرنے کا سہرا ہے۔ وہ رومیوں کے خلاف کامیاب ہو رہا تھا لیکن پھر اس نے شام کے رومی گورنر اذینہ سے دشمنی مول لے لی۔ اذینہ نے بعدازاں شاپور اول کو لڑائی میں شکست دے کر رومی علاقے سے نکال دیا۔ اذینہ کی کارروائی کے بعد شاپور اول نے روم کے خلاف مزید کوئی کارروائی نہ کی اور نہ ہی اس کے بیٹے ہرمز اول نے ایسا کیا، تاہم اس کے پورے دورِحکمرانی میں روم کے ساتھ اس کی جنگ بندی کی حالت دگرگوں رہی۔
اگرچہ شاپور اول کی خواہش تھی کہ اسے عظیم جنگجو بادشاہ کے طور پر یاد رکھا جائے، لیکن اس میں دوسری صلاحیتیں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں۔ وہ شاندار منظم، مذہبی رواداری کی پالیسیوں کو نافذ کرنے اور ادب و فن کو ترویج دینے والا تھا۔ گنبدی میناروں کے طرزتعمیر کی بنیاد اس کے دور میں رکھی گئی۔ یہ طرزتعمیر آج تک اس خطے کی ثقافت کا مظہر ہے۔
دارالحکومت تیسغون میں طاق کسرا یا ایوان المدائن کی دلنشین ڈیوڑھی کی تعمیر کا اعزاز بھی اسے حاصل ہے (بعض ماہرین کے مطابق بعد میں آنے والے حکمران خسرو اول نے اسے تعمیر کرایا جس کا دورِحکمرانی 531-579ء ہے۔) شاپور اول ایک مقبول بادشاہ تھا جسے نقش کاری و مجسمہ سازی سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ایسے نمونوں میں سب سے معروف موجودہ ایران میں غار شاپور میں شاپور اول کا مجسمہ ہے۔
جوانی اور اقتدار
شاپور اول کے کم از کم دو بھائی تھے لیکن بچپن سے وہی باپ کا چہیتا تھا۔ اردشیر اول پارتھی بادشاہ اردوان چہارم کی رعیت میں سے تھا لیکن بادشاہ اسے اور اس کے خاندان کو شرانگیز خیال کرتا تھا۔ اردشیر اول کے باپ بابک نے ضلع اصطخر کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں تخت جمشید کے قدیم آثار پائے جاتے ہیں۔ پارتھی سلطنت کے لیے تخت جمشید بہت اہمیت رکھتا تھا۔ بابک کی موت کے بعد اردشیرنے اردوان چہارم کی حکم عدولی کرتے ہوئے اصطخر کا انتظام سنبھال لیا۔ بہت عرصہ صبر کرنے کے بعد اردوان چہارم نے خوزستان کے ماتحت بادشاہ کو اردشیر کے خلاف مہم پر بھیجا، جو کامیابی نہ ہوئی۔ پھر اردوان چہارم خود اردشیر کا مقابلہ کرنے میدان جنگ میں اترا لیکن شکست کھا گیا۔ اگلی بار ہونے والی لڑائی میں وہ مارا گیا۔ اس کے بعد پارتھی سلطنت کی مسمار عمارت پر اردشیر نے (اپنے اجداد ساسان کے نام پر) ساسانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ان تمام مہمات میں شاپور اول اپنے باپ کے ساتھ رہا۔
جس وقت اردشیر اپنے اقتدار کو مستحکم کر رہا تھا، آرمینیا کے پارتھی بادشاہ خسرو اول نے اس کے خلاف فوج جمع کرنا شروع کر دی اور مختلف قوتوں سے اتحاد قائم کر لیا۔ ان میں سلطنت کوشان اور روم بھی شامل تھیں۔ اردشیر نے خسرو اول کے حملے کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی افواج کو متحرک کر کے پہلے حملہ کر دیا۔ کوشان کے بادشاہ نے ہتھیار ڈال دیے اور خسرو اول کو شکست ہوئی۔ اس کے بعد اردشیر نے شاپور اول کو روم کے خلاف 230 ء کے لگ بھگ میسوپوٹامیا بھیجا۔
اگرچہ رومی مصنفین کا دعویٰ ہے کہ شہنشاہ الیگزینڈر سیویرس نے شاپور اول کو شکست دے دی تھی لیکن درحقیقت رومیوں نے صرف شاپور اول کی پیش قدمی کو روک تھا۔ رومیوں کی جانب سے ساسانی علاقے پر قبضے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور نہ ہی فیصلہ کن رومی فتوحات کا۔ آئندہ برسوں میں اردشیر اور شاپور اول نے کئی اہم رومی قصبوں اور شہروں پر قبضہ کر لیا۔ اردشیر حکمرانی اور جنگ وجدل سے تھکتا جا رہا تھا لہٰذا اس نے شاپور اول کو 240ء کے آس پاس شریک حاکم بنایا اور اسی برس کے آخر یا 241ء کے شروع میں اس کے انتقال پر شاپور اول کو شہنشاہ کا خطاب دے دیا گیا۔
انتظام اور مذہبی رواداری
شاپور اول اور اس کا باپ دونوں عمارتوں کی تعمیر کے دھنی تھے۔ ان کے بنائے گئے شاہی قصروں اور معبدوں میں بہت سی جدتیں نظر آتی ہیں، مثال کے طور پر داخلی راستے پر گنبد و مینار بنائے گئے۔ بعدازاں یہ طرز ایرانی روایت کا حصہ بن گیا۔ خاتون اول آزادوخت شابانو کے ساتھ شاپور اول نے گندی شاپور میں درس گاہ اور پہلا ٹیچنگ ہسپتال قائم کیا۔ یہ اپنے عہد میں تدریس کا اہم ترین مرکز بن گیا اور بعد ازاں ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں کے لیے قابل تقلید مثال ثابت ہوا۔ گندی پور پہلا ٹیچنگ ہسپتال تھا جس میں نوجوان فزیشنز تجربہ کار ماہرین طب سے سیکھا کرتے تھے۔ اردشیر اول اور شاپور اول سلطنت یا قوم کے اتحاد میں عقیدے کی اہم کو سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے عقیدے، زرتشتیت کو ریاستی سرپرستی فراہم کی۔
اس کے باوجود شاپور اول نے تنوع میں چھپی قوت کو تسلیم کیا اور مذہبی رواداری کو اپنایا۔ اس نے مسیحیوں، یہودیوں اور دوسرے عقائد سے وابستہ افرادکو مذہبی آزادی دی۔ رواداری کے اس ماحول میں دورِقدیم کا انتہائی بااثر عقیدہ وجود میں آیا جسے مانی ازم کہتے ہیں۔ اس کا بانی مانی (216-274ء) تھا جو شاپور اول کے دربار سے وابستہ تھا۔ اس کے دور میں مسیحیوں اور یہودیوں کو اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت تھی۔
روم سے لڑائیاں
اگرچہ شاپور اول قابل منتظم اور حکمران تھا، لیکن وہ خود کو ایک جنگجو بادشاہ خیال کرتا تھا اور ایسا ہی بننا چاہتا تھا۔ اس نے میسوپوٹامیا میں رومی قلعوں اور شہروں پر قبضے کیے اور مزید علاقے فتح کرنے کے لیے اپنی فوجیں دوڑاتا رہا۔ اس نے اپنے والد سے وراثت میں ملنے والی سلطنت کو بہت وسیع کیا۔
اسے جتنی عسکری مہارت تھی اتنا ہی انتظامی امور پر عبور تھا۔ الیگزینڈر سیویرس کے اپنی ہی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے کے بعد روم میں افراتفری کا دور آ گیا جسے ''تیسری صدی کا بحران‘‘ کہا جاتا ہے۔ تقریباً 50 برس کے عرصے میں 20 شہنشاہ آئے اور گئے۔ شاپور اول نے روم میں پائی جانے والی اس افراتفری کا پورا فائدہ اٹھا کر اپنی سلطنت کو وسعت دی۔
میسوپوٹامیا میں رومیوں کے خلاف مہم سے واپسی پر محض 17 سال کی عمر کا شہنشاہ گورڈین سوم (دورِ حکمرانی 238-244ء) اس کے مقابلے کو آیا۔ اس وقت گورڈین سوم ایک ناتجربہ کار سپاہی اور منتظم تھا، وہ اپنے سسر گیوس ٹائمزیتھوس کے زیراثر تھا جو قابل کماندار اور رہنما تھا۔ لیکن طاعون سے اس کی ہلاکت کے بعد صورتحال الٹ ہوگئی۔ گورڈین سوم میں فن حرب کی فطری قابلیت نہیں تھی اور وہ شاپور اول کی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھا۔ رومی فوج کی متعدد شکستوں کے بعد اس کے اپنے سپاہیوں نے اسے مار ڈالا۔ اس کی جگہ فلپ دی عرب (دورِحکمرانی 244-249ء) نے لے لی۔
فلپ کو معلوم تھا کہ اسے خود کو شاپور اول کی جنگ سے الگ کرنا ہے تاکہ روم کے دوسرے مسائل سے نپٹا جا سکے۔ اس نے شاپور اول کو معاہدہ کے تحت پانچ لاکھ دینار دیے۔ شاپور اول کی کندہ تحاریر کے مطابق فلپ نے روم کو اس کا باج گزار بنا دیا لیکن اس دعوے کی تردید کی جاتی ہے۔
فلپ نے متنازع علاقے آرمینیا کو شاپور اول کے حوالے کر دیا لیکن جلد معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس پر اپنا حق جتایا جس سے مخاصمت بڑھ گئی۔
شاپور اول نے میسوپوٹامیا میں رومیوں پر دوبارہ حملہ کیا اور روم کے صوبے شام اور شہر انطاکیہ پر قبضہ کر لیا۔ انطاکیہ قدیم روم کے اہم ترین شہری مراکز میں سے تھا۔ اس پر قبضے کی مزاحمت ہونا لازمی تھا۔ شہنشاہ والیرین شاپور اول کے خلاف بڑھا اور اسے شہر سے نکلا دیا، لیکن رومی فوج میں طاعون پھیل گیا اور انہیں انطاکیہ کی فصیلوں کے اندر واپس جانا پڑا۔
شاپور اول نے شہر کا محاصرہ کیا اور والیرین ہتھیار ڈالنے اور شرائط ماننے پر مجبور ہو گیا۔ وہ اور اس کے اعلیٰ اہلکار گفت و شنید کے لیے شاپور اول سے ملنے گئے۔ انہیں توقع تھی کہ ان کے ساتھ روایت کے مطابق سلوک ہو گا لیکن اس کے برخلاف انہیں قید کر لیا گیا۔ شاپور اول انہیں ''تاریکی کی قوتیں‘‘ سمجھتا تھا لہٰذا ان سے مذکرات ضروری خیال نہیں کرتا تھا۔ اس کے بعد ساسانی فوج نے شہر کا محاصرہ سخت کر دیا۔ شاپور اول کے بیٹے ہرمزکی قیادت میں انطاکیہ پر قبضہ ہو گیا۔
شاپور اول اور اذینہ
ان دنوں روم مستقل افراتفری کا شکار تھا۔ ایک کے بعد دوسرا شہنشاہ اپنی سپاہ، سینیٹ اور عوام یا ان تینوں کے لیے مایوس کن ثابت ہو رہا تھا۔ انہیں قتل کیا جا رہا تھا۔ ''تیسری صدی کے بحران‘‘ کے دوران روم کا شہنشاہ بننا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا، اس کے باوجود بعض لوگ تخت کے حصول کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
رومی سلطنت کی مشرقی سرحد پر، شام میں شہر پلمیرا کا حاکم اذینہ تھا۔ اپنی قسمت چمکانے کے لیے رومی شہنشاہوں سے زیادہ اسے شاپور اول فائدہ مند دکھائی دیتا تھا۔ اس نے شاپور اول سے اتحاد کی پیش کش کی، جسے رد کر دیا گیا۔ شاپور اول کے نزدیک وہ اس کے مساوی نہیں، اسے شاہ پور اول کا ماتحت ہونے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
اذینہ کو اپنی ہتک محسوس ہوئی اور اس نے ساسانیوں کے قبضے سے والیرین کو آزاد کرانے کی خاطر آگے بڑھنا شروع کیا۔ وہ بدو سپاہیوں کی قیادت کر رہا تھا جو ساسانی اور اس کی اپنی شامی فوج سے زیادہ اس سرزمین کو جانتے تھے اور وہاں کی آب و ہوا کے عادی تھے۔ اذینہ نے شاپور اول کو شکست دی اور اسے رومی علاقوں سے نکال باہر کیا۔
اذینہ سے شکست کھانے کے بعد شاپور اول نے داخلی امور اور دیگر سرحدی قوموں کے ساتھ جنگوں پر توجہ مرکوز کی۔ وہ رومیوں سے خبردار رہتا لیکن اس نے ان کے خلاف کارروائی نہ کی۔ دوسری طرف اس نے خواندگی اور ثقافت کو فروغ دیا۔
دورِقدیم کے بیشتر مصنف شاپور کے دورِحکمرانی کی تعریف کرتے ہیں۔ شاپور دوم (دورِحکمرانی 309-379ء) اور قبا اول (دورِحکمرانی 488-496ء اور498-531ء) کے ساتھ اسے بھی عظیم ساسانی حکمرانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ساسانی دور کے فن کے نامور نمونوں میں شاپور اول کا مجسمہ بھی شامل ہے جو 21 فٹ بلند ہے اور جسے ایک غار میں تراشا گیا۔ اسے ایک ہی پتھر سے تراشا اور جوہرات سے سجایا گیا۔ انصاف، مذہبی رواداری، عمارتوں کی تعمیر اور ثقافتی نفوذ کے باعث غیر رومی تحاریر میں اس کی مسلسل تعریف و توضیح ملتی ہے۔ اس کے بیٹے نے اس کی روایات کو جاری رکھا۔​
 

@intelligent086
🧐
کیا پوسٹ کر دیا ہے دکھائی کم دیتا ہے اوپر سے یہ
سعد بھائی نے پوسٹ ٹیکسٹ زوم کرنے کا آپشن شامل کیا ہے ابھی ٹیسٹنگ مرحلے میں ہے اس سے ریڈرز کسی بھی پوسٹ کا ٹیکسٹ باآسانی چھوٹا بڑا کر سکیں گے۔
 
سعد بھائی نے پوسٹ ٹیکسٹ زوم کرنے کا آپشن شامل کیا ہے ابھی ٹیسٹنگ مرحلے میں ہے اس سے ریڈرز کسی بھی پوسٹ کا ٹیکسٹ باآسانی چھوٹا بڑا کر سکیں گے۔
سعد بھائی اور میں دونوں فورم پر ٹرائی کر رہے ہیں وہ ہماری معلومات میں بہتری کے لئیے فورم تیار کر رہے ہیں اور ہم فورم کے فنکشن سیکھنے کی ٹرائی کر رہے ہیں
 
Back
Top