Antibodies and Coronavirus By Rizwan Atta

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
اینٹی باڈیز اور کورونا وائرس ..... رضوان عطا

corona.jpg


کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلنے کے ساتھ سائنس دان متاثرہ افراد کی شناخت کے مختلف طریقوں کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ ان لوگوں کا بھی پتا چلانا چاہتے ہیں جو کووڈ19- میں مبتلا ہونے کے بعد ٹھیک ہو چکے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ ان میں اس مہلک وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہو چکی ہو گی۔
اس سلسلے میں سیرولوجیکل ٹیسٹ کے ذریعے خون میں مخصوص اینٹی باڈیز تلاش کی جاتی ہیں۔ فی الحال ان ٹیسٹوں کو یہ جاننے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ کسی علاقے میں کتنی فیصد آبادی اس وائرس میں مبتلا ہوئی۔ امریکی شہروں نیویارک سٹی اور لاس اینجلس میں ایسا کیا جا چکا ہے۔
لیکن کیا ان ٹیسٹوں سے یہ جانا جا سکتا ہے کہ کس میں ''سارس کوو2‘‘ کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے کورونا وائرس کی اینٹی باڈی ٹیسٹنگ کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
اینٹی باڈی ٹیسٹ کیا ہے؟
''سارس کوو2‘‘ جیسے بیرونی مداخلت کار کے جسم میں آنے کے چند گھنٹوں بعد مدافعتی نظام بلاتخصیص حملہ آور ہوتا ہے، یعنی جسم اپنے ''عام جنگجو‘‘ مداخلت کاروں کی طرف بھیجتا ہے۔ لیکن پھر جسم اینٹی باڈیز کہلانے والے ''Y‘‘ شکل کے مالیکیولز بھیجتا ہے جو ٹھیک ٹھیک وائرس کو نشانہ بناتے ہیں۔ اینٹی باڈیز وائرس کے مخصوص حصوں پر گویا تالا لگا دیتے ہیں۔ اینٹی باڈیز کے ٹیسٹ انہیں مالیکیولز کی شناخت کے لیے ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر میں ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سائنس اینڈ دی بائیوفرنٹیئر انسٹی ٹیوٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈینیل لیریمور کہتے ہیں ''اینٹی باڈیز ٹیسٹ کے ذریعے یہ نہیں جانا جاتا کہ آپ کووڈ19- کے باعث بیمار ہیں یا نہیں، بلکہ نظام مدافعت سے پوچھا کہ آیا اس نے کورونا وائرس کو دیکھا ہے یا نہیں۔‘‘
اینٹی باڈیز ٹیسٹ میں عموماً دو طرح کے مالیکیولز کی شناخت کی جاتی ہے ''امونوگلوبولین ایم‘‘ اور ''امونوگلوبولین جی‘‘۔ جرثومے کے انفیکشن کے چند دنوں سے لے کر ایک ہفتے تک جسم کا نظام مدافعت کم مقدار میں ''امونوگلوبولین جی‘‘ پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد چند دنوں سے لے کر دو ہفتوں تک جسم ''امونوگلوبولین جی‘‘ کی زیادہ مقدار خارج کرتا ہے۔ چونکہ نظام مدافعت کو اپنا آپ دکھانے کے لیے کچھ وقت لگتا ہے اس لیے جنہیں کووڈ19- کی نئی نئی انفیکشن ہوئی ہوتی ہے ان کے ٹیسٹ منفی آتے ہیں۔
اینٹی باڈیز کیسے کام کرتی ہیں؟
''سارس کوو2‘‘ کے لیے عموماً دو طرح کے اینٹی باڈیز ٹیسٹ استعمال ہوتے ہیں... ''لیٹرل فلو امونو ایسیز‘‘ اور ''انزائم لنکڈ امونو سوربنٹ ایسے‘‘ (ای ایل آئی ایس اے)۔ دونوں کا بنیادی اصول ایک ہے؛ فرد کا خون یا سیرم (خون کا مائع حصہ) کا نمونہ لیا جاتا ہے جسے ان مالیکیولز کی سطح پر ڈالا جاتا ہے جن سے اینٹی باڈیز چپکتی ہیں۔ جب اینٹی باڈیز ان مالیکیولز کو ہدف بناتی ہیں تو ٹیسٹ میں ایک کیمیائی ردعمل ہوتا ہے جس سے نتیجے کا پتا چل جاتا ہے۔
ماہر وبائیات'' جیسی بلوم‘‘ کے مطابق لیٹرل فلو امونو ایسیز بہت آسان ہے اور اس کا نتیجہ فوراً آ جاتا ہے۔‘‘ البتہ یہ ٹیسٹ زیادہ عام نہیں۔ دوسری طرف ای ایل آئی ایس اے ٹیسٹ لیبارٹری میں ہوتے ہیں اور ان کا نتیجہ آنے میں عموماً 2 سے 3 گھنٹے لگتے ہیں۔
ہر اینٹی باڈی ٹیسٹوں میں وائرس کے مخصوص حصوں کو ٹارگٹ مالیکیول کے طور پر چنا جاتا ہے۔ ''سارس کوو2‘‘ کے معاملے میں زیادہ تر ٹیسٹوں میں وائرس کی میخ دار پروٹین پر توجہ دی جاتی ہے جو (انسانی) خلیوں میں داخلے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
کیا اینٹی باڈیز کی موجودگی کا مطلب قوت مدافعت کا پیدا ہونا ہے؟
اینٹی باڈیز کے ٹیسٹ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ہمارے اندر کووڈ19- کے خلاف قلیل المدت یا طویل المدت قوت مدافعت (امیونٹی ) پیدا ہو گئی ہے۔ کووڈ19-کو شکست دینے والے بعض افراد میں اینٹی باڈیز پیدا نہیں ہوتیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں قوت مدافعت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر رواں ماہ شائع ہونے والے ایک جائزے کے مطابق چین میں کووڈ19- کے 175 مریض، جو کل کا 30 فیصد بنتے تھے (اور بیشتر نوجوان تھے)، ان میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت کم تھی۔ اس کے باوجود یہ آسانی سے صحت یاب ہو گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جسم مختلف اینٹی باڈیز بنائے جن کا ٹیسٹ میں پتا نہ چلے۔ دوسری جانب چند افراد میں اینٹی باڈیز تو بنتی ہیں لیکن وہ وائرس کے خلاف زیادہ مؤثر نہیں ہوتیں۔
کووڈ19- کا مرض پیدا کرنے والے کورونا وائرس کے علاوہ دوسری اقسام کے کورونا وائرس کے قوت مدافعت پر ملے جلے اثرات دیکھے گئے ہیں۔ ''سارس‘‘ اور ''ایم ای آر ایس‘‘ (مڈل ایسٹ ریسپی ریٹری سینڈروم) جیسے زیادہ خطرناک کورونا وائرسز سے لوگوں کے جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہیں جو چند سالوں تک رہتی ہیں۔ لیکن تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وہ قسم جس سے عام زکام ہوتا ہے، وہ ایک سال کے اندر دوبارہ انفیکشن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ماہروبائیات ڈاکٹر ''میلانی اوٹ‘‘ کا کہنا ہے کہ ''ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ میں اینٹی باڈیز پیدا ہوئی ہیں تو آپ میں کسی نہ کسی طرح کی قوت مدافعت بھی پیدا ہو گئی ہو گی لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ کتنے عرصے کے لیے ہو گی۔‘‘
اس کا مطلب ہوا کہ اینٹی باڈیز کے معیاری ٹیسٹوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنے افراد انفیکٹ ہوئے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں بیماری کے خلاف مدافعت پیدا ہو گئی ہے یا نہیں۔
(ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا) بشکریہ ''لائیو سائنس‘‘

 

@intelligent086
دو مرتبہ پڑھا پھر کچھ کچھ پلے پڑا 😢 وبائی امراض کے ماہرین ابھی تک
@Danish Arain
کی طرح ٹکریں مار ہیں، لکھنے، ترجمہ کرنے والے اور پوسٹ کرنے والے نے حد مکا دی 😂 واہ
اہم اور مفید طبی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
 
@intelligent086
دو مرتبہ پڑھا پھر کچھ کچھ پلے پڑا 😢 وبائی امراض کے ماہرین ابھی تک
@Danish Arain
کی طرح ٹکریں مار ہیں، لکھنے، ترجمہ کرنے والے اور پوسٹ کرنے والے نے حد مکا دی 😂 واہ
اہم اور مفید طبی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
دانش میاں رگڑے میں کیسے آ گئے 😅 تیرا کیا جانا تھا ایک ٹکر
 
@intelligent086
دو مرتبہ پڑھا پھر کچھ کچھ پلے پڑا 😢 وبائی امراض کے ماہرین ابھی تک
@Danish Arain
کی طرح ٹکریں مار ہیں، لکھنے، ترجمہ کرنے والے اور پوسٹ کرنے والے نے حد مکا دی 😂 واہ
اہم اور مفید طبی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
شکریہ
اس کے آنے تک اپنا بندوبست کر کے رکھنا
 
Back
Top