Ertugrul & Liberals: Ab to Pehchan Lijiye

اب تو پہچان لیجئے ۔۔۔۔۔۔ منیر احمد بلوچ

کل تک جو یہ راگ الاپتے تھکتے نہیں تھے کہ موسیقی اور فن سمیت فن کار کیلئے کوئی سرحد نہیں ہوتی ‘ لیکن آج ان سب لبرلز اور ترقی پسندوں کی زبانیں ترک ڈراما سیریل'' ارطغرل‘‘ جو اِن دنوں پاکستان ٹیلی وژن سے اُردو زبان میں ڈبنگ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے‘ کیخلاف باہر آنے کو ہیں۔

dirilis-ertugrul-aired-on-ptv.jpg


ہمسایہ ملک بھارت سمیت مقبوضہ کشمیر میں ترک ڈراما سیریل ''ارطغرل‘‘پر پابندی کے باوجودکشمیری خاندان اس ڈرامے کو دیکھنے کیلئے مقامی آبادیوں میں اکٹھے ہو جا تے ہیں اور اس کیلئے پہلے سے اہتمام کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ وادی سمیت بھارت بھر میں آباد مسلمانوں میں ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘نے آزادی کی لہر کو مزید ابھار دیا ہے‘ جس سے بھارتی سرکار پہلے سے بھی زیا دہ خوف زدہ ہو گئی ہے اور اس نے سوشل میڈیا پر اپنے مہروں کوترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

ذہن نشین رہے کہ اس وقت بھارت سمیت دنیا کی تین مسلم ممالک اس ترک ڈرامے کو اپنے اپنے ملک میں ممنوع قرار دے چکی ہیں‘ لیکن دیکھا جائے تو ان سب کا خوف مشترکہ ہے‘ کیونکہ یہ تینوں ممالک ‘ بھارت کو شایدبہت ہی عزیز رکھتے ہیں۔

علاوہ ازیں ترک صدر طیب اردوان مئی2017 ء میں جب امریکی دورے پر واشنگٹن پہنچے تھے تو ان سے پہلے ترکی کا مذکورہ مشہور ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ اپنی مقبولیت کی دھوم مچا کر پیغام دے چکا تھا کہ ترک عوام اپنے صدر اردوان اور اس کے ایجنڈے کے ساتھ کھڑے ہیں ‘ جس پر امریکی اخبار ''نیو یارک ٹائمز‘‘ نے یہ سرخی لگائی تھی:

What a TV Series Tells Us About Erdogan's Turkey?

ان دنوں ہر ہفتے ترکی سمیت دنیا بھر میں ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ اپنی مقبولیت کے ریکارڈ توڑتا جا رہا تھا۔ ترکی کے اپنے ارد گرد کے حالات کے تناظر میں امریکی میڈیا اسے Awakening of a Nation کا نام دیتے ہوئے کہنے لگا تھاکہ ترک اپنے قومی مزاج کو بیدار کرنے کیلئے ہمیشہ اس قسم کی ٹیلی فلمز سامنے لے آتے ہیں ‘کچھ برس قبل بھی اپناقومی اعتماد بحال کرنے کیلئے Blockbuster ڈراما Magnificent Centuryآن ایئر کیا گیا تھا۔ ترکی کی ان دونوں ٹیلی فلمز میں ترک سلطنت کے اندرونی غداروں کی جس طرح نشاندہی کی گئی ہے‘ وہ انتہائی توجہ طلب اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ترکی نے2016 ء میں اپنی مختلف قسم کی150 ٹیلی فلم سیریز مشرقی یورپ‘ جنوبی امریکہ‘ مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے ایک سو سے زائد ممالک کو300 ملین ڈالر میں فروخت کی تھیں۔

دیکھا جائے توترک ڈراما '' ارطغرل‘‘ کسی ایک قوم کے خلاف جدو جہد پر مبنی ڈراما سیریل نہیں‘ بلکہ اس کا پہلا حصہ صلیبیوں دوسرا منگولوں اور تیسرا بازنطینی عیسائیوں کے خلاف مسلح جدو جہد پر پھیلا ہوا ہے ‘لیکن بنیادی طور پر یہ مسلم قومیت کو ابھارتا ہے‘ جس سے اس کے دشمن خائف رہتے ہیں کہ کہیں ان میں پھر سے وہ جذبہ پیدا نہ ہو جائے ‘جس نے 800 برس تک'' سلطنت ِ عثمانیہ‘‘ جیسی ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ کااصلTheme ‘جس نے بہت سی قوتوں اور سلطنتوں کے ماتھوں کی سلوٹیں گہری کر دی ہیں‘ وہ مسلم ایمان اور جہاد کو پھر سے اصلی شکل میں زندہ کرنے کا درس ہے ۔ مدتوں سے ہم سب سینما سے ٹی وی کی سکرین اور تھیٹروں میں دنیا بھر کی فلمیں اور ڈرامے دیکھتے چلے آ رہے ہیں ۔اس پر کبھی اس قسم کا منظم اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر احتجاج نہیں دیکھا ۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیا دت‘ پاکستان کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے دیسی لبرلز کا ترک ڈراما سیریل ''ارطغرل‘‘ کے خلاف واویلا دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ جیسے ان کی کسی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا گیا ہے‘ جس پر وہ تلملائے پھر رہے ہیں‘ اگر کسی مذہبی تنظیم یا شخصیت نے اپنے طور پاکستان میں کسی فلم یا ڈرامے پر احتجاج کیا بھی تو وہ ان کی ذاتی رائے تک ہی محدود رہااور کسی نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی‘ لیکن جب سے اسلامی برادر ملک ترکی کا ڈراما سیریل ''ارطغرل ‘‘پاکستان ٹیلی ویژن پر مرحلہ وار دکھایا جانے لگا ہے‘ تو سوشل میڈیا پر اس کے خلاف یک دم باقاعدہ ایک مہم شروع کر ادی گئی ہے۔ اس ترک ڈراما سیریل پر ہمارے کچھ لبرلز دانشوروں کے اعتراضات اور رونا دھونا دیکھ کر تو لگتا ہے کہ شاید انہیں کچھ ایسا خوف کھائے جا رہا ہے کہ ابھی ڈراما ختم بھی نہیں ہو گا کہ اسلام آباد اور لاہور کی سڑکوں پر پاکستانی نوجوان ''ارطغرل‘‘ کے گھوڑوں پر سوار اس سے منسلک ایک خاص دھن پر ہاتھوں میں تلواریں لہراتے ہوئے باہر نکل آئیں گے۔

ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے‘ کیا وہ تاریخ کا حصہ نہیں؟ اگر یہ تاریخ کا حصہ ہے تو ہماری اسلامی نشاۃ ثانیہ کا حوالہ کسی بھی طریقے سے دیا جانا تکلیف دہ کیوں ہو رہا ہے؟ امریکہ اور مغرب کی اپنے عقائد اور مفادات پر مبنی پہلی اور دوسری عالمی جنگوں پر اب تک نہ جانے کتنی فلمیں‘ ناول اور تھیٹر ہم دیکھ اور پڑھ چکے ہیں۔ کیا ہمارے ملک کے ترقی پسند وں میں سے کسی ایک نے بھی ان پر کوئی انگلی اٹھائی ؟ان فلموں میں بولے گئے کسی بھی ڈائیلاگ یا کسی منظر پر اعتراض کیا؟ مسلم معاشرے یا اس کی کردار کشی کے حوالے سے اس کی منظر کشی کے کسی بھی پہلو پر بیان بازی کی؟سوال یہ ہے کہ ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ سے کچھ سیاسی حلقے اور اس کے من پسند ترقی پسند کیوں سیخ پا ہو رہے ہیں؟

اگر سچ تک آسانی سے پہنچنے کی کوشش کریں تو کون نہیں جانتا کہ محمد بن قاسم کی بجائے راجہ داہر کن کا ہیرو چلا آ رہا ہے؟ سندھ میں ایک سیاسی جماعت گزشتہ بارہ برسوں سے حکمران چلی آ رہی ہے‘ جس میں پانچ سال مرکز اور صوبے کی مکمل طاقت اور باقی کے پانچ برسوں میں مرکز کے آدھے سے کچھ کم اختیارات اور رسوخ تو مکمل اختیار ات کے ساتھ ان کی سندھ حکومت چلی آ رہی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس دوران صوبائیت کو ہوا دینے کے علا وہ کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ستم ظریفی د یکھئے کہ سندھ کی جس آبادی کے نام پر تعصب پھیلایا جاتا ہے‘ اس کے کروڑوں غریبوں اور ناداروں کی دیکھ بھال کا کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں گیا۔ایسے ہی حلقوں کو ''ارطغرل‘‘ ڈرامے کے نشر ہونے پر سب سے زیادہ اعتراضات ہو رہے ہیں اور سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ صوبے کے مقامی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے احکامات کیے جا رہے ہیں۔

نریندر مودی‘ راشٹریہ سیوک سنگھ‘ جن سنگھ اور وشوا ہندو پریشد جیسے اسلام دشمن قوتوں کی تو سمجھ آتی ہے کہ وہ پاکستان میں ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘کی دن بدن بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ ہو رہے ہیں۔ ان کا دکھ '' ارطغرل‘‘ کے نام سے نہیں‘ بلکہ اس کے اندر ابھرے گئے اس جذبے اور سوچ کے بیدار ہونے کی ہے‘ جسے اس نے ہر ممکن سلانے کی کوشش کر رکھی تھی۔ اس ڈرامے میں واضح دشمن کے علا وہ کسی بھی بھیس میں چھپ اپنے ارد گرد گھومنے پھرنے والے ان ایجنٹوں کی نشاندہی کابھی خوف ہے۔ ترقی پسندوں اور بھارت کے سوشل میڈیا ڈائریکٹرز کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ترکوں کا ہمارے کلچر سے کیا تعلق تو حضور‘ آپ ہی بتایئے کہ آج تک امریکی مغربی ممالک اور بھارت کی فلموں‘ کتابوں اور ڈراموں کے ذریعے ہم پر جو کلچر ٹھونسا جاتا رہا ‘ان کا ہماری میراث سے کچھ تعلق تھا؟

میڈیا کا وہ محدود‘ لیکن طاقتور حصہ جس کے مقبوضہ کشمیر کے متعلق خیالات سے ایک زمانہ واقف ہے‘ اس وقت خم ٹھونک کر ترکی کے اس ڈرامے کا خلاف میدان میں اتر چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی تحریریں اور کارٹون دیکھنے کے بعد رتی بھر بھی شک نہیں رہ جاتا کہ یہ کن کی زبان بول رہے ہیں ؟ان لوگوں کی اصلیت کو اب توپہچان لیجئے ‘جوکالا باغ سے اٹھارہویں ترمیم اور '' ارطغرل‘‘ جیسے ڈرامے کی جی کھول کر مخالفت کر رہے ہیں۔​
 
Columnist
Munir Ahmad Baloch
Liberals khofzada ha ye darte hen momin ke jazba e imani se halaanke hamari qom ki aksariyat abhi khwab e ghaflat me ha lekn is tarah ke dramay qom ko jaga sakte hen.

kuch websites Ertugrul drama ke characters ka image kharab krne ke mission pe bhi kaam kar rhi hen wo actors ki social modern life ko numayan kr ke ghalat andaz me dikha rahy hen hamen aesi sites ko bhi pehchanna hoga aur unko blacklist krna hoga. Islam dushman propaganda ka her satah pe muqabla krna zarori ha.
 

@intelligent086 @Veer bro
مجھے ڈرامہ دیکھنے پر مجبور نا کرو میں کالم پڑھ کر سینٹی مینٹل ہو رہی ہوں رمضان المبارک کے بعد تیاری کر لوں
حبیب بھائی
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 
@intelligent086 @Veer bro
مجھے ڈرامہ دیکھنے پر مجبور نا کرو میں کالم پڑھ کر سینٹی مینٹل ہو رہی ہوں رمضان المبارک کے بعد تیاری کر لوں
حبیب بھائی
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
بتنگڑی دیکھ مزے کا ہے
 
@intelligent086
اوریا مقبول جان کیا لکھتے ہیں وہ بھی پڑھ لیں








ترک افواج دریائے فرات کے اس مقام پر اکٹھی ہو چکی تھیں جہاں سے یہ دریا ترکی سے شام کے ملک میں داخل ہوتا ہے۔ ہفتہ، 25 فروری، 2015 کی یخ بستہ رات11بجے انہیں شام میں داخل ہونے کا حکم ملا اور ترک ٹینک بکتربند گاڑیاں اور جیپیں شام کی عالمی سرحد عبور کر گئیں۔ شام اس وقت مختلف گروہوں کی آپس کی لڑائیوں میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا تھا،اور آج بھی اس ملک کی حالت ویسی ہی ہے۔ مہاجرین کے قافلے، سرحدیں عبور کر کے ترکی اردن اور سعودی عرب میں پناہ لے رہے ہیں۔ وہ لڑائی جو چند سال پہلے صرف دمشق کے بازاروں میں نہتے عوام نے بشار الاسد کی ظالم حکومت کے خلاف شروع کی تھی،اس نے پورے خطے کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جون 2014 میں جب پندرہ سال پہلے 1999 میں بننے والی جماعت التوحید والجہاد کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے موصل کے شہر پر قبضہ کرکے ''اسلامی ریاستِ عراق و شام'' جسے عرف عام میں ''ISL'' کہتے ہیں کا اعلان کیا تو دریائے فرات کے دونوں کناروں پر آباد عراق وشام کے لاتعداد شہر اس کے قبضے میں تھے۔ یہ پورا خطہ بشار الاسد کی افواج، اس کی فوج سے بغاوت کرنے والے سپاہیوں کی تنظیم ''احرارالشام''، جبتہ النصرہ، ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی زیرنگرانی افغانستان اور پاکستان سے بھرتی کیے جانیوالے زینبیوں اور فاطمیوں جسے ملیشیا اور کردوں کے مسلح گروہ پیش مرگہ کے علاوہ دیگر لاتعداد چھوٹے چھوٹے گروہوں کے درمیان لڑائی کا خوفناک مرکز تھا۔ اس منظر نامے میں اپنی افواج کو شام میں اتارنا ترکی کیلئے ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ لیکن ترکی کی حکومت اور عوام کے نزدیک یہ ان کیلئے عزت و توقیر اور زندگی موت کا مسئلہ تھا۔ یہ افواج شام کی سرحد عبور کرکے ایک ایسے قطعہ ارضی کی جانب بڑھ رہی تھیں جو یوں تو شام میں واقع تھا لیکن عالمی معاہدات کی رو سے اس پر ترکی کا جھنڈا لہراتا تھا۔ یہ شام اور ترکی کی سرحد سے 27 کلومیٹر دور شام کے علاقے میں دریائے فرات کے کنارے ارطغرل کے والد اور کائی قبیلے کے سربراہ سلمان شاہ کا مقبرہ ہے جو 1236 میں اسی دریائے فرات میں ڈوب کر جاں بحق ہو گیا تھا۔ سلیمان شاہ خلافت عثمانیہ کے بانی عثمان اوّل کا دادا تھا۔ جب تاتاریوں نے 12ویں صدی میں ایشیاء پر یلغار شروع کی تو سلیمان شاہ پچاس ہزار افراد پر مشتمل اپنے کائی قبیلے کو لے کر موجودہ ترک بارڈر سے سو کلومیٹر دور قلات جبار کے قریب اناطولیہ کے علاقے میں جاکر آباد ہوگیا۔ سلمان شاہ کے پوتے عثمان اوّل نے 1299 نے جس ''دولت عثمانیہ علیہ'' کی بنیاد رکھی اسے خلافت عثمانیہ کہا جاتا ہے۔ یہ خلافت مسلمانوں کی مرکزیت کی پانچ سو تیئس سال تک علامت رہی اور جنگ عظیم اول کے اختتام پراتحادی افواج میں شامل ممالک فرانس، برطانیہ، اٹلی، جاپان، یونان، رومانیہ، اور جمہوریہ سرب و کرویشیا کی اتحادی افواج نے ترکی کیساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے معاہدہ لیوزان (Treaty of Lausanne) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر 24 جولائی 1923 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لیوزان میں دستخط ہوئے اور موجودہ ترکی کے علاوہ خلافت عثمانیہ کے ہاتھوں سے وہ تمام علاقے نکل گئے جو تین براعظموں پر پھیلے ہوئے تھے۔لیکن اس معاہدے سے دو برس قبل 21 اکتوبر 1921کو ترکی اور فرانس کی افواج کے درمیان انقرہ میں ایک معاہدہ ہوا، جس کے آرٹیکل 9کے تحت سلمان شاہ کے مزار کو ترکی کا علاقہ تسلیم کیا گیا تھا ۔ ان دونوں معاہدوں کے بعد ترک قوم نے تمام علاقوں سے اپنی دستبرداری کا اعلان کیا،لیکن عالمی معاہدے کے تحت سلیمان شاہ کے مقبرے کے چند ایکڑ علاقے کو ترکی کی سلطنت کا حصہ قراردے دیا گیا جہاں ترکی مزار کی حفاظت کے لیے مسلح دستے رکھ سکتا تھا اور اس پر ترکی کا پرچم لہراتا تھا۔ سلمان شاہ کا یہ مزار جو 1236 میں بنایا گیا تھا 1973 تک اسی مقام پر رہا، پھر جب فرات دریا پر ڈیم بنایا جارہا تھا اور تو یہ اس کی جھیل کی زد میں آ رہا تھا۔ ترکی نے شام کی حکومت سے مل کر اسے دریائے فرات کے کنارے ترکی کی سرحد کی جانب ایک نئی جگہ منتقل کردیا گیا جو بارڈر سے 27 کلومیٹر دور تھی۔ داعش نے فروری 2015 میں ترک حکومت کو کہا کہ اگر مقبرے پر موجود ترک گارڈز نہ ہٹائے گئے تو وہ مقبرے پر حملہ کر دیں گے۔ ترکی نے شام کی حکومت سے شکایت کی، تو بے بس بشارالاسد کچھ بھی نہ کر سکا۔ یوں 22 فروری 2015کی رات ترک افواج کے 39 ٹینک، 57 بکتر بند گاڑیاں اور چھ سو سپاہی ایف سولہ طیاروں اور ڈرون طیاروں کی چھاؤں میں مقبرے کی جانب روانہ ہوئے۔ مقبرہ کو باقاعدہ مشینری کی مدد سے ملحقہ زمین سمیت نکالا گیا اور اسے ترکی کی سرحد سے صرف 180 میٹر دور شام کے ہی علاقے میں دریائے فرات کے کنارے لا کر نصب کر دیا گیا۔اب یہ نیا مقبرہ بارڈر پر تعینات ترک افواج کی نظروں کے سامنے شام کے ملک میں واقع ہے۔ جس پر ترک فوجی پہرا دیتے ہیں اور ترک پرچم لہراتا ہے۔پاکستان میں ان دنوں ترکی کا مشہور ڈرامہ ارطغرل غازی ٹیلی ویژن پر دکھایا جا رہا ہے، جس میں کائی قبیلے کے سردار سلمان شاہ کا جاندار کردار اسلامی تہذیب و تمدن اور قبائلی روایات کا شاندار نمونہ ہے۔ اس ڈرامے نے گذشتہ پچیس سال سے پاکستانی میڈیا پر قابض سیکولر، لادین اور ملحد طبقات کے ہوش اڑا دیے ہیں۔مشرف آمریت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان طبقات نے پچیس سالوں میں میرے ملک کے عوام پر اخلاق باختہ کہانیوں، فحش کرداروں اور خاندانی زندگی دھجیاں اڑانے والے سکرپٹس پر ڈرامائے گئے سیریلزکے ذریعے پورے معاشرے کے دل و دماغ سے اسلام اور اس سے وابستہ طرز زندگی کو محو کرنے بلکہ کمپیوٹر کی زبان میں ''واش'' کرنے کی انتھک کوشش کی تھی۔ لیکن ان کی تمام کوششوں کے برعکس آج صرف یہ ایک ڈرامہ جو مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ اور عظیم کردار کی علامت ہے، اس نے دلوں کو پھر سے گرما دیاہے۔ ارطغرل نے یہ ثابت کردیا کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت جو کچھ دیکھنا چاہتی ہے وہ ہم اسے نہیں دکھاتے ہیں اور اگر ہم اسے ویسا کچھ دکھائیں توپھر وہ دیوانہ وار اس کے عشق میں سرشار ہو جاتی ہے۔ جوش و جذبے کا یہ عالم دیکھیں کہ،پاکستان میں صرف دو ہفتوں میں یہ ڈرامہ 14 ملین افراد نے دیکھا جب کہ ترکی میں پانچ سالوں میں اسے بارہ ملین افراد نے دیکھا۔ اس ڈرامے نے جو کیفیت دلوں میں زندہ کی ہے، اسکا خوف ہی تو ہے جس سے اس وقت ہر سیکولر، ملحد، قوم پرست دہریے کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔انہیں خوب اندازہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان تو وہ قوم ہے جو خود انگریزی کی غلامی میں تھی لیکن اس نے 1920 کی دہائی میں برصغیر کی سب سے بڑی اور پہلی سیاسی مومنٹ ''تحریک خلافت'' شروع کی تھی۔ جس کے بارے میں گاندھی جیسے شخص نے بھی یہ کہا تھا کہ مجھے اگر اپنی زندگی میں کسی ایک بات کا انتخاب کرنا ہو تو میں ''تحریک خلافت'' کا انتخاب کروں گا کہ کیونکہ یہ ہندوستان میں سیاسی شعور کا آغاز تھی۔ ایک ایسا سیاسی شعور جو مسلمانوں کو خلافت کی لڑی میں پروئے جانے کے خواب دکھاتا ہے۔آج بھی خوف یہی ہے کہ اس طرح کے ڈرامے کے کرداروں سے کہیں پاکستان کے عوام کی راکھ سے مسلم خلافت کی چنگاریاں نہ پھوٹ پڑیں۔ سلیمان شاہ مسلمان امت کا ایک ایسا ہیرو ہے جس سے ترک قوم اتنی محبت کرتی ہے کہ ایسا ہیرو کے مزار کے لیئے کمال اتاترک جیسا اسلام دشمن سیکولر بھی ترک فوجی دستے بھیجتا تھا۔ جس کا مزار آج ترک افواج کو شام کے ملک میں گھسنے اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے پر مجبور کرسکتا تھا۔اگر مزار دلوں میں اسقدر دھڑکتا ہے تو ڈرامے میں جیتا جاگتا کردار دلوں کو کتنا گرمائے گا۔ یہی تو خوف ہے جس سے پاکستان کے ہر قوم پرست سیکولر، ملحد اور لبرل کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔
 
@intelligent086 @Veer bro
مجھے ڈرامہ دیکھنے پر مجبور نا کرو میں کالم پڑھ کر سینٹی مینٹل ہو رہی ہوں رمضان المبارک کے بعد تیاری کر لوں
حبیب بھائی
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
مینٹل نا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
@intelligent086
اوریا مقبول جان کیا لکھتے ہیں وہ بھی پڑھ لیں








ترک افواج دریائے فرات کے اس مقام پر اکٹھی ہو چکی تھیں جہاں سے یہ دریا ترکی سے شام کے ملک میں داخل ہوتا ہے۔ ہفتہ، 25 فروری، 2015 کی یخ بستہ رات11بجے انہیں شام میں داخل ہونے کا حکم ملا اور ترک ٹینک بکتربند گاڑیاں اور جیپیں شام کی عالمی سرحد عبور کر گئیں۔ شام اس وقت مختلف گروہوں کی آپس کی لڑائیوں میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا تھا،اور آج بھی اس ملک کی حالت ویسی ہی ہے۔ مہاجرین کے قافلے، سرحدیں عبور کر کے ترکی اردن اور سعودی عرب میں پناہ لے رہے ہیں۔ وہ لڑائی جو چند سال پہلے صرف دمشق کے بازاروں میں نہتے عوام نے بشار الاسد کی ظالم حکومت کے خلاف شروع کی تھی،اس نے پورے خطے کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جون 2014 میں جب پندرہ سال پہلے 1999 میں بننے والی جماعت التوحید والجہاد کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے موصل کے شہر پر قبضہ کرکے ''اسلامی ریاستِ عراق و شام'' جسے عرف عام میں ''ISL'' کہتے ہیں کا اعلان کیا تو دریائے فرات کے دونوں کناروں پر آباد عراق وشام کے لاتعداد شہر اس کے قبضے میں تھے۔ یہ پورا خطہ بشار الاسد کی افواج، اس کی فوج سے بغاوت کرنے والے سپاہیوں کی تنظیم ''احرارالشام''، جبتہ النصرہ، ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی زیرنگرانی افغانستان اور پاکستان سے بھرتی کیے جانیوالے زینبیوں اور فاطمیوں جسے ملیشیا اور کردوں کے مسلح گروہ پیش مرگہ کے علاوہ دیگر لاتعداد چھوٹے چھوٹے گروہوں کے درمیان لڑائی کا خوفناک مرکز تھا۔ اس منظر نامے میں اپنی افواج کو شام میں اتارنا ترکی کیلئے ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ لیکن ترکی کی حکومت اور عوام کے نزدیک یہ ان کیلئے عزت و توقیر اور زندگی موت کا مسئلہ تھا۔ یہ افواج شام کی سرحد عبور کرکے ایک ایسے قطعہ ارضی کی جانب بڑھ رہی تھیں جو یوں تو شام میں واقع تھا لیکن عالمی معاہدات کی رو سے اس پر ترکی کا جھنڈا لہراتا تھا۔ یہ شام اور ترکی کی سرحد سے 27 کلومیٹر دور شام کے علاقے میں دریائے فرات کے کنارے ارطغرل کے والد اور کائی قبیلے کے سربراہ سلمان شاہ کا مقبرہ ہے جو 1236 میں اسی دریائے فرات میں ڈوب کر جاں بحق ہو گیا تھا۔ سلیمان شاہ خلافت عثمانیہ کے بانی عثمان اوّل کا دادا تھا۔ جب تاتاریوں نے 12ویں صدی میں ایشیاء پر یلغار شروع کی تو سلیمان شاہ پچاس ہزار افراد پر مشتمل اپنے کائی قبیلے کو لے کر موجودہ ترک بارڈر سے سو کلومیٹر دور قلات جبار کے قریب اناطولیہ کے علاقے میں جاکر آباد ہوگیا۔ سلمان شاہ کے پوتے عثمان اوّل نے 1299 نے جس ''دولت عثمانیہ علیہ'' کی بنیاد رکھی اسے خلافت عثمانیہ کہا جاتا ہے۔ یہ خلافت مسلمانوں کی مرکزیت کی پانچ سو تیئس سال تک علامت رہی اور جنگ عظیم اول کے اختتام پراتحادی افواج میں شامل ممالک فرانس، برطانیہ، اٹلی، جاپان، یونان، رومانیہ، اور جمہوریہ سرب و کرویشیا کی اتحادی افواج نے ترکی کیساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے معاہدہ لیوزان (Treaty of Lausanne) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر 24 جولائی 1923 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لیوزان میں دستخط ہوئے اور موجودہ ترکی کے علاوہ خلافت عثمانیہ کے ہاتھوں سے وہ تمام علاقے نکل گئے جو تین براعظموں پر پھیلے ہوئے تھے۔لیکن اس معاہدے سے دو برس قبل 21 اکتوبر 1921کو ترکی اور فرانس کی افواج کے درمیان انقرہ میں ایک معاہدہ ہوا، جس کے آرٹیکل 9کے تحت سلمان شاہ کے مزار کو ترکی کا علاقہ تسلیم کیا گیا تھا ۔ ان دونوں معاہدوں کے بعد ترک قوم نے تمام علاقوں سے اپنی دستبرداری کا اعلان کیا،لیکن عالمی معاہدے کے تحت سلیمان شاہ کے مقبرے کے چند ایکڑ علاقے کو ترکی کی سلطنت کا حصہ قراردے دیا گیا جہاں ترکی مزار کی حفاظت کے لیے مسلح دستے رکھ سکتا تھا اور اس پر ترکی کا پرچم لہراتا تھا۔ سلمان شاہ کا یہ مزار جو 1236 میں بنایا گیا تھا 1973 تک اسی مقام پر رہا، پھر جب فرات دریا پر ڈیم بنایا جارہا تھا اور تو یہ اس کی جھیل کی زد میں آ رہا تھا۔ ترکی نے شام کی حکومت سے مل کر اسے دریائے فرات کے کنارے ترکی کی سرحد کی جانب ایک نئی جگہ منتقل کردیا گیا جو بارڈر سے 27 کلومیٹر دور تھی۔ داعش نے فروری 2015 میں ترک حکومت کو کہا کہ اگر مقبرے پر موجود ترک گارڈز نہ ہٹائے گئے تو وہ مقبرے پر حملہ کر دیں گے۔ ترکی نے شام کی حکومت سے شکایت کی، تو بے بس بشارالاسد کچھ بھی نہ کر سکا۔ یوں 22 فروری 2015کی رات ترک افواج کے 39 ٹینک، 57 بکتر بند گاڑیاں اور چھ سو سپاہی ایف سولہ طیاروں اور ڈرون طیاروں کی چھاؤں میں مقبرے کی جانب روانہ ہوئے۔ مقبرہ کو باقاعدہ مشینری کی مدد سے ملحقہ زمین سمیت نکالا گیا اور اسے ترکی کی سرحد سے صرف 180 میٹر دور شام کے ہی علاقے میں دریائے فرات کے کنارے لا کر نصب کر دیا گیا۔اب یہ نیا مقبرہ بارڈر پر تعینات ترک افواج کی نظروں کے سامنے شام کے ملک میں واقع ہے۔ جس پر ترک فوجی پہرا دیتے ہیں اور ترک پرچم لہراتا ہے۔پاکستان میں ان دنوں ترکی کا مشہور ڈرامہ ارطغرل غازی ٹیلی ویژن پر دکھایا جا رہا ہے، جس میں کائی قبیلے کے سردار سلمان شاہ کا جاندار کردار اسلامی تہذیب و تمدن اور قبائلی روایات کا شاندار نمونہ ہے۔ اس ڈرامے نے گذشتہ پچیس سال سے پاکستانی میڈیا پر قابض سیکولر، لادین اور ملحد طبقات کے ہوش اڑا دیے ہیں۔مشرف آمریت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان طبقات نے پچیس سالوں میں میرے ملک کے عوام پر اخلاق باختہ کہانیوں، فحش کرداروں اور خاندانی زندگی دھجیاں اڑانے والے سکرپٹس پر ڈرامائے گئے سیریلزکے ذریعے پورے معاشرے کے دل و دماغ سے اسلام اور اس سے وابستہ طرز زندگی کو محو کرنے بلکہ کمپیوٹر کی زبان میں ''واش'' کرنے کی انتھک کوشش کی تھی۔ لیکن ان کی تمام کوششوں کے برعکس آج صرف یہ ایک ڈرامہ جو مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ اور عظیم کردار کی علامت ہے، اس نے دلوں کو پھر سے گرما دیاہے۔ ارطغرل نے یہ ثابت کردیا کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت جو کچھ دیکھنا چاہتی ہے وہ ہم اسے نہیں دکھاتے ہیں اور اگر ہم اسے ویسا کچھ دکھائیں توپھر وہ دیوانہ وار اس کے عشق میں سرشار ہو جاتی ہے۔ جوش و جذبے کا یہ عالم دیکھیں کہ،پاکستان میں صرف دو ہفتوں میں یہ ڈرامہ 14 ملین افراد نے دیکھا جب کہ ترکی میں پانچ سالوں میں اسے بارہ ملین افراد نے دیکھا۔ اس ڈرامے نے جو کیفیت دلوں میں زندہ کی ہے، اسکا خوف ہی تو ہے جس سے اس وقت ہر سیکولر، ملحد، قوم پرست دہریے کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔انہیں خوب اندازہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان تو وہ قوم ہے جو خود انگریزی کی غلامی میں تھی لیکن اس نے 1920 کی دہائی میں برصغیر کی سب سے بڑی اور پہلی سیاسی مومنٹ ''تحریک خلافت'' شروع کی تھی۔ جس کے بارے میں گاندھی جیسے شخص نے بھی یہ کہا تھا کہ مجھے اگر اپنی زندگی میں کسی ایک بات کا انتخاب کرنا ہو تو میں ''تحریک خلافت'' کا انتخاب کروں گا کہ کیونکہ یہ ہندوستان میں سیاسی شعور کا آغاز تھی۔ ایک ایسا سیاسی شعور جو مسلمانوں کو خلافت کی لڑی میں پروئے جانے کے خواب دکھاتا ہے۔آج بھی خوف یہی ہے کہ اس طرح کے ڈرامے کے کرداروں سے کہیں پاکستان کے عوام کی راکھ سے مسلم خلافت کی چنگاریاں نہ پھوٹ پڑیں۔ سلیمان شاہ مسلمان امت کا ایک ایسا ہیرو ہے جس سے ترک قوم اتنی محبت کرتی ہے کہ ایسا ہیرو کے مزار کے لیئے کمال اتاترک جیسا اسلام دشمن سیکولر بھی ترک فوجی دستے بھیجتا تھا۔ جس کا مزار آج ترک افواج کو شام کے ملک میں گھسنے اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے پر مجبور کرسکتا تھا۔اگر مزار دلوں میں اسقدر دھڑکتا ہے تو ڈرامے میں جیتا جاگتا کردار دلوں کو کتنا گرمائے گا۔ یہی تو خوف ہے جس سے پاکستان کے ہر قوم پرست سیکولر، ملحد اور لبرل کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔
ماشاءاللہ
خوب صورت اضافے کا شکریہ
 
Back
Top