Indo-China Conflict By Abdullah Babar Awan

Indo-China Conflict By Abdullah Babar Awan

۔2020ء کا سال بھارت کے لیے کئی حوالوں سے ناکامیوں اور اکیلے پن کا سال ہے۔اکھنڈ بھارت کے خواب کو چکنا چور کرنے کا موسم بھی۔بھارت کی ناکامیاں بین الاقوامی سفارتی سٹیج پر لیڈ نیوز بن کر سامنے آرہی ہیں۔دوسری جانب ایشیا میں بھارت 15اگست 1947ء سے لے کر سال2018ء تک ایسی تنہائی کا شکار پہلے کبھی نہیں ہوا‘جس کی سب سے بڑی وجہ ایک جانب پڑوسی ملکوں کی سا لمیت میں مسلسل مداخلت ہے جبکہ دوسری وجہ اسلاموفوبیا اور دنیا کی سب سے بڑی اقلیت بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کی ریاستی پالیسی ہے۔ ساتھ ہی سائوتھ ایسٹ ایشیا میں بھارت نے سہ فریقی جنگی جنون کو ہوا دے رکھی ہے ‘جس کا ایک حتمی نتیجہ تو نکل ہی آیا ہے ‘یہ ہے ہمارے عظیم دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے لداخ میں اپنے علاقوں کا استحکام۔ بھارت چین کی علاقائی سا لمیت پر مبنی اس تازہ پالیسی اور اقدامات کو لداخ پر چینی قبضہ کہہ کر مغربی دنیا کے سامنے مظلوم بننے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ دوسرے دو محاذوں میں پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول اور نیپال کے تین علاقوں پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی طرز پہ قبضہ جمانے کی بھارتی کوششیں ہیں۔ اس طرح صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی جانب سے دوسرے خودمختار پڑوسی ملکوں کے جغرافیے میں تبدیلی کی خواہش‘ پاکستان اور نیپال کی طرح عوامی جمہوریہ چین کے لیے بھی ناقابل قبول اور برداشت سے باہر ہے۔ بھارت کی جانب سے سال 1962ء میں‘ اسی طرح کے جنگی جنون کے نتیجے میں بھارت کو چینی علاقوں میں دراندازی پر چین کی فوج ‘جس کا نام پیپلز لبریشن آرمی ہے ‘کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھانا پڑی تھی۔
۔20اکتوبر 1962ء کے دن ابھی صبح کی پہلی کرن نظر نہیں آئی تھی کہ چین نے بھارت کو سبق سکھانا شروع کردیا ۔اس جنگ کی اہم ترین وجہ انڈیا کی جانب سے تبت کے چینی علاقے پر اندرونی معاملات میں مسلسل دخل اندازی تھی‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت مارچ 1959ء کے مہینے میں سامنے آیا‘جب انڈیا نے بھارت نواز دلائی لاماکو سیاسی اور عسکری پناہ دے کر چین کے اندرونی معاملات میں براہ راست در اندازی کی۔ اس کھلی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں 20 اکتوبر کوصبح پانچ بجے کے قریب چین نے تین جگہوں پر ہندوستان کے چھکّے چھڑا دیے۔ تب ہندوستان کے وزیر اعظم مسٹر جواہر لعل نہرو نے اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے جنگی طیارے انڈیا بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ نومبر1962ء کی20تاریخ کو یہ جنگ خاتمے کو پہنچی۔ جنگ کا نتیجہ چین کے اس وقت کے صدرنے ایک سری لنکن لیڈر سے کہے جملے میں بیان کیا ''یہ تنازعہ ہندوستان کے غرور کو مسمار کرنے اور ان کی جھوٹی عظمت کے بھرم کو توڑنے کے لیے ہوا تھا‘‘۔
۔1962ء سے لے کر 2019ء تک کا 56سالہ عرصہ بھارتی فوج اور لیڈرشپ نے گرم تَوے پر گزارا۔ اب آدھی صدی کے بعد‘ 2020ء میں گرم تَوے پر سے اُٹھ کر بھارت نے سیدھی تندور میں چھلانگ ماری ہے جس کا لازمی نتیجہ ایک ہی ہو سکتاتھا جو سب کے سامنے ہے اور وہ یوں کہ مودی کی جانب سے لداخ کے علاقے پر بھارتی قبضہ جمانے کا خواب اس کی اپنی لگائی ہوئی آگ میں کسی سادھو کی راکھ بن گیا ہے۔اس تازہ انڈو چائنہ فوجی زور آزمائی کا پہلا رائونڈہی فائنل رائونڈ ثابت ہواہے‘ جس کے نتیجے میں خطے کی سیاست کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔
اس اہم موضوع پر پاکستانی میڈیا کی توجہ وہ نہیں جس کا یہ مستحق ہے۔ سب سے پہلے چلئے بھارتی میڈیا کی جانب جہاں بزنس سٹینڈرڈ میں انڈین ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر چھپنے والا آرٹیکل دیکھ لینا کافی رہے گا۔ انڈیا کے بڑے ڈیلی انگلش نیوز پیپر کی رپورٹ تسلیم کرتی ہے کہ چائنا کے پانچ ہزارسے زائد مسلح جوان پانچ مختلف سٹریٹیجک پوائنٹس سے لداخ میں پہنچ آئے ہیں۔ ان میں گلوان دریا کے ساتھ چار جگہوں پر اورپین گونگ ندی کے ساتھ ایک سے زائد مقام پر چین نے اپنے فوجی لگا دیے ہیں۔ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ اخبار اسے معمول کا فوجی تنازعہ نہیں مانتا۔ اس کا کہنا ہے یہ 2013ء اور2014ء کی طرز پر لداخ میں چین سے جھڑپیں نہیں ہیں بلکہ اپریل2020 ئ کے آخر میں چین کی مسلح افواج کو اس علاقے میں واک اووَر مل چکا ہے ۔بھارت کی آرمی کے چیف‘ جنرل منوج مُکند نروائن ‘نریندرمودی کے کنٹرولڈ میڈیا پر اکثر بڑھکیں مارتے نظر آتے ہیں۔اس جرنیل کی قیادت میں انڈین آرمی چائنا کی مسلح افواج کو چیلنج تک نہ کرسکی۔چین کی فوج سے مقابلہ کرنا تو دور کی بات تھی اس کانفلکٹ کا تیسرا نکتہ چین کی مسلح افواج کی جانب سے لداخ کے علاقوں میں بنکرز‘ایئر بیس اور اہم ترین فوجی اڈے قائم کرنے کا ہے۔ چین نے اپنی فوجی پوزیشن لداخ کے علاقے میں ہندوستان کی فوج سے بہت بہتر اور فیصلہ کن بنالی ہے۔
انڈو چین کانفلکٹ کی اصل چابی چھوٹا سا ٹائون ہے ''دولت بیگ ‘‘۔ دولت بیگ ٹائون میں انڈین آرمی نے ایک چھوٹا سٹرپ نما ایئر بیس بنایا ‘جس کی خاص بات یہ تھی کہ دولت بیگ کے چھوٹے ایئر بیس کا فاصلہ قراقرم پاس سے صرف آٹھ میل بنتا ہے۔ آئیے دولت بیگ کی چابی سے تازہ کانفلکٹ کی وجوہات دیکھیں:
پہلی وجہ: گزشتہ تقریباً ایک سال کے عرصے میں انڈین آرمی نے دولت بیگ کا درجہ پوسٹ سے مکمل بریگیڈ لیول تک بڑھا دیا جس کے ساتھ ہی انڈین آرمی نے دولت بیگ کو اندرونِ بھارت مختلف ڈیفنس روڈز سے جوڑنا شروع کیا۔ آپ اسے تنازعے کی بنیا د کہہ لیں۔
دوسری وجہ: پچھلے اکتوبر کے مہینے میں انڈین فوج نے چین کے سرحدی علاقے میں راتوں رات سڑک تعمیر کی جسے دَربوک شیوَک دولت بیگ روڈ کا نام دیا گیا۔سڑک کی تعمیر کا مقصد دولت بیگ آرمی بریگیڈ کو حملے کی تیاری میں لانا تھا۔یاد رہے کہ اسی عرصے میں انڈیا کے جدید ہِٹلر مودی نے پاکستان کو'' اندر گھس کر سبق سکھانے ‘‘کی گیدڑ بھبکی ماری تھی۔
تیسری وجہ:تنازعے کا فوری نکتہ قراقرم درّے سے جڑی ہوئی گلوان کی وادی ہے۔اس وادی کی مغربی پہاڑی پرانڈین آرمی کی نئی تعمیر کردہ ڈی ایس ڈی روڈ واقع ہے۔یہاں دولت بیگ انڈین آرمی بریگیڈ کے لیے سپلائی کا کوئی دوسرا زمینی راستہ موجود نہیں‘لہٰذا زمینی حقائق کی روشنی میں چین کی جانب سے انتہائی شاندار پتہ کھیلا گیا۔ فوجی زبان میں اسے Brilliant Decoy Move کہا جائے گا۔
تبت میں آج بھارت کاواحد سپلائی روٹ چینی فوج کے بوٹ کے نیچے ہے۔ یہاں پانچ ہزارسے 10ہزار فوجیوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ گلوان ایک تنگ ترین وادی ہے جس کا منہ چین نے بند کردیا ہے اس لیے انڈین آرمی تکنیکی طور پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی بلکہ دولت بیگ بریگیڈ خوفناک ٹریپ میں آچکا ہے ۔چین کی طرف سے اُٹھائے گئے اس انقلابی قدم کے نتیجے میں گلگت بلتستان اور OBORسی پیک روٹ پر قبضہ کرنے کا بھارتی خواب ٹوٹ کر بکھر گیا ہے۔
اس وقت مودی کا انڈیا امریکہ کے اندر اپنی لابی کو متحرک کر رہا ہے۔ بھارت کے پاس تبت کے تنازعے پر چین کے خلاف بین الاقوامی فورمز پر کہنے کے لیے کچھ نہیں۔ مودی کاانڈیا اندرونی اور بیرونی کانفلکٹس کی دلدل میں پھنس رہا ہے۔پاکستان کا دفاع پہلے ہی مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں تھا ‘اب پاک چائنا آئرن فرینڈشپ نے بھارتی توسیع پسندی کے خلاف دیوارِ چین کھڑی کردی ہے۔چینی صدرجنابِ شی نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو درست کہا تھاکہ ہم آئرن فرینڈز ہیں۔

 
Columnist
Abdullah Babar Awan
Column date
Jun 2, 2020
@intelligent086
انڈیا مردہ باد
بہت عمدہ معلومات
شیئر کرنے کا شکریہ
 

Back
Top