Naya World Order By Saad Rasool

نیا ورلڈ آرڈر ۔۔۔۔ سعد رسول

طاقت کے عالمی ڈھانچے میں چین کا ابھرنا اور اس کے نتیجے میں امریکہ کے عالمی اثرورسوخ میں ہونے والی کمی بہت ہی زبردست اہمیت کا حامل لمحہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم عالمی تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر ہیں جہاں جوہری تبدیلی وقوع پذیر ہورہی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بیسویں صدی کے پہلے نصف میں دوعالمی جنگوں کا عرصہ یا 1991ء میں سوویت یونین کا ڈھے جانا‘ جب طاقت کی عالمی حرکیات میں ہونے والی تبدیلیوں کا نتیجہ دنیا میں پہلے سے قائم شدہ طاقتوں کے عروج و زوال کی شکل میں سامنے آیا۔
جدید تاریخ میں بننے والے اتحادوں اور تنازعات کا دورانیہ تقریباً سو برسوں پر محیط ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں دُنیابالکل جداگانہ شکل و ہیئت کی حامل تھی۔ یورپ اور مشرق وُسطیٰ کا بڑا حصہ آسٹرو ہنگیرین، برٹش راج، سلطنت عثمانیہ اور فرانسیسی اثرورسوخ کے کچھ خطوں میں تقسیم تھا۔ روس، چین، جاپان اپنی اپنی سلطنتوں کے حامل تھے۔ انڈیا، جہاں صدیوں تک مغلوں نے حکمرانی کی تھی برطانویوں کے زیر نگین تھا‘ اور برسر اقتدار قوتوں کا حکمرانی کا ڈھانچہ ہی مقامی سطح پر طرزِ حکمرانی میں فیصلہ کن کردار کا حامل تھا۔ ان وقتوں میں جمہوریت کا راگ الاپتا کوئی ملک ہمارے سامنے نہ تھا۔ راج، خلافت اور بادشاہت سب قابل قبول چیزیں تھیں۔ اس زمانے میں ان تمام چیزوں سے واحد استثنا ریاست ہائے متحدہ امریکہ تھا جس نے ابھی اپنا اثر و رسوخ سمندری حدود سے باہر تک نہیں پھیلایا تھا۔ پہلی جنگ عظیم نے یہ سب نقشہ تبدیل کر دیا اور پرانا ورلڈ آرڈر دم توڑ گیا۔ تمام بڑی سلطنتیں اپنے ماضی کی بازگشت بن کر رہ گئیں۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی منظر پر نمودار ہو چکا تھا لیکن ابھی یہ وہ امریکہ نہیں بنا تھا جو آج ہمارے سامنے ہے۔ اس کی گورننس کا ڈھانچہ، یعنی کھلی جمہوریت ابھی اس حکومتی نظام میں نہیں ڈھلا تھا جو آج دُنیا کے اکثر حصوں میں دکھائی دیتا ہے۔ پھر دوسری جنگ عظیم اور اس میں اتحادیوں کی فیصلہ کُن کامیابی کا وقت آن پہنچا۔ اس فتح نے پرانے ''سلطنتی‘‘ ڈھانچے کا مکمل طور پر ختم کر دیا اور اس کی جگہ امریکی جمہوریت اپنے پیر جمانے لگی۔ جب سلطنتیں لڑکھڑا گئیں تو برسر اقتدار قوتوں نے دُنیا کا نیا نقشہ تیار کر لیا۔ اسرائیل معرض وجود میں آ گیا۔ مشرقِ وُسطیٰ ان خطوط پرتقسیم کر دیا گیا جو (حقیقی معنوں میں) ملکہ نے اپنے نیپکن پر کھینچے تھے۔ اُردن، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک جن کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا تخلیق کیے گئے۔ وائسرائے نے انڈین برصغیر کو من مانی حدود کے مطابق تقسیم کر دیا۔ افریقہ کے کچھ حصوں کو بھی چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں بدل دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد تقریباً چار دہائیوں تک مغربی تسلط کے لیے واحد حقیقی چیلنج صرف سوویت یونین تھا۔ سوویت یونین کا اثر و رسوخ جن علاقوں/خِطوں میں تھا وہاں 'امریکی جمہوریت کے برانڈ‘ کے خلاف مزاحمت موجود تھی۔ یہ ممالک اپنے ہاں گورننس اور ریاستی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے سوویت یونین کی جانب دیکھتے تھے۔اور 1991ء میں سوویت یونین کے سقوط کے ساتھ ہی ایک بار پھر نئی سرحدیں دُنیا کے نقشے پر نمودار ہوئیں۔ سوویت یونین کا مشرقی حصہ اٹھارہ نئے ممالک کی شکل میں سامنے آیا۔ ان میں سے ہر ملک کی سرحدیں اُس زمانے کی واحد باقی بچ رہی سپر پاور کی مرضی و رضامندی سے تشکیل پائیں‘ اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان ممالک میں جو حکومتیں بنیں وہاں گورننس کا امریکی ماڈل اپنایا گیا۔
سوویت یونین کا زوال ایک یک قطبی طاقت والی دُنیا کا نقیب بنا۔ سلطنت رومہ کے بعد پہلی بار دنیا پر صرف ایک ہی ملک کا ''تسلط‘‘ قائم ہوا تھا: ریاستہائے متحدہ امریکہ کا۔ ان غیر معمولی واقعات نے ہمیں امریکی سامراج کے عہد میں پہنچا دیا۔ 1990سے لے کر ابتک امریکہ بہادر اپنی تسلط والی اس قوت سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس نے اپنی من مرضی سے ملکوں پر قبضہ کیا، اپنے لیے ناپسندیدہ حکومتوں کو اکھاڑ پھینکااور جی چاہا تو آمروں کی دل دل کھول کر حمایت کی۔ اسی عہد میں، اور یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے، 'امریکی طرزِ حکومت‘ بھی نمو پاتا رہا۔ جمہوریت کا امریکی نمونہ حکومت کیلئے قابل ترجیح نظام بن گیا۔ بھلے ہی مقامی آبادی اس طرزِ حکمرانی کو ناپسند کرتی ہو مثلاً عراق اور افغانستان جیسے ممالک میں، پھر بھی اسی طرز کا چلن ہر جانب تھا۔ گورننس کے عالمی اداروں نے ملکوں کو مجبور کیا کہ وہ مقامی سطح پر ایسا ایجنڈا نافذ کریں جو امریکی مفادات سے لگا کھاتا ہو اور امریکی اندازِ حکمرانی کو ہی اپنایا جائے۔ لیکن حال ہی میں کچھ بہت حیران کُن وقوع پذیر ہونے لگا ہے۔ محسوس ہوا کہ امریکہ حقیقی سپر پاور کا اپنا سٹیٹس کھونے لگا ہے۔ متحارب عالمی مفادات اپنی جگہ بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر شام اور لبنان کے معاملے میں روس پہلے ہی مقامی قوتوں کے ڈھانچے میں امریکہ سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
چین کا عروج جو حالیہ کچھ عرصہ تک سست اور نامحسوس انداز میں ہو رہا تھا اُس میں عالمی وبا، کرونا وائرس، کی بدولت بہت تیزی آ گئی ہے۔ جہاں مغرب کرونا کے اثرات سے نپٹنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے وہیں امریکہ ڈبلیو ایچ او جیسے اداروں حتیٰ کہ یورپی یونین پر اپنے کنٹرول سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ سائوتھ چائنہ سی میں، جہاں متعدد علاقوں پر چین اپنا دعویٰ جتاتا ہے امریکہ اپنی موجودگی اُسی صورت میں برقرار رکھ سکتا ہے جب یہاں کوئی عسکری تنازعہ پیدا ہو جائے۔ اور اس صورتحال میں بھی امریکیوں کو یقین نہیں کہ وہ ایسے کسی تنازعے میں فاتح بن کر سامنے آ سکیں گے۔
لداخ کے علاقے میں چینی کی پیش رفت اور سی پیک کے منصوبوں میں تیزی اس بات کی گواہی ہے کہ چین عالمی سطح پر نئی پوزیشن اختیار کر رہا ہے۔ اس خطے میں چینی اب ایک نئی قوت بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ مغربی تسلط کے دِن لد گئے یا کم از کم اب یہ تسلط زوال پذیر ہے۔ اب ایک نئے عہد ''مشرق کی جانب دیکھو‘‘ کا آغاز ہونے والا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی قوت و اثر و رسوخ کی یہ تبدیلی مشرق وسطیٰ اور حتیٰ کہ ایشیا میں مصنوعی طور پر کھینچی گئی عالمی سرحدوں پر لازماً اثر انداز ہوگی۔ وہ قوتیں جنہوں نے یہ سرحدیں بنائی تھیں اور جنہوں نے ان کی حفاظت کی ضمانت دی تھی اب مزید ایسا نہیں کر پائیں گی۔ اور تائیوان (حتیٰ کہ لداخ) جیسی جگہیں اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اگر چین تائیوان اور ہانگ کانگ پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لے تو کیا امریکہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ان ممالک کو ''آزاد‘‘ کرانے کیلئے جنگ شروع کر سکے؟ اگر چین لداخ میں موجود رہتا ہے یا وہ نیپال تک انڈیا کی سرحدوں کے ساتھ اپنی موجودگی قائم کر لیتا ہے تو کیا امریکہ اور اس کے دوست ممالک انڈیا کی عسکری امداد کو آئیں گے؟ کیا وہ سی پیک یا اس سے بھی بڑے تناضر میں بیلٹ اینڈ روڑ منصوبے کو تہس نہس کر دینے کی لڑائی لڑیں گے؟
آنے والے مہینوں اور برسوں میں خطے کے ممالک (یا شاید ساری دُنیا) مجبور ہو جائیں گے کہ وہ امریکہ اور چین میں سے کسی ایک ملک کا انتخاب کریں۔ وہ ممالک جو چینی کیمپ میں شامل ہو ں گے عین ممکن ہے گورننس کے امریکی ماڈل کو تج کر ''چینی ماڈل‘‘ کی جانب راغب ہو جائیں۔
یقینا ابھی یہ سب کچھ اندازوں پر مبنی ہے۔ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ نئی عالمی قوتوں کے عروج کے ساتھ ساتھ ان کا چنیدہ طرزِ حکمرانی بھی عروج پاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے رائج ''سلطنتوں‘‘ کا ڈھانچہ اس کی مثال ہے۔ اس کے بعد دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دُنیا نے امریکی جمہوریت کا عروج دیکھا۔ ہم عالمی تاریخ کے اہم دور میں شامل ہیں اور مشرق کے عروج کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ نیا ورلڈ آرڈر جو آج ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر رہا ہے یقینا پاکستان اور اس کے ناکارہ جمہوری طرزِ حکومت پر بہت زیادہ اثرات چھوڑے گا۔
 
Column date
Jun 4, 2020

Back
Top