Corona Aur Tiddy Dal Se Bari Afat By Anjum Farooq

corona-aur-taddo-dal.jpg


کورونا اور ٹڈی دَل سے بڑی آفت ۔۔۔۔ انجم فاروق

بہادر شاہ ظفر دلی کے لال قلعہ میں اپنے ماضی کو یاد کرکے غمگین ہو رہے تھے ۔ استاد مکرم ابراہیم ذوق نے پوچھا: اتنی عظیم سلطنت کا زوال وقت سے پہلے کیسے ہوا؟ مغلوں کے آخری بادشاہ کا جواب تاریخی تھا : ہمارے اجداد نے انگریزوں کے بارے فیصلہ کرنے میں بہت دیر کر دی تھی ‘سانپ گزر چکا تھااور ہم لکیر پیٹتے رہے ۔ یہ شعر انہوں نے شاید اسی کیفیت میں کہاہو ۔

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبررہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

بہادر شاہ ظفر کا دکھ ایک طرف اور امریکہ بہادر کا پچھتاوادوسری طرف ۔ دو سال قبل چین اور امریکہ کی ٹریڈ وار عروج پر تھی تو ٹرمپ کو ایک رپورٹ پیش کی گئی جس کے آخری پیر اگراف میں لکھے یہ الفاظ شاید امریکہ کی نسلو ں کو بھگتنا پڑیں ۔''نائن الیون کے بعد امریکہ جنگوں میں گھس گیا اور چین چپکے سے معیشت کو تگڑاکرتا رہا‘ اگر امریکہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتا تو آج چین ہمیں آنکھیں نہ دکھاتا‘‘۔یہی تاریخ کا سبق ہے کہ وقت پر نہ کیے جانے والے فیصلے ہمیشہ ذلت و رسوائی کا سبب بنتے ہیں ۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ سبق معلوم نہیں جوہر بار پانی سوکھنے کے بعد کشتیاں دریا میں اتارتے ہیں ۔

اس حکومت نے بھی کیا قسمت پائی ہے کہ ہر دو ماہ بعد نیا مسئلہ آن کھڑا ہوتا ہے ۔ادویات‘ آٹا ‘ چینی اور گندم بحران کی آندھی ابھی تھمی نہیں تھی کہ پٹرول کی قلت نے حکومت کی بے بسی اور عیاں کردی ہے ۔طرفہ تماشا دیکھیں!ہمیشہ پٹرول مہنگا ہونے پر پاکستانی عوام کی چیخیں سنائی دیتی تھیں مگر اس بار جیسے ہی پٹرول سستا ہوا عوام کی آہ و بکا شروع ہوگئی ۔ ہوا کچھ یوں کہ پٹرول سستا ہو کرنایاب ہوگیا‘ جس سے عوام بد حال ‘صنعتیں اور ٹرانسپورٹ بند ہونے لگیں۔ اس کارکردگی کی وجہ بھی حکومت کی وہی روایتی سستی بنی ‘ یعنی ہمیشہ دیر کر دینے کی عادت ۔ ذرائع کہتے ہیں کہ حکومتی محکموں کے درمیان رابطے کا فقدان اور غلط اندازے پٹرول کی قلت کا سبب بنے ۔ ملک میں لاک ڈاؤن ہونے کے بعد پیڑولیم مصنوعات کی مانگ کم ہوئی تو حکومت نے اپریل میں پٹرول درآمد کرنے پر پابندی لگا دی ۔اس کے بعد آئل کمپنیوں کو اعتماد میں لیے بغیر حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کردیا اوریوں گھروں میں قید عوام گاڑیاں لے کر سٹرکوں پرآگئے ‘ کوئی عید پر گھر گیا تو کوئی سیر کے لیے نکل کھڑا ہوا ۔ ڈیمانڈ آسمانوں کو چھونے لگی تو حکومت کو ہوش آیا مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔جب فیصلہ کرنے کا وقت تھا حکومت بے خبری کی چادر اوڑھے سوتی رہی او رجب پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا تو انکوائریاں اور جرمانے شروع ہوگئے ۔اس سے بھلا کیا حاصل ہونا تھا؟ سوائے عوام کے زخموں کو ہرا کرنے کے ۔

پاکستان میں روزانہ پٹرول کی بیس ہزار ٹن اور ڈیزل کی پچیس ہزارٹن کے قریب ڈیمانڈ ہے جس کو تقریباً دس ہزار پٹرول پمپس کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے ۔ان پٹرول پمپس میں سے 3800 سرکاری پمپس ہیں جہاں پٹرول مل رہا ہے مگر پرائیویٹ کمپنیاں بہت محدود پیمانے پر سپلائی کر رہی ہیں جس کی وجہ ذخیرہ اندوزی ہے یا ایک نئے کارٹل کا ابھرنا ۔ سوال تو حکومت سے بنتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری وقت پرکیوں پوری نہ کر سکی ؟ایک کے بعد ایک مافیا ان کے پاؤں کی بیڑیاں کیوں بن رہا ہے؟ دوسری طرف آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ وہ پٹرول درآمد تو کر لیں مگر انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس وقت پٹرول کی قیمت پاکستان سے زیادہ ہے‘ اس لیے وہ کسی صورت گھاٹے کا سودا نہیں کریں گے۔ اگر حکومت کو عوام کی مشکلات کا احساس ہے تو خدارا صرف جرمانوں سے کام نہیں چلے گا ‘ کوئی عملی قدم ہی حکومت اورخلق ِخداکی عزت بحال کر سکتا ہے ۔ یہ کوئی ایک مسئلہ نہیں جہاں حکومت نے لاپروائی کی ہو اور بھگتناعوام کو پڑا ہو۔ ٹڈی دَل کو ہی لے لیں ‘ حکمرانوں نے غفلت برتی اوروقت پر سپرے نہ کیا جس کی سزا آج عوام کو معاشی قتل عام کی صورت میں مل رہی ہے ۔ ہزارو ں ایکٹر پر لگی فصلیں برباد ہوچکی ہیں اور کسانوں کی زندگی ہلکان ۔حکمران اشرافیہ میں کوئی ہے جو ذمہ داری لے ؟ کوئی ہے جو غربت میں لپٹے کسان کے آنسوؤں کا مداوا کرے ؟کوئی ہے جسے احساس ہو کہ کالی آندھی نے کسانوں کی زندگی کتنی تاریک کر دی گئی ہے؟ یقین مانیں یہ ٹڈی دَل بھی انسانوں کا اپنا کمایا ہوا کالا دھن ہے ۔ نہ انسان پرندے مارے‘ نہ جنگل اجاڑے اور نہ موسمیاتی تبدیلی ان کے ساتھ اتنا خطرناک کھیل کھیلے ۔ٹڈی دَل کو تیتر ‘ بٹیر اور تلور کھاجاتے ہیں مگرانسانوں نے انہیں بھی کھا کھا کرتقریباًختم کردیا ہے ۔یہاں مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارے حکمران کیسے بھول گئے کہ یہ ٹڈیاں کئی کئی کلومیٹر طویل قافلے کی صورت میں سفر کرتی ہیں اور کسانوں کو منٹو ں میں کنگال کردیتی ہیں ۔اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او کے مطابق ٹڈی دَل 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرسکتا ہے۔ ٹڈی دَل کے ایک مربع کلومیٹرطویل جھنڈمیں لگ بھگ 80 کروڑ بالغ کیڑے ہوتے ہیں جو ایک دن میں 35 ہزار انسانوں کی خوراک کے برابر فصلیں کھا جاتے ہیں ۔

اس وقت ٹڈی دَل کے آدھے پاکستان میں حملے جاری ہیں اوراس کے مزیدقافلے ہارن آف افریقہ اور ایران سے آنے والے ہیں جن کا نشانہ خریف کی فصلیں گنا ‘ چاول ‘کپاس اور مکئی ہوں گی ۔تین دن قبل امریکی ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن نے حکومت پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ ایکشن پلان پر فوری عمل نہ کیا گیا تو بارشوں کے بعد ٹڈی دَل کے حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ دوسری جانب سندھ آباد کاربورڈ کا کہنا ہے کہ ٹڈی دَل کی وجہ سے آدھی فصل برباد ہوسکتی ہے اور مقامی تخمینے کے مطابق ایک ہزار ارب روپے کا نقصان متوقع ہے ۔ اس نقصان سے زرعی معیشت کا جنازہ نکل جائے گا ۔ آپ خود فیصلہ کریں اگر حکومت وقت پر ٹڈی دَل کے خطرے کو بھانپ لیتی تو کسانوں کا کتنا بھلا ہوتا مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ کورونا وائرس اس وقت حکومت کے ا عصاب شل کیے ہوئے ہے اس لیے وقت پر سپرے نہ ہوسکا اور ٹڈی دَل کا مسئلہ بے قابو ہوگیا۔ حکمران یاد رکھیں اگراب بھی اس کو لگام نہ دی گئی تو پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ سب کو معلوم ہے کہ کورونا وائرس اور ٹڈی دَل اس وقت بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں مگر ایک آفت ان سے بھی بڑی ہے اور وہ ہے حکمرانوں میں قوت ِفیصلہ کا نہ ہونا ۔ میرا احساس ہے کہ یہ آفت تمام آفتوں کی مرشد ہے ۔ اس کو قابو کر کے کورونا اور ٹڈی دَل کو آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے ۔​
 
Columnist
Anjum Farooq
Column date
Jun 14, 2020
تاریخ کے بدترین مسائل اور آفات سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس ہے تاریخ کی نااہل ترین حکومت جس کی بدانتظامیوں کے اپنے پرائے سب ہی قائل ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے، آمین۔​
 

Back
Top