Virus Vitamin-D and COVID-19 - The role of Vitamin D in the prevention of Coronavirus in Urdu

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
کووڈ 19 اور وٹامن ڈی کا تعلق ۔۔۔۔ تحریر : رضوان عطا

covid.jpg


کورونا وائرس کی کئی اقسام ہیں جن میں سے ایک نے پوری دنیا کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے مرض کووڈ 19کے پھیلاؤ کی تیز رفتار اور جانی و مالی نقصانات کے پیش نظر ماہرین اسے سمجھنے اور روکنے کے بھرپور جتن کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ انسانی جسم پر اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے طریقوں کی تلاش میں بھی ہیں۔ چونکہ عام طور پر اس وائرس کے خلاف انسانی جسم نے خود لڑنا ہوتا ہے اس لیے جسمانی قوت بالخصوص قوت مدافعت بڑھانے کے طریقے زیربحث رہتے ہیں۔

ان دنوں کووڈ 19 اور وٹامن ڈی کے درمیان تعلق کے خاصے چرچے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ چند تحقیقات کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی سے کووڈ 19 میں مبتلا ہونے اور اس مرض سے ہلاک ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ کس حد تک سچ ہے اور کیا ان اطلاعات کا مطلب یہ کہ ہم وٹامن ڈی کا استعمال بڑھا دیں؟

برطانیہ میں اس سلسلے میں سرکاری سطح پر تحقیق کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ برطانیہ میں محکمہ صحت کے حکام نے کورونا وائرس کے خطرے کو کم کرنے کے لیے وٹامن ڈی کی ممکنہ صلاحیت کا فوری اور باقاعدہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔

ایسا سیاہ فاموں، ایشیائیوں اور نسلی اقلیتوں کے اس وائرس میں مبتلا ہونے اور مرنے کے غیرمعمولی تناسب کے باعث کیا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہلاک ہونے والے بیشتر ڈاکٹرسیاہ فام، ایشیائی یا نسلی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ وہ شہری ہیں جو سفید فام نہیں۔ان کی رنگت عموماً گہری ہوتی ہے جو کم وٹامن ڈی جذب کرتی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں بھی صورت حال زیادہ مختلف نہیں۔

ملک کے ادارے پبلک ہیلتھ انگلینڈکی جانب سے مذکورہ پس منظر سے تعلق رکھنے والوں کے غیرمعمولی طور پر متاثر ہونے کے اسباب کا جائزہ لینے میں تاخیر کو بھی تنقید کا سامنا ہے۔ بعض لوگوں کے مطابق نسل پرستی کی ریت معاملے کو لٹائے رکھنے کا سبب بنی اور اسی لیے ان نسلوں کے افراد کی ہلاکت کے غذا اور وٹامن ڈی سے تعلق کو تلاش کرنے کی کوشش قبل ازیں نہیں کی گئی۔

بہرحال تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد اہم فیصلے لیے جاسکتے ہیں مثلاً آیا سورج کی روشنی سے ملنے والے اس غذائی جزو کو علاج کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے یا نہیں۔بالخصوص ان نسلوں یا گروہوں میں جن میں یہ وٹامن جذب کرنے کی صلاحیت کم ہے۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کا بھی یہ خیال ہے کہ وٹامن ڈی سے کورونا وائرس کے خطرے میں کمی کے میسر شواہد متاثر کن ہیں تاہم اس کے خیا ل میں حتمی رائے قائم کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب وٹامن ڈی کے کردار کے بارے میں بہت سی معلومات پہلے سے میسر ہیں۔ یہ ایک اہم غذا جزو ہے جو سورج کی روشنی سے ازخود ہمیں حاصل ہو جاتا ہے۔ تاہم جلد میں میلانین کی زیادہ مقدار سے وٹامن ڈی کم پیدا ہوتا ہے اور جن ممالک میں سورج کی روشنی کم ہے وہاں مسئلہ بڑھ جاتا ہے۔

کووڈ 19 کی وبا سے پیدا شدہ منفی اثرات کو دیکھتے ہوئے اب یہ جاننے کی ضرورت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے کہ کس قسم کی آبادی کو اس سے زیادہ خطرہ ہے اور شدت اختیار کرنے پر کس طرح کے لوگوں کے لیے یہ جان لیوا ہے۔

حال ہی میں ہونے والی تحقیقات میں وٹامن ڈی اور کووڈ 19 کی شدت کے ساتھ ساتھ شرح اموات کے مابین تعلق کا پتا چلا ہے۔ نیز وٹامن ڈی کے کووڈ 19 کی علامات کی شدت کم کرنے میں معاون ہونے کا عندیہ ملا ہے۔

انسان کا نظام مدافعت وائرس کے خلاف لڑنے کے دوران بعض اوقات غیرضروری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ہی مختلف جسمانی اعضا پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ اسے سائٹوکائن سٹارم کہتے ہیں۔ تحقیقات یہ بھی عندیہ بھی ملتا ہے کہ وٹامن ڈی سے سائٹوکائن سٹارم کو محدود کرنے میں مدد ملتی ہے۔

وٹامن ڈی کی کم سطح کے سلسلے میں بعض شواہد غور طلب ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یورپ کے 20 ممالک میں وٹامن ڈی کی کم سطح اور کووڈ 19 کے زیادہ کیسز اور زیادہ ہلاکتوں کے مابین تعلق دکھائی دیتا ہے۔ وٹامن ڈی کی سطح ان ممالک کے معمر افراد، بالخصوص سپین، اٹلی اور سوئٹزر لینڈ میں انتہائی کم ہے۔ معمر افراد کو کووڈ 19 سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے جس میں وٹامن ڈی کی کمی غالباً مزید اضافہ کر دیتی ہے۔

ایک تحقیق میں انڈونیشیا میں کووڈ 19کے 780 مریضوں کا جائزہ لیا گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ مرنے والوں کی اکثریت میں وٹامن ڈی کی سطح، مطلوبہ مقدار سے کم تھی اور اس سے وٹامن ڈی کے ہلاکتوں کے ساتھ مضبوط رشتے کا اشارہ ملتا ہے۔

نظام مدافعت پر وٹامن ڈی کے اثرات جانے مانے ہیں کیونکہ ماضی ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہو چکا ہے کہ سانس کے راستوں کی انفیکشن کے امکان اور وٹامن ڈی کی کم سطح کے درمیان تعلق موجود ہے۔

وٹامن ڈی کی کمی مختلف عوامل کے سبب ہوتی ہے جن میں زیادہ عمر، موسم سرما میں دھوپ کی کمی، جلد کی گہری رنگت، دھوپ میں کم نکلنا اور غذا شامل ہیں۔ روغنی مچھلیاں، نارنجی کا رس، پنیر اور انڈے کی زردی کا استعمال وٹامن ڈی کی کمی کو دور کرتا ہے، اس کے لیے وٹامن ڈی کے سپلی منٹ بھی لیے جا سکتے ہیں۔

جن علاقوں میں غذا کے ذریعے وٹامن ڈی لی جاتی ہے یا جہاں دھوپ سیکنے کا رواج ہے، وہاں اس وٹامن کی کمی کا امکان گھٹ جاتا ہے۔

کم دھوپ کے باوجود شمالی یورپ کے لوگوں میں وٹامن ڈی کی سطح بلند ہوتی ہے کیونکہ وہاں کاڈ مچھلی کا تیل عام استعمال ہوتا ہے، اس کے علاوہ وٹامن ڈی کے سپلی منٹ کا استعمال بھی زیادہ ہے۔ خیال رہے کہ یورپ کے دیگر ممالک کی نسبت سکینڈی نیویا کے ممالک میں کووڈ 19 کے کیسز کم ہیں۔

اٹلی کووڈ 19 سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، اور ان ممالک میں بھی شامل ہے جہاں کی آبادی، بالخصوص معمر افراد میں وٹامن ڈی کی کمی سب سے زیادہ ہے۔ امریکا کی 40 فیصد آبادی میں وٹامن ڈی کی کمی ہے۔

ایک طرف گہری رنگت سے دھوپ میں وٹامن ڈی حاصل کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے تو دوسری طرف عمارتوں کے اندر رہ کر کام کرنے والے افراد میں وٹامن ڈی کی کمی کا زیادہ احتمال ہوتا ہے کیوں کہ وہ دھوپ میں کم نکلتے ہیں۔

نظام مدافعت کے افعال میں وٹامن ڈی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ وٹامن خون کے سفید خلیوں کے افعال میں توازن لاتی ہے۔ اسی لیے، جیسا کہ بیان کیا گیا ہے، اس سے کووڈ 19 میں سائٹو کائن سٹارم کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

کووڈ 19 پھیپھڑوں کو بہت زیادہ متاثر کر سکتاہے، اتنا کہ جان لے لے۔ وٹامن ڈی سے پھیپھڑوں کو ضرر پہنچنے کا احتمال بھی کم ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب ہمیں صحت مند مضبوط ہڈیوں کے لیے اس وٹامن کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ یہ ہمارے روزمرہ جسمانی افعال میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ان دنوں انٹرنیٹ پر وٹامن ڈی کی کمی اور کووڈ 19 سے اس کے تعلق پر بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض اوقات اس کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ وٹامن ڈی کوئی ''جادوئی‘‘ وٹامن نہیں۔ اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن کووڈ 19 کے معاملے میں یہ کتنی ہے، اس بارے میں مزید جان کاری کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے۔

یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جن ممالک میں وٹامن ڈی کی کمی ہے اور وہاں کووڈ 19 کا پھیلاؤ زیادہ ہے تو اس کے ذمہ دار کئی دیگر عوامل ہو سکتے ہیں۔
وٹامن ڈی کے حصول کا قدرتی ذریعہ دھوپ ہے۔ روزانہ 10 سے 20 منٹ دھوپ میں گزارنے سے اس وٹامن کی مناسب مقدار حاصل ہو جاتی ہے۔ قدرتی طریقے سے اس وٹامن کے حصول میں کوئی مذائقہ نہیں۔ نیز ایسی غذائیں بھی استعمال کریں جن سے جسم میں وٹامن ڈی کی کمی نہ ہو۔ کسی بھی وٹامن کی کمی اچھی خیال نہیں کی جاتی۔ تمام غذائی اجزا کی ضروری مقدار جسم کو ملتی رہنی چاہیے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کووڈ 19 اور وٹامن ڈی میں تعلق کا عندیہ مل چکا ہے اس لیے احتیاط اور سمجھ داری کا تقاضا ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کسی صورت نہ ہونے دیں تاکہ اگر اس کمی سے کوئی خطرہ ہو تو وہ نہ رہے۔

کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم احتیاطی تدابیر ہیں۔ اس کے لیے اپنے ہاتھ صابن اور پانی سے یا الکحل والے ہینڈ سینی ٹائزر سے باقاعدگی سے دھونے ہیں۔ بیمار افراد سے مناسب فاصلہ رکھنا ہے جو کم از کم 6 فٹ ہو، بالخصوص جب وہ کھانس رہے ہوں یا انہیں چھینکیں آ رہی ہوں۔ عام افراد سے بھی اتنا ہی فاصلہ رکھیں۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد یا جب ہاتھ میلے ہوں صابن اور پانی سے اچھی طرح، تقریباً 20 سیکنڈ تک، ہاتھ دھوئیں۔ اچھی طرح ہاتھ دھونے کے بعد ہی کھانا کھائیں۔ گھر میں ان مقامات کو صاف رکھیں جنہیں ہم زیادہ چھوتے ہیں جیسے میز، دروازے کے ہینڈل، بلب کے بٹن وغیرہ۔ ان پر تجویز کردہ کیمیکل چھڑکیں، ایسا نہ کر پائیں تو بیمار افراد انہیں چھونے سے ہر ممکن حد تک گریز کریں یا ٹشو وغیرہ سے چھو کر اسے تلف کر دیں۔​
 

Back
Top