Laozi, the Founder of Taoism & What was Lao Tzu's Philosophy in Urdu

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
لاؤزے اور اس کے افکار ۔۔۔۔۔ تحریر : اخلاق احمد

laozi.jpg


مشرق بعید کے تین بڑے مذہبی رہنماؤں میں سے ایک لاؤزے تھا، تاؤ مت کا بانی اور چین کا ایک عظیم فلسفی۔ دوسرے دو رہنما کنفیوشس اور مہاتما بدھ ہیں جو لاؤزے کے بعد پیدا ہوئے۔

لاؤزے کنفیوشس کا ایک معمر ہم عصر تھا اور کئی مواقع پر ان دنوں کی مختصر ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ روایات کے مطابق کنفیوشس لاؤزے سے ہمیشہ مؤدبانہ طور پر ملتا تھا۔

لاؤزے قدیم چینی ریاست چُو میں 604 قبل مسیح کے لگ بھگ پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک غریب چینی گھرانے سے تھا۔ غربت نے اسے کم سنی میں شاہی کتب خانے میں محافظ کے طور پر ملازمت پر مجبور کر دیا۔ دوران ملازمت اسے مطالعہ کتب کا نادر موقع ہاتھ آیا۔ ایک عمر کے مطالعے کے بعد جب اس نے اپنی تعلیمات کی اشاعت کی تو لوگوں نے اسے لاؤزے یعنی بوڑھے فلسفی کا لقب دیا اور اسی نام سے مشہور ہوا۔

سیاسی حالات نے اسے ترک ملازمت پر مجبور کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ 90 سال کی عمر میں اسے وطن بھی چھوڑنا پڑا۔ جب وہ مغرب کی سمت میں سفر کرتے ہوئے چینی سرحد پر پہنچا تو اسے سرحد کے محافظوں میں سے ایک افسر نے پہچان لیا اور اس وقت تک اسے سرحد پار نہ کرنے دی جب تک اس نے اپنی تعلیمات کا خلاصہ ایک کتاب کی شکل میں لکھ کر اس کے حوالے نہ کر دیا۔ یہ کتاب صرف 25 صفحات پر مشتمل تھی جس میں پانچ ہزار سے زائد چینی حروف تھے۔ اس کتاب کا اس نے نام Tao Te Ching رکھا یعنی عقل اور نیکی سکھانے والی کتاب۔

کتاب کا مسودہ محافظ کے حوالے کرتے ہوئے وہ ایک سانڈ پر سوار ہو کر مغرب کی سمت میں غائب ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ لاؤزے کو موت نہیں آئی۔ اسی وجہ سے چین میں اسے ایک لافانی عارف کا مقام حاصل ہے۔ سارے مشرقی ایشیا میں لاؤزے کی وہ تصاویر اور مجسمے آج بھی بہت مشہور ہیں جن میں اسے ایک سانڈ پر سوار دکھایا گیا ہے۔

سرحد عبور کرنے کے بعد وہ کسی نامعلوم ملک میں چلا گیا۔ اس کے بعد کے حالات معلوم نہیں ہو سکے۔ تاریخ اورمقام وفات کا بھی کسی کو علم نہیں۔ لاؤزے کے متعلق محققین کے ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ تاریخ میں اس نام کی کوئی شخصیت نہیں گزری اور یہ ایک فرضی نام ہے مگر تاؤ مت کی چین اور مشرقی ایشیا میں موجودگی اس کے برعکس ثبوت فراہم کرتی ہے۔

لاؤزے نے اپنی مختصر کتاب ''تاؤ تہ چنگ‘‘ میں جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ خوش حال زندگی بسر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ''تاؤ‘‘ کی پیروی کی جائے لیکن کسی جگہ اس کی تشریح نہیں کی کہ تاؤ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی حقیقت اور ماہیت کے تعین میں ماہرین مختلف الخیال ہیں۔ تاؤ کے متعدد معنی بتائے گئے ہیں۔ ایک معنی ''امن کے راستے اور طریقے‘‘ کے ہیں۔ دوسرے معنی ''بولنے اور گفتگو کرنے‘‘ کے ہیں۔ اس کا ایک اور مفہوم ''اصول و قانون‘‘ بھی بتایا گیا ہے۔ کچھ یورپی ماہرین تاؤ کے معنی ''عقل‘‘ بھی بتاتے ہیں۔ تاؤ ازم میں تاؤ ہی ہستی اعلیٰ کا نام ہے۔ مگر شارحین کا ایک گروہ کہتا ہے کہ لاؤزے کسی اور ہستی اعلیٰ کا عقیدہ رکھتا تھا جس کا تاؤ سے کوئی تعلق نہیں۔

لاؤزے کے نزدیک انسان کائنات کا ایک جزو ہے۔ وہ تخلیق کی ایک شاخ اور کائنات کی دوسری چیزوں کی طرح عالمگیر تاؤ کا مظہر ہے۔

تاؤ مذہب میں موت کو ایک خوشگوار چیز بتایا گیا ہے۔ اس سے ڈرنا شدید غلطی ہے کیونکہ موت ایک لازمی مگر خوشگوار تبدیلی کا نام ہے جو نیچر میں تبدیلی کا لوازمہ ہے۔ لاؤزے کا مذہب بالکل فلسفیانہ تھا جس کے سمجھنے سے عوام قاصر تھے۔ اس کے بعد اس کے پیروؤں نے اس کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ پھر اس کا مقابلہ کنفیوشس کے مذہب سے تھا کہ جس کی تعلیمات نہایت عام فہم تھیں۔پھر لاؤزے کے افکار کی عجیب و غریب طریقے پر تشریح کی جانے لگی۔ لاؤزے نے کہا تھا کہ انسان فطرت کے ساتھ متوکلانہ اتحاد کے ذریعے لافانیت حاصل کر سکتا ہے۔

لاؤزے قیام امن کو مقصد اعلیٰ قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک لوگوں کو قتل کرنا یا جنگ میں فتح حاصل کرنا کوئی قابل فخر بات نہیں۔ وہ قیدیوں کو قتل کرنے کو بلکہ ان کو سزا دینے کو بھی جائز قرار نہیں دیتا۔ اس کے خیال کے مطابق اصلاح کے سلسلے میں سزا اور تعذیب مفید نتائج کے حامل نہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ نرمی کے ذریعے بڑے سے بڑے سیاہ کار اور سرکش لوگوں کو راہ راست پر لایا جا سکتا ہے۔

لاؤزے اپنے ہم عصر مفکر کنفیوشس سے اس بات پر اختلاف رکھتا ہے کہ بروں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھنا چاہیے۔ کنفیوشس کا خیال ہے کہ بروں کے ساتھ برا سلوک کرنا چاہیے لیکن لاؤزے کسی حالت میں بھی کسی کے ساتھ برا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس عقیدے کو لاؤزے کے بعد عملی صورت کے طور پر اختیار کر لیا گیا اور مذہبی رہنماؤں کی تمام تر کوشش اس بات پر صرف ہونے لگی کہ حیات جاودانی کے حصول کا نسخہ ہاتھ لگ جائے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاؤزے کے چین سے چلے جانے کے تقریباً پانچ سو سال کے بعد ایک شخص چنگ تاؤلنگ نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایسا شربت تیار کر لیا ہے کہ جس کے پینے سے انسان کو ابدی زندگی حاصل ہو سکتی ہے۔ جلد ہی یہ شخص تاؤ مت کے پیروؤں کا دیوتا بن گیا اور اس کے بعد اس کی اولاد بھی پوجی جانے لگی۔

فلسفیانہ خیالات کے غلبہ کی وجہ سے سحروفسوں اس مذہب کا اہم عنصر بن گئے جس کی وجہ سے جلد ہی تاؤ مت میں بہت سے دیوتا پیدا ہوئے اور چوہے، سانپ اور نیولے تک کی پرستش کی جانے لگی، اور لاؤزے کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔​
 

Back
Top