Black Lives Matter Movement - Siyah Faamon ki Zindgai Eham hai

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
The "Black Lives Meter" is a human rights movement that responds to violence and racism against black Americans. The movement has gained international prominence since the assassination of George Floyd, and the slogan "Black Lives Meter" is now being chanted in many parts of the world.

سیاہ فاموں کی زندگی اہم ہے

Siafam.jpg

! اس نعرے کی گونج دنیا بھر میں سنائی دینے لگی

تحریر : عبدالحفیظ ظفرؔ

جنوبی افریقہ میں 50 سال بعد نسلی امتیاز (Apartheid) کا خاتمہ ہوا۔ اس میں وہاں کے سیاہ فام رہنماؤں کی زبردست جدوجہد شامل تھی۔ نیلسن منڈیلا نے 27 برس تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ آزاد ہوئے اور جنوبی افریقہ کی حکومت ان کے ہاتھ آئی تو انہوں نے ان تمام سفید فام لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے نسلی امتیاز کے دور میں سیاہ فاموں پر ظلم ڈھائے تھے۔ اس کا مقصد امن اور بھائی چارہ کو فروغ دینا تھا۔ اسی نسلی امتیاز کی وجہ سے جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم پر پابندی لگی جو 1992ء میں ختم ہوئی اور پھر اس ٹیم نے پہلی بار 1992ء میں کرکٹ ورلڈ کپ میں حصہ لیا۔ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کا یہ عالم تھا کہ سیاہ فام لوگوں کو پارکوں میں جانے کی اجازت نہ تھی۔ کئی پارکوں کے باہر یہ لکھا ہوتا تھا ''صرف کتوں اور سیاہ فام لوگوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔‘‘ کیا اس سے بڑھ کر انسانیت کی تذلیل ہو سکتی ہے؟ بہرحال جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لوگوں نے نصف صدی تک یہ مظالم برداشت کیے۔ انہیں اس قدر دبا کر رکھا گیا کہ ان کی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے کھلے تو اس وقت ان کی ٹیم میں ایک بھی سیاہ فام کھلاڑی شامل نہیں تھا۔ چند برسوں بعد ایک سیاہ فام برق رفتار باؤلر میخائل نتینی ٹیم میں شامل ہوا لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ ٹیم میں نہیں رہا۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جنوبی افریقہ میں سیاہ فام باشندوں کی تعداد 70 فیصد ہے۔ یہ ملک ایک زمانے میں برطانیہ کی نوآبادی تھا۔ ایک ایسی نوآبادی جس پر حکومت جنوبی افریقہ کے لوگ کرتے تھے۔

اب حال ہی میں امریکہ میں ایک سیاہ فام کو امریکی پولیس نے قتل کر دیا جس پر امریکہ کے سیاہ فام لوگ سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی خاصے پریشان ہیں۔

سیاہ فام جارج فلوئیڈ کا قتل کیونکر ہوا؟ 25 مئی کی شام کو ایک جنرل مرچنٹ شاپ کے مالک نے پولیس کو فون کیا۔ اس دکان کے مالک نے الزام لگایا کہ جارج فلوئیڈ نے سگریٹ خریدے لیکن 20 ڈالر کا جعلی نوٹ دیا۔ پولیس نے آ کر جارج فلوئیڈ کو پکڑنے کی کوشش کی۔ اس کو ہتھکڑی لگا دی گئی لیکن پولیس کے مطابق جارج نے مزاحمت کی۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو دیکھنے سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس جگہ کیا ہوا لیکن جو لوگ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے ان کی فوٹیج دیکھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ پولیس آفیسر ڈیرک چاون نے جارج فلائیڈ کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا ہوا ہے۔ جارج فلوئیڈ کو کئی بار یہ کہتے سنا گیا ''میں سانس نہیں لے پا رہا‘‘ لیکن مسٹر شاون نے جارج کی گردن سے گھٹنا نہیں اٹھایا۔ اگرچہ پاس کھڑے لوگوں نے بھی اسے ایسا کرنے سے منع کیا۔

ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد پولیس آفیسر نے جارج فلائیڈ کی گردن کو 8 منٹ اور 46 سیکنڈ تک اپنے گھٹنے سے دبائے رکھا۔ 2 منٹ پہلے دیگر پولیس آفیسرز نے فلائیڈ کی نبض چیک کی۔ نبض چل نہیں رہی تھی۔ فلائیڈ کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں ایک گھنٹے بعد اس کی موت کا اعلان کر دیا گیا۔ 44 سالہ پولیس آفیسر چاون پر قتل کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔

اس دلخراش واقعے کے بعد امریکہ کے شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ڈیرک شاون کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کئی شہروں میں فسادات اور لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی، شکاگو، نیویارک، اٹلانٹا، لاس اینجلس،سان فرانسسکواور فلاڈیلفیا، ڈیونز کے علاوہ کئی اور شہروں میں کرفیو لگانا پڑا کیونکہ یہاں حالات زیادہ خراب ہو گئے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی دفاعی اداروں نے کہا کہ وہ ہنگاموں کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر ہنگامے ختم نہ ہوئے تو وہ فوج بھی بلا سکتے ہیں۔ اس اعلان پر سیاہ فام مزید بھڑک اٹھے۔

ادھر لندن کے ٹرافلگر سکوائر میں ہزاروں لوگ اکٹھے ہوئے۔ انہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور امریکی سیاہ فاموں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ سماجی فاصلوں کے ضوابط کے باوجود ہزاروں برطانوی باہر نکل آئے۔ برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ ڈومینک راب نے امریکہ میں ہونے والے اس واقعہ کو المناک قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ امریکا کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ادھر لاس اینجلس کے میئر گارسیٹی نے نیشنل گارڈ کی تعیناتی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احتجاجی مظاہرین کا پولیس کے ساتھ تصادم ہوا جس کے نتیجے میں جنرل سٹورز اور دوسری جائیدادوں کو تباہ کر دیا گیا۔ گارسیٹی نے کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم سے امداد کی درخواست کی ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 1000 کے قریب دستے پہنچا دیے جائیں گے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیکرٹری دفاع مارک ایسپر سے کہا ہے کہ احتجاجی مظاہرین کی سرکوبی کے لیے فوج کے استعمال پر غور کیا جائے۔ یہ بات پینٹاگون کے ایک سینئر اہلکار نے بتائی۔

انگلینڈ میں بھی سیاہ فاموں کے حق میں زبردست مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین نے غلاموں کی تجارت کرنے والے ایڈورڈ کولسٹن کا مجسمہ توڑ ڈالا۔ ایک شخص کو مجسمے کی گردن پر گھٹنا رکھتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ 1964ء میں جب امریکی صدر جے ایف کینیڈی کو قتل کیا گیا تو بہت سے امریکیوں نے شک کا اظہار کیا کہ صدر کینیڈی کو اس لیے موت کی وادی میں اتارا گیا کیونکہ وہ سیاہ فام لوگوں کے حقوق کی بات کر رہے تھے۔ اسی طرح سیاہ فام رہنما کنگ لوتھر جونیئرنے بھی شہری آزادیوں کی بحالی کے لیے قربانیاں دیں۔ ان کوبھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اب جو نسلی امتیار کی تازہ لہر اٹھی ہے اس سے امریکی حکومت کو ہر صورت روکنا ہوگا اور اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔

جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد امریکہ میں شروع ہونے والی تحریک کا اہم ترین نعرہ ''بلیک لائیوز میٹر‘‘ (سیاہ فاموں کی زندگی اہمیت رکھتی ہے) ہے۔''بلیک لائیوز میٹر‘‘کا آغاز دراصل 2013ء میں سوشل میڈیا پر ہیش ٹیک #BlackLivesMatter کے ساتھ ہوا۔ اس کا سبب نوعمرسیاہ فام امریکی ٹریون مارٹن کے قتل کے ملزم کی رہائی تھا۔ بعد ازاں 2014ء میں 2 افریقی امریکیوں کے قتل کے بعد''بلیک لائیوز میٹر‘‘ کے تحت امریکہ کے کئی شہروں میں مظاہرے کیے گئے جس کے بعد یہ نعرہ مزید مقبول ہو گیا۔

''بلیک لائیوز میٹر‘‘ انسانی حقوق کی تحریک ہے جو سیاہ فام امریکیوں کے خلاف تشدد اور نسل پرستی کا ردعمل ہے۔ جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد اس تحریک نے بین الاقوامی اہمیت حاصل کر لی ہے اور اب دنیا کے کئی ممالک میں ''بلیک لائیوز میٹر‘‘ کا نعرہ گونجنے لگا ہے۔​
 

west mae aik banda kia mar gaya sab ney asman sir per utha liya or humarey naam nihad taraqi pasand or human rights ka nara laganey waley bhi un k sath jurr gaye un k sath jin ko na kashmir nazar ata hai na rohingiyan na falasteen na seriya or na koi or jaga jahan aik nahi senkron k hisab sey musalamaan maar diye jatey hain loot liye jatey hain gher tabha kerdiye jatey hain
uss waqt humarey chochey bhi moun mai western lolipop leker bethey hotey hain
 
west mae aik banda kia mar gaya sab ney asman sir per utha liya or humarey naam nihad taraqi pasand or human rights ka nara laganey waley bhi un k sath jurr gaye un k sath jin ko na kashmir nazar ata hai na rohingiyan na falasteen na seriya or na koi or jaga jahan aik nahi senkron k hisab sey musalamaan maar diye jatey hain loot liye jatey hain gher tabha kerdiye jatey hain
uss waqt humarey chochey bhi moun mai western lolipop leker bethey hotey hain
آپ کی تمام باتیں حقائق پر مبنی ہیں ہو سکتا اللہ اسی سلسلے کو آپ کے مزکورہ معاملات کے حل کا وسیلہ بنادے ْْْْْْْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Back
Top