Quran Hadith Haraam Maal Se Sukoon Aur Sehat Kharab By Maulana Ilyas Ghuman

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
حرام مال سے سکون اور صحت خراب تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن

اﷲ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے مال ، صحت اور سکون بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ جس کو اﷲ کی نعمتیں میسر ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ شکر ادا کرے تاکہ اﷲ تعالیٰ ان میں مزید اضافہ اور برکتیں عطاء فرماتے رہیں۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صرف اپنے در کا محتاج بنائے اور لوگوں کی محتاجی سے بچائے۔ اﷲ تعالیٰ سے بہتر زندگی اور بہتر ین آخرت کی دعاء مانگنی چاہیے۔ہمارے معاشرے میں اسلام کی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے یا اسلام کی غلط تشریحات کا اثر ہے کہ ہم اﷲ کی بعض نعمتوں کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں، مثلاً ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتاہے کہ جس کے پاس مال و دولت ہو وہ ’’دنیا دار‘‘ ہے اور جس کے پاس نہ ہو وہ ’’دین دار ‘‘ ہے، حالانکہ مطلقاً یہ تقسیم درست نہیں۔ بلکہ اگر مال و دولت کے ساتھ ساتھ دل میں خوف خدا موجود ہے تو یہی مال و دولت اس کے حق میں اﷲ کی رحمت بن جاتا ہے

جس سے وہ بہت سارے اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے قابل ہوتا ہے اور اﷲ کو راضی کر کے دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتا ہے تو ایسا مال ’’دنیا‘‘ نہیں بلکہ ’’دین‘‘ ہے۔ اور اگر مال و دولت کی کثرت نہیں بلکہ معمولی مقدار میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ عبادات میں رکاوٹ بنتا ہے تو یہ ’’دنیا‘‘ ہے جس کی احادیث مبارکہ میں مذمت بیان کی گئی ہے۔گویا مال کا دارومدار عملی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، عملی زندگی شریعت کے احکام کے مطابق تو مال کی کثرت باعث رحمت ہے اور اگر عملی زندگی شریعت کے احکام کے خلاف ہے تو مال کی قلت بھی باعث عذاب ہے۔

صحابہ کرامؓ میں سے ایک صحابیؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’ ایک مرتبہ ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں رسول اﷲﷺ ہمارے پاس تشریف لائے آپﷺ کا سر مبارک تر تھا۔آپ ﷺ غسل فرما کر تشریف لائے تھے۔

ہم نے عرض کی کہ یا رسول اﷲؐ، آپ ﷺبہت خوش ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا ہی ہے ۔صحابیؓ فرماتے ہیں کہ پھر لوگ مال ودولت کے بارے میں گفتگو کرنے لگے ،یعنی اس کی مذمت بیان کرنے لگے،تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خوف خدا رکھنے والے شخص کے لیے مال و دولت بری چیز نہیں ، متقی کے لیے مال و دولت سے بڑھ کر صحت وتندرستی زیادہ اچھی چیز ہےاور دل کی خوشی(سکون و چین) بھی اﷲ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے‘‘۔مال و دولت کے بارے میں چند باتیں ذہن نشین کرنی ہیں۔ …

۔1


مال کو حلال اور جائز طریقے سے حاصل کریں۔ ناجائز اور حرام ذرائع آمدن سے بچیں، جیسا کہ فراڈ ، دھوکہ ، سود ، جھوٹ ، جھوٹی قسمیں اور غیر شرعی طریقہ معاملات ہیں۔ یاد رکھیں مال ناجائز اور حرام ذرائع سے مل تو جاتا ہے لیکن خدا کی ناراضگی اس میں داخل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں ، لڑائی جھگڑے ، بے چینی و بے سکونی ، ذہنی ڈپریشن اور اولاد بے ادب اور نافرمان بن جاتی ہے۔ حرام کا لقمہ ایسا زہر ہے جس کے ہوتے ہوئے عبادت کی حلاوت کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ حالات کی بہتری کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں لیکن حرام مال ، حرام لباس اور حرام خوراک کی وجہ سے اﷲ انہیں قبول نہیں فرماتے۔ …َ

2


مال کے ساتھ جن حقوق اﷲ کا تعلق ہے ان کو بروقت ضرور ادا کریں۔ واجبی صدقات جیسا کہ زکوٰۃ ، قربانی ،عشر ، صدقہ فطر وغیرہ ہیں ان کو اپنے وقت پر خوشی کے ساتھ ادا کریں۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ مال و دولت ملنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کے حقوق ادا نہ کرنا اور جن عبادات کا تعلق مال کے ساتھ ہے مال کے کم ہونے کے خوف کی وجہ سے ان عبادات کو ادا نہ کرنا دنیا و آخرت کی بربادی ہے ، مال ختم نہ بھی ہو لیکن انسان کی زندگی ایک دن ضرور ختم ہوجائے گی اور یہی مال دوسروں کی ملکیت میں چلا جائے گا۔ …
3

مال کے ساتھ جن حقوق العباد کا تعلق ہے ان کی ادائیگی بروقت کریں۔ اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اپنی حیثیت کے مطابق ان کے اخراجات کو پورا کرنا ضروری ہے۔ والدین ،بہن بھائی ، قریبی رشتہ دار ، ہمسائے اور ضرورت مند طبقے پر اپنی مالی وسعت کے مطابق خرچ کرنا اسلام کی تعلیم ، اﷲ کی خوشنودی اور رضاء کا ذریعہ اور مال میں مزید فراخی اور برکت کے حصول کا باعث ہے۔ اس لیے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اعتدال کے ساتھ مال کو کام میں لاتے رہیں۔ …۔۔۔
4


مال کو فضول خرچی سے بچائیں۔ ایک بات اچھی طرح یاد رکھیں جہاں ضرورت ہو وہاں ایک لاکھ بھی خرچ کرنا گناہ نہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ایک روپیہ بھی خرچ کرنا گناہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں نام و نمود اور شہرت کے حصول کے لیے مال کو ضائع کیا جاتا ہے۔ خوشی کا موقع ہو یا غمی کا دونوں میں فضول خرچی دیکھنے کو ملتی ہے ، خصوصاً شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ضرورت سے زائد اتنا زیادہ خرچ کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ۔ حالانکہ اسلام ہمیں اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے، غیر شرعی رسوم و رواج اور باہمی تفاخر نے ہمارے پورے معاشرے کو بری طرح اجاڑ ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں مسلسل بے سکونی اور غیر اطمینانی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور یہ اس وقت تک نہیں تھمے گی

جب تک اسلام کی اعتدال والی تعلیم کو اپنا نہیں لیا جائیگا۔دنیاوی تفکرات ، رنج و غم ، حزن و ملال، ذہنی ڈپریشن اور الجھنوں سے محفوظ ہونا بھی نعمت ہے جو ہر انسان کو نصیب نہیں بلکہ یہ نعمت اسے ملتی ہے جو اﷲ کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہر شخص پرسکون رہنا چاہتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس سکون و اطمینان کے حصول کا وہ طریقہ نہیں اپناتا جو اﷲ کریم نے مقرر فرمایا ہے یعنی ذکر اﷲ۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو مال و دولت ، صحت و تندرستی اور سکون واطمینان جیسی نعمتوں سے مالا مال فرمائے اور فقر و تنگدستی ، بیماریوں اور پریشانیوں سے محفوظ فرمائے۔ ٭٭٭٭​
 

Back
Top