Adabi Mazameen Atharwah over (18th over)

Twilight

Twilight

New Member
11
 
Messages
5,654
Reaction score
13,001
Points
706
اٹھارہواں اوور
از
محسن احمد
ہر سال کی طرح اس سال بھی گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے درمیان کھیلے جانے والے ٹی ٹوئینٹی میچ میں اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پچھلے کئی سالوں سے سیالکوٹ کی ٹیم گوجرانوالہ کی ٹیم کو شکست دینے میں ہمیشہ کامیاب ہو رہی تھی۔ مگر اس دفعہ تو ٹورنامینٹ کے سیمی فائینل ھونے کے علاوہ یہ میچ گوجرانوالہ میں ہی کھیلا جا رہا تھا۔ سیالکوٹ کی ٹیم پہلے باری کرتے ھوئے بیس اووروں میں ایک سو ساٹھہ رنز بنانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ جواب میں گوجرانوالہ کی ٹیم سترہ اووروں میں ایک سو اٹھائیس رنز بنا چکی تھی مگر انکے چھے کھلاڑی پویلیں میں جا چکے تھے۔ اٹھارہویں اوور کی پہلی بال پر ہی گوجرانولہ کا آخری بیٹسمین کیچ آوٹ ہو گیا۔ اب باقی سب بالرز تھے جنھوں نے کبھی بھی کسی میچ میں خاطرخواہ اسکور نہیں کیا تھا۔ گوجرانوالہ کے تماشائیوں میں مایوسی پھیل چکی تھی۔
ساتواں کھلاڑی ضیاءالرحمن گراونڈ میں داخل ہوا تو اسٹیڈیم میں اتنی خاموشی تھی کہ جیسے ضیاء گوجرانوالہ کی طرف سے نہیں بالکہ سیالکوٹ کی طرف سے کھیل رہا ہے۔ تین اوورز میں بتیس اسکور نا ممکن تو نہیں تھا مگر ان حالات میں گوجرانولہ کا میچ جیتنا ایک موءجزے سے کم نہیں تھا۔ چند تماشائی تو منہ پہ ہاتھہ رکھے اس موءجزے کی دعا بھی کر رھے تھے۔ ضیاء نے پہلی بال پہ ہی بلا گھمایا اور بال تیزی سے باءونڈری سے باہر چلی گئی۔ اس چوکے کے بعد اتھائیس رنز درکار تھے کہ اگلی ہی بال پر ضیاء نے چھکا دے مارا۔ اب تماشائیوں میں جوش واپس آرہا تھا۔ اسٹیڈیم میں ایک بار پھر ڈھول بجنے لگے۔ اگلی تین بالوں میں ضیاء دو مزید چوکے مارنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب دو اووروں میں چودہ رنز باقی رہ گئے تھے اور اٹھارویں اوور نے میچ کی کایا پلٹ دی تھی۔ میچ ایک بار پھر گوجرانوالہ کے ہاتھہ میں آچکا تھا۔
انیسویں اوور میں مزید آٹھہ اسکور بنا مگر آخری بال پر ضیاء بھی آوٹ ہو گیا۔ اب بیسویں اوور میں چھے اسکور رہ چکے تھے اور ابھی دو وکٹیں باقی تھیں۔ سیالکوٹ کا بالر ظہیرالاسلام اس علاقے کا سب سے اچھا بالر سمجھا جاتا تھا اسلئے اب بھی میچ مکمل طور پر گوجرانوالہ کے حق میں نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ پہلے دو بالوں پہ کوئی رن نہیں بنا اور تیسرے بال پر گیند بیٹسمین کے بلے کو ہلکا سا چھو کر وکٹ کیپر کے ہاتھوں کے قریب سے گزر کر باءونڈری لائین پار کر گئی۔ اب تین بالوں پہ دو اسکور باقی رہ گیا تھا۔ چوتھی بال بیٹسمین کو بیٹ کرنے میں کامیاب ہو گئی اور پانچویں بال پر نواں کھلاڑی بھی بولڈ ہو گیا۔ اب آخری بال پر گوجرانولہ کو جیتنے کے لیئے دو اسکور چاہئے تھے۔ ایک اسکور سے میچ برابر تو ہو سکتا تھا مگر کیونکہ سیالکوٹ نے اپنا اسکور سات وکٹوں کے نقصان پہ کیا تھا برابری کی صورت میں سیالکوٹ کو ہی فاتح قرار دیا جانا تھا۔
ایک بار پھر اسٹیڈیم میں سناٹا چھا چکا تھا۔ آخری کھلاڑی محمد عرفان کھیلنے کے لئے تیار کھڑا تھا۔ کئی تماشائی اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو گئے اور کئی بیٹھہ کر دعائیں مانگنے لگے۔ اتنے میں بالر اپنے ایکشن کی جگہ پہ تیار کھڑا ہو گیا۔ عرفان نے بھی آخری دفعہ سب فیلڈروں کی پوزیشن کو دیکھہ لیا۔ محمد عرفان بالکل تجربہ کار بیٹَسمین نہیں تھا مگر یہ ایک بال اس کی زندگی کی اھم ترین بال بن چکی تھی۔
بال کے قریب آتے ہی عرفان نے زور سے بلا گھمایا ۔ گیند تیزی سے باونڈری کی طرف چلی گئی اور وھاں پر موجود فیلڈر نےاسے پکڑ کر بالر کی طرف پھنک دیا۔ اتنی دیر میں ایک رن بن چکا تھا اور دونوں بیٹسمین دوسرے رن کے لیئے دوڑ رہے تھے۔ سب کو نظر آ رھا تھا کہ دوسرا رن بننا ناممکن ھے مگر اسکے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ اب بالر تیزی سے گیند کی جانب جا رھا تھا تاکہ وہ جلدی سے بیٹسمین کو رن آوٹ کر سکے مگر گیند کے قریب پہنچتے ہی وہ تھوڑا سا پھسل گیا اور گیند اس کے ہاتھہ سے نکل گئی۔
پورا اسٹیڈیم فتح کے خوشی میں گراونڈ میں آگیا کچھہ لوگوں نے عرفان کو کاندہوں پہ اٹھا لیا اور عرفان اور گوجرانوالہ کی ٹیم کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ خوشی کے اس جشن میں سب لوگ چند لمحے پہلے گزرا ہوا اٹھارہواں اوور بھول چکے تھے

@Falak
@Ellaf khan
@Sibgha Ahmad
@Asad Rehman

@Recently Active Users
 

Back
Top