Atta Shad: Poet of Urdu and Balochi languages poetry by Abdul Hafeez Zafar

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
عطا شاد اردو اور بلوچی زبان کے اس شاعر نے کئی کتابیں تصنیف کیں
ata shad.jpg

تحریر : عبدالحفیظ ظفر
بہت کم شاعر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ایک سے زیادہ زبانوں میں شاعری کی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کے شعری طرز احساس نے معانی کے کئی جہان کھولے۔ بیسیویں صدی میں ایک شاعر نے اردو اور بلوچی زبان میں بے مثل شاعری کی اور اپنی ذہانت سے اہل ادب کو بے پناہ متاثر کیا، ان کا نام تھا عطا شاد۔ یکم نومبر1939 کو تربت کے قریب پیدا ہونے والے شاعر عطا شاد کا اصل نام محمد اسحاق تھا۔ انہیں جدید علامتی بلوچی شاعری کا معمار سمجھا جاتا ہے ۔ عطا شاد صحیح معنوں میں ایک کثیر الجہات شخصیت تھے۔ وہ شاعر کے علاوہ نقاد، ڈرامہ نویس، محقق اور دانش ور بھی تھے۔ وہ اردو اوربلوچی کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ انہوں نے غزل اور نظم کے میدان میں اپنی فنی عظمت کے جھنڈے گاڑے۔ عطا شاد نے جب شاعری شروع کی تو وہ فیض احمد فیض سے بہت متاثر تھے۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا الگ شعری اسلوب وضع کریں گے ۔ اور پھریہ ہوا کہ انہو ں نے اپنے منفرد اسلوب سے ادبی حلقوں میں ممتاز حیثیت حاصل کی۔ وہ مغرب کے رومانوی شعرا کالرج، شیلے اور ٹی ایس ایلیٹ سے خاصے متاثر ہوئے۔ ان کی پہلی آزاد نظم ’’شیپانگ‘‘کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد ان کی نظم ’’ساہ کندن‘‘ نے انہیں بہت شہرت بخشی۔ اس نظم میں بلوچ روایات اور تاریخ کا شعور ملتا ہے۔ عطا شاد نے بڑے باکمال طریقے سے اردو شاعری اور بلوچی ثقافت کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔ عطا شاد نے کئی اہم سرکاری عہدوں پر کام کیا۔ اپنی زندگی میں ان کے دو شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ ان کی اردو شاعری میں بلوچی ثقافت کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ سرزمین بلوچستان بھی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ان کی شاعری کا اہم وصف بن کر سامنے آتی ہے ۔ ان کی شاعری میں بلوچستان کے لوک گیتوں ، کہانیوں، رومانوی داستانوں اور محاوروں کا حسین امتزاج شاعری کو نئے مزاج سے آشنا کرتا ہے ۔ انہوں نے ’’مہناز، شاہ مرید اور ہانی، وفا اور لوری‘‘ جیسی نظمیں تخلیق کیں۔ یہ تمام نظمیں بلوچی ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان نظموں کے مطالعے سے بلوچ معاشرے کے بارے میں بھی بہت معلومات ملتی ہیں ۔ ان کے زمانے میں بلوچی شاعری دو بڑے گروپوں میں بٹی ہوئی تھی ۔ ان گروپوں کا آپس میں مقابلہ ہوتا رہتا تھا۔ عطا شاد نے کسی بھی گروپ کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ وہ اس بات پر قائل نہیں ہوئے کہ شاعری کے ذریعے سیاسی تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور نہ ہی وہ روایات کے اندھے پیروکار تھے۔ اس کے برعکس انہوں نے وہ شعری زبان استعمال کی جس میں بلوچی زبان کی تمام بولیاں شامل تھیں ۔ اس شعری زبان کی وجہ سے ان کا شعری افق خاصا وسیع ہوگیا۔ عطا شاد کی شاعری میں سلاست اور سادگی ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ ندرت خیال بھی ہے اور خوبصورت تراکیب کا استعمال بھی کیا گیا ہے ۔ انہیں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی کتابوں میں ’’روچ گر‘‘ اور ’’شب سحر‘‘ خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ دونوں بلوچی زبان میں لکھی گئیں۔ اردو شاعری کے مجموعوں میں سنگاب، برفاگ کے علاوہ بلوچی نامہ ، درین(بلوچی لوک گیت اردو ترجمے کے ساتھ)اردو بلوچی لغت، ہفت زبانی لغت، بلوچ اردو ڈکشنری ، جاونسل(بلوچی صوفی شاعر ابراہیم جاونسل بگتی کا مجموعہ کلام) ۔ اس کے علاوہ عطا شاد نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے لاتعداد ڈرامے لکھے۔عطا شاد بلوچی اکیڈمی کوئٹہ، ادارہ ثقافت بلوچستان کوئٹہ، پاکستان نیشنل بک کونسل اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان اور مرکزی اردو بورڈ لاہور سے وابستہ رہے ۔ انہوں نے 13حکومتی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر کام کیا۔ وہ بلوچستان میںسیکریٹری اطلاعات ، سیکریٹری جنگلات، ڈائریکٹر تعلقات عامہ اور ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ کے علاوہ کئی دوسرے عہدوں پر اپنے فائز رہے ۔ یقینا وہ ایک انتھک آدمی تھے جنہوں نے ادبی محاذ پر بھی بہت کام کیااور طویل عرصے تک سرکاری نوکری بھی کی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ عرفان احمد بیگ نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے عطا شاد پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اس کے علاوہ شعیب شاداب نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے عطا شاد پر ایم فل کے لئے مقالہ لکھا۔ تربت میں ان کے نام پر عطا شاد ڈگری کالج اور عطا شاد اکیڈمی قائم کی گئی ۔ کوئٹہ میں عطا شاد آڈیٹوریم اور تربت میں عطا شاد پارک بھی موجود ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں کتنے اعزازات سے نوازا گیا۔ دراصل ان کا کام ہی اتنا زیادہ تھا کہ وہ ان تمام اعزازات کے مستحق ٹھہرے۔ اب ہم ذیل میں عطا شاد کی اثر انگیز شاعری کے کچھ نمونے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔ پارسائوں نے بڑے ظرف کا اظہار کیاہم سے پی اور ہمیں رسوا سربازار کیاتو جو بچھڑاتو یہ محسوس ہوا جسم سے رو ح کا رشتہ کیا تھااب کے موسم کوئی سایہ ہے نہ سبزے کا سرابپیاسی آنکھوں میں سلگتا ہوا صحرا بولےمیں زخم زخم رہوں روح کے خرابوں سےتو جسم جسم دہکتا رہے گلابوں سےبڑا کٹھن ہے راستہ جو آسکو تو ساتھ دویہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو بڑے فریب کھائو گی بڑے ستم اٹھائو گییہ عمر بھر کا ساتھ ہے نبھا سکو تو ساتھ دو تم بھی گنگنا لینا کوئی پھول صحرا میں پتھروں پہ لکھا ہے میں نے نام سبزے کا دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا اب عطا شاد کی ایک مختصر نظم ملا حظہ فرمائیں جو تاثریت سے بھرپور ہے ۔ نظم کا عنوان ہے وفا۔میری زمیں پر ایک کٹورے پانی کی قیمت سو سال وفا ہے آئو ہم بھی پیاس بجھائیں زندگیوں کا سودا کرلیں13فروری1997 کو اس عدیم النظیر ادبی شخصیت نے داعیِ اجل کو لبیک کہا ۔ عطا شاد نے جتنا کام کیا اس پر ان کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے ۔​
 

@intelligent086
اہم اور مفید معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
@Veer
ادبی شخصیات کے سیکشن میں موو کر لیں تو مناسب رہے گا
شکریہ
 
Back
Top