You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly. You should upgrade or use an alternative browser.
Content tagged with Ahmad Rahi Poetry
Ahmad Rahi (12 November 1923 – 2 September 2002) was a Punjabi poet and writer from Pakistan. He was born in Amritsar, British India. His real name was Ghulam Ahmad, a name given by his spiritual leader Khorsheed Ahmad. He completed his basic early education from Amritsar, India in 1940. After completing his high school, he got admission in M.A.O. College, Lahore but was expelled due to taking part in political movements. After expulsion, he joined his father in his business of selling embroidered wool shawls in the local market.
کوئی بتلائے کہ کیا ہیں یارو
ہم بگولے کہ ہوا ہیں یارو
تنگ ہے وسعت صحرائے جنوں
ولولے دل کے سوا ہیں یارو
سرد و بے رنگ ہے ذرہ ذرہ
گرمئ رنگ صدا ہیں یارو
شبنمستان گل نغمہ میں
نکہت صبح وفا ہیں یارو
جلنے والوں کے جگر ہیں دل ہیں
کھلنے والوں کی ادا ہیں یارو
جن کے قدموں سے ہیں گلزار یہ دشت...
قد و گیسو لب و رخسار کے افسانے چلے
آج محفل میں ترے نام پہ پیمانے چلے
ابھی تو نے دل شوریدہ کو دیکھا کیا ہے
موج میں آئے تو طوفانوں سے ٹکرانے چلے
دیکھیں اب رہتا ہے کس کس کا گریباں ثابت
چاک دل لے کے تری بزم سے دیوانے چلے
پھر کسی جشن چراغاں کا گماں ہے شاید
آج ہر سمت سے پر سوختہ پروانے چلے...
کبھی تری کبھی اپنی حیات کا غم ہے
ہر ایک رنگ میں ناکامیوں کا ماتم ہے
خیال تھا ترے پہلو میں کچھ سکوں ہوگا
مگر یہاں بھی وہی اضطراب پیہم ہے
مرے مذاق الم آشنا کا کیا ہوگا
تری نگاہ میں شعلے ہیں اب نہ شبنم ہے
سحر سے رشتۂ امید باندھنے والے
چراغ زیست کی لو شام ہی سے مدھم ہے
یہ کس مقام پہ لے...
قیام دیر و طواف حرم نہیں کرتے
زمانہ ساز تو کرتے ہیں ہم نہیں کرتے
تمہاری زلف کو سلجھائیں گے وہ دیوانے
جو اپنے چاک گریباں کا غم نہیں کرتے
اتر چکا ہے رگ و پے میں زہر غم پھر بھی
بہ پاس عہد وفا چشم نم نہیں کرتے
یہ اپنا دل ہے کہ اس حال میں بھی زندہ ہیں
ستم کچھ اہل ستم ہم پہ کم نہیں کرتے...
جنہیں راس آ گئے ہیں یہ سحر نما اندھیرے
یہ تلاش صبح نو میں کبھی ہم سفر تھے میرے
تھیں جو قتل گاہیں ان کی ہیں وہی قیام گاہیں
تھے جو رہزنوں کے مسکن ہیں وہ رہبروں کے ڈیرے
میں جہان بے دلی میں کہاں لے کے جاؤں دل کو
مرے دل کی گھات میں ہیں یہاں چار سو لٹیرے
اے شبوں کے پاسبانوں میں یہ تم سے...
قد و گیسو لب و رخسار کے افسانے چلے
آج محفل میں ترے نام پہ پیمانے چلے
ابھی تو نے دل شوریدہ کو دیکھا کیا ہے
موج میں آئے تو طوفانوں سے ٹکرانے چلے
دیکھیں اب رہتا ہے کس کس کا گریباں ثابت
چاک دل لے کے تری بزم سے دیوانے چلے
پھر کسی جشن چراغاں کا گماں ہے شاید
آج ہر سمت سے پر سوختہ پروانے چلے...
محفل محفل سناٹے ہیں
درد کی گونج پہ کان دھرے ہیں
دل تھا شور تھا ہنگامے تھے
یارو ہم بھی تم جیسے ہیں
موج ہوا میں آگ بھری ہے
بہتے دریا کھول اٹھے ہیں
ارمانوں کے نرم شگوفے
شاخوں کے ہمراہ جلے ہیں
یہ جو ڈھیر ہیں یہ جو کھنڈر ہیں
ماضی کی گلیاں کوچے ہیں
جن کو دیکھنا بس میں نہیں تھا
ایسے بھی...
میں دل زدہ ہوں اگر دل فگار وہ بھی ہیں
کہ درد عشق کے اب دعویدار وہ بھی ہیں
ہوا ہے جن کے کرم سے دل و نظر کا زیاں
بہ فیض وقت مرے غم گسار وہ بھی ہیں
شہید جذبوں کی فہرست کیا مرتب ہو
شمار میں جو نہیں بے شمار وہ بھی ہیں
دل تباہ! یہ آثار ہیں قیامت کے
رہین گردش لیل و نہار وہ بھی ہیں
حریم حسن...
دل کے ویران راستے بھی دیکھ
آنکھ کی مار سے پرے بھی دیکھ
چار سو گونجتے ہیں سناٹے
کبھی سنسان مقبرے بھی دیکھ
کانپتی ہیں لویں چراغوں کی
روشنی کو قریب سے بھی دیکھ
سوزش فرقت مسلسل سے
آنچ دیتے ہیں قہقہے بھی دیکھ
بند ہونٹوں کی نغمگی بھی سن
سوتی آنکھوں کے رت جگے بھی دیکھ
دیکھنا ہو اگر کمال...
یہ داستان غم دل کہاں کہی جائے
یہاں تو کھل کے کوئی بات بھی نہ کی جائے
تمہارے ہاتھ سہی فیصلہ مگر پھر بھی
ذرا اسیر کی روداد تو سنی جائے
یہ رات دن کا تڑپنا بھی کیا قیامت ہے
جو تم نہیں تو تمہارا خیال بھی جائے
اب اس سے بڑھ کے بھلا اور کیا ستم ہوگا
زبان کھل نہ سکے آنکھ دیکھتی جائے
یہ چاک...