سالِ نو ایک استعارہ ہے
وقت ہر ایک سا ہمارا ہے
سال ہوتے ہیں موسموں کی طرح
ہمیں سب موسموں نے مارا ہے
وقت نے صرف پلک ہے جھپکی
آنکھ میں ہو بہو نظارہ ہے
خامشی میں وہی تعفن اک
گفتگو میں وہی غبارا ہے
حال بگڑا ہے اور بھی اپنا
ہم نے جتنا اسے سنوارا ہے
اپنے سائے کے ساتھ چلتے رہے
اور سمجھتے رہے...
وہ شخص کتنا سدھر گیا ہے
کہ دل سے میرے اتر گیا ہے
تھا اک تعلق عذاب سا جو
وہ ٹوٹ کر اب سنور گیا ہے
جو ساتھ رہ کر بجھا بجھا تھا
بچھڑ کے کتنا نکھر گیا ہے
سکوں ہے اب جو نہ یہ خبر ہے
اِدھر گیا یا اُدھر گیا ہے
جو کوچہ کوچہ بھٹک رہا تھا
وہ آج اپنے ہی گھر گیا ہے
سرہانے رکھ کے تھا میں تو سویا
یہ ڈر...
بخش دیتا ہے وہ خطاؤں کو
ہاتھ اٹھتے ہیں جب دعاؤں کو
دل سے گرتا ہوں جب میں سجدوں میں
دور کرتا ہے سب بلاؤں کو
میں پرندہ ہوں تھک بھی جاتا ہوں
پر لگاتا ہے وہ فضاؤں کو
یہ عطا ہے, یہ اُس کی رحمت ہے
میں مُسخّر کروں خلاؤں کو
وقت کی سختیوں کو ٹالے ہے
وہی لاتا ہے دھوپ چھاؤں کو
سو اک اللہ ہمیں بہت کافی...
رابطے بھی رکھتا ہوں راستے بھی رکھتا ہوں
لوگوں سے بھی ملتا ہوں فاصلے بھی رکھتا ہوں
غم نہیں ہوں کرتا اب، چھوڑ جانے والوں کا
توڑ کر تعلق میں، در کھلے بھی رکھتا ہوں
موسموں کی گردش سے میں ہوں اب نکل آیا
یاد پر خزاؤں کے حادثے بھی رکھتا ہوں
خود کو ہے اگر بدلا وقت کے مطابق تو
وقت کو بدلنے کے حوصلے...
حل مسائل ہیں خود بتانے لگے
اب تو خود خواب ہیں جگانے لگے
غور کرتا ہوں اب میں لہجوں پر
لفظ معنی نہیں بتانے لگے
جب سجاتے ہو پھول کاغذ کے
پھر وہ خوشبو کہاں سے لانے لگے
جانے کیا کیا فساد ہو جائے
آئینہ سوچ گر دکھانے لگے
سیکھئے لاکھ وقت سے لیکن
دل نیا پھر سبق سکھانے لگے
جب محبت کی بات آ جائے
سب...
خیالوں پر نہ منڈلایا کرو تم
جو جاؤ تو چلے جایا کرو تم
نبھانے کا ارادہ ہی نہیں جب
تو پھر کیوں بات بڑھایا کرو تم
یہ کیا پیاسوں کو جھوٹی آس دینا
برسنا ہو تو پھر چھایا کرو تم
محبت جب یقیں ہو سچ خبر ہے
تو آگے تب ہی پھیلایا کرو تم
سبق خود سیکھ لو پہلے وفا کا
اسے پھر ہم کو سمجھایا کرو تم
اداسی...
نہ جانے کتنے ٹکڑوں میں بٹا ہوں
میں اپنے ہاتھ سے خود گر پڑا ہوں
مقابل ہے مرے سارا زمانہ
میں اپنے ساتھ بس تنہا کھڑا ہوں
مٹانے کو مجھے سب مر رہے ہیں
سو یوں ثابت ہوا، سب سے بڑا ہوں
نہ کوئی ساتھ تھا، نہ ساتھ ہے اب
اکیلا ہوں ، اکیلا ہی ڈٹا ہوں
کوئی بتلائے کیا بس میں غلط ہوں
یا بس حق بات پر اک میں...