یہ تری زلف کا کنڈل تو مجھے مار چلا
جس پہ قانون بھی لاگو ہو وہ ہتھیار چلا
پیٹ ہی پھول گیا اتنے خمیرے کھا کر
تیری حکمت نہ چلی اور ترا بیمار چلا
بیویاں چار ہیں اور پھر بھی حسینوں سے شغف
بھائی تو بیٹھ کے آرام سے گھر بار چلا
اجرت عشق نہیں دیتا نہ دے بھاڑ میں جا
لے ترے دام سے اب تیرا گرفتار چلا...
ہمارے علم نے بخشی ہے ہم کو آگاہی
یہ کائنات ہے کیا اس زمیں پہ سب کیا ہے
مگر بس اپنے ہی بارے میں کچھ نہیں معلوم
مروڑ کل سے جو معدے میں ہے سبب کیا ہے
اطہر شاہ خان جیدی
ہیں شاعر و ادیب و مفکر عظیم تر
اور پھر بھی انکسار سے ملتے ہیں سب سے وہ
کچھ اور بھی ادب میں بڑھا ان کا مرتبہ
بائیسویں گریڈ میں آئے ہیں جب سے وہ
اطہر شاہ خان جیدی
ہم چھوڑ کے گھر اپنا آباد کریں صحرا
جائیں تو کہاں جیدیؔ ایسی ہے پریشانی
بچوں کو سلا دیں تو ہمسایہ نہیں سوتا
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
اطہر شاہ خان جیدی
کھڑا ہے گیٹ پہ شاعر مشاعرے کے بعد
رقم کے وعدے پر اس کو اگر بلایا تو دے
کوئی تو ڈھونڈ کے لائے کہ منتظم ہے کہاں
لفافہ گر نہیں دیتا نہ دے کرایہ تو دے
اطہر شاہ خان جیدی
کس قدر ظالم و وحشی تھا وہ پاگل موذی
کاٹ کر سارے ہی دانتوں کے نشاں چھوڑ دیا
ہے عجب بات کہ لیڈر تو بھلا چنگا رہا
آئینہ دیکھا جو کتے نے تو دم توڑ دیا
اطہر شاہ خان جیدی
شاعروں نے رات بھر بستی میں واویلا کیا
داد کے ہنگامہ سے پورا محلہ ڈر گیا
اک ضعیفہ اپنے بیٹے سے یہ بولی اگلے روز
رات کیسا شور تھا کیا کوئی شاعر مر گیا
اطہر شاہ خان جیدی