کچھ ایسے کسی آس نے آنکھوں میں بھرے خواب
جی اٹھے ہیں پھرذہن میں صدیوں کے مرے خواب
مجھ پر بھی روا رکھا ستم دورِ خزاں نے
میں نے بھی بچا رکھے تھے دو چار ہرے خواب
کل رات ذرا نیند کے آثار سے پہلے
اک یاد اُڑا لے گئی تکیے پہ دھرے خواب
اب سو بھی اگر جائوں تو دستک نہیں دیتے
تعبیر کے آسیب سے...
سکونِ جسم و جاں بھی روح کا آزار لگتا ہے
سو اب آرام سے جینا مجھے دشوار لگتا ہے
مرے رستے میں لوگوں نے وہ دیواریں اُٹھائی ہیں
کہ اپنے گھر کا دروازہ بھی اب دیوار لگتا ہے
کٹی ہے جب سے گردن ایک مردِ سرکشیدہ کی
مجھے ہر سربُریدہ صاحبِ دستار لگتا ہے
لہو بہتا ہوا دیکھا ہے جب سے غنچہ و ُگل کا...
سورج سے واجبی سا تعلق ہی تھا مرا
میں پھر بھی اپنی دھوپ سدا بانٹتا پھرا
کیوں در بجا رہی تھی مرا اے خنک ہوا
کیا رات مجھ غریب سے کچھ کام تھا ترا؟
میں کر رہا تھا اہلِ زمیں کے ِستم شمار
اتنے میں آسمان مرے سر پہ آ ِگرا
دشتِ غمِ حیات! مرا حوصلہ تو دیکھ
میں ڈھونڈنے چلا ہوں ترا دوسرا ِسرا...
پکڑ کے ہاتھ مرا صبح دم نکلتا ہے
گلی گلی وہ مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
وہ میرے ساتھ سلگتا ہے سرد راتوں میں
مرے بدن میں وہی بارشوں میں جلتا ہے
جلائے رکھتا ہے غم کا الاؤ سینے میں
اُسی کا درد مرے آنسوؤں میں ڈھلتا ہے
تمام رات مرے ساتھ نرم بستر پر
تھکن سے ُچور وہی کروٹیں بدلتا ہے
کوئی جو ایک نظر ہنس...
آنکھوں میں رت جگے ہوں کہ خوابوں کے سلسلے
ہوتے نہیں تمام عذابوں کے سلسلے
راہوں میں ُجز فریبِ نظر اور کچھ نہ تھا
حدِنگاہ تک تھے سرابوں کے سلسلے
تا بارگاہِ حسن رسائی محال تھی
حائل تھے راستے میں ، حجابوں کے سلسلے
پلکیں اُٹھا کے اُس نے نہ دیکھا کہ دیکھتے
نیلم کے جام ، سرخ شرابوں کے سلسلے
آتے ہی...