You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly. You should upgrade or use an alternative browser.
Content tagged with Parveen Shakir Poetry
Parveen Shakir (Urdu: پروین شاکر; 24 November 1952 – 26 December 1994) was a Pakistani poet, teacher and a civil servant of the government of Pakistan. She is best known for her poems, which brought a distinctive feminine voice to Urdu literature, and for her consistent use of the rare grammatical feminine gender for the word "lover".Since her death, the "Parveen Shakir Urdu Literature Festival" has been held every year in Islamabad in her memoriam.
تجھ سے لازم تھی محبت نادانی کب تھی
ہم کو معلوم تھا تم نے نبھانی کب تھی
اب جو اداس طبعیت ہے رونا کیسا
پہلے بھی میری کوئی شام سہانی کب تھی
ہو گئی عمر رسیدہ تو خیال آیا
ہم پہ آئی وہ چند روز جوانی کب تھی
ہم نے جینے کی تمنا ہی چھوڑ دی ورنہ
زندگی ہم سے میرے دوست بیگانی کب تھی
اب تیرے ہجر کو...
تجھ سے لازم تھی محبت نادانی کب تھی
ہم کو معلوم تھا تم نے نبھانی کب تھی
اب جو اداس طبعیت ہے رونا کیسا
پہلے بھی میری کوئی شام سہانی کب تھی
ہو گئی عمر رسیدہ تو خیال آیا
ہم پہ آئی وہ چند روز جوانی کب تھی
ہم نے جینے کی تمنا ہی چھوڑ دی ورنہ
زندگی ہم سے میرے دوست بیگانی کب تھی
اب تیرے ہجر کو...
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں...
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
موسم گل مرے آنگن میں...
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے...
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں...
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ...
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے .... رانا اعجاز
محبت کی خوشبو کو شعروں میں سمو کر بیان کرنے والی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کو ہم سے بچھڑے 26 برس بیت گئے لیکن ان کے الفاظ آج بھی ہزاروں دلوں میں زندگی کا احساس دلا رہے ہیں اور اس عظیم شاعرہ کے ہمارے درمیان موجود ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔...
تمام لوگ اکیلے، کوئے رہبر ہی نہ تھا
بچھڑنے والوں میں اک میرا ہمسفر ہی نہ تھا
برہنہ شاخوں کا جنگل گڑا تھا آنکھوں میں
وہ رات تھی کہ کہیں چاند کا گزر ہی نہ تھا
تمھارے شہر کی ہر چھاؤں مہرباں تھی مگر
جہاں پہ دھوپ کھڑی تھی وہاں شجر ہی نہ تھا
سمیٹ لیتی شکستہ گلاب کی خوشبو
ہوا کے ہاتھ میں ایسا کوئی...
شام ڈھلے نمناک سڑک پر
برف سی رنگت والی لڑکی
کسی کا رستہ دیکھ رہی ہے
کھڑکی کھول کر میں کیا دیکھوں
کہہ دے گی وہ نین چرا کر
دنیا کتنا شک کرتی ہے
کان کا بالا ڈھونڈ رہی ہوں
پروین شاکر
Sibgha Ahmad
Thread
ParveenShakirPoetryPoetry On Barf
Poetry On Dunya
Poetry On Sham