شفیق خلش
دوستی جب بھی کچھ بُتاں سے رہے
دشمنی میری اک جہاں سے رہے
بحر میں تِشنگی کے ڈُوب گیا
لمحہ بھر بھی جو وہ نہاں سے رہے
روز تہمت کا سامنا ہو جہاں
کوئی خوش بھی وہاں کہاں سے رہے
کرب چہرے نے کردئے ظاہر
زخم دل کے اگر نہاں سے رہے
جن کی فرقت نے کر دیا بوڑھا
وہ تصوّر میں کیا جواں سے رہے...
شفیق خلش
کچھ پیار محبت کے صدموں، کچھ زہر بھرے پیمانوں سے
جو ہوش گنوائے پھرتے ہیں، کچھ کم تو نہیں دیوانوں سے
اِس حالت پر افسوس نہیں، یہ راہِ دل کا حاصل ہے
وہ عالم دل کو راس تھا کب، نفرت ہی رہی ایوانوں سے
وہ داغ کہ اُن کی چاہت میں، اِس دامن دل پر آئے ہیں
شل رکھا اپنا دستِ طلب اور خوف رہے...
شفیق خلش
رنجشوں کو دل میں تم اپنے جگہ دینے لگے
غم ہی کیا کم تھے، جو اَب یوں بھی سزا دینے لگے
خواہشیں دل کی دبانےسے کہیں دبتی ہیں کیا
بھول کر میری وفاؤں کو جفا دینے لگے
یوں تمہاری یاد نے فرقت کا عادی کر دیا
ہجر کے غم بھی بالآخر اب مزہ دینے لگے
کیا یہ تجدیدِ محبت ہی علاجِ دل بھی ہے
آپ بیمارِ...
نہ پُوچھو ہم سے کہ وہ خُرد سال کیا شے ہے
کمر کے سامنے جس کی ہِلال کیا شے ہے
حَسِین چیز کوئی کیا، جمال کیا شے ہے
خدا نے اُس کو بنایا کمال، کیا شے ہے
بنایا وہ یَدِ قُدرت نے خاک سے پُتلا
خجِل ہوں حُور مقابل غزال کیا شے ہے
تمہارے حُسن سے، شاید مِرے تصور کو
کبھی خبر ہی نہیں ہو زوال کیا شے ہے...