نفس کی زد پہ ہر اک شعلۂ تمنا ہے
ہوا کے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے
ترا وصال تو کس کو نصیب ہے لیکن
ترے فراق کا عالم بھی کس نے دیکھا ہے
ابھی ہیں قرب کے کچھ اور مرحلے باقی
کہ تجھ کو پا کے ہمیں پھر تری تمنا ہے
دیکھیے اہل محبت ہمیں کیا دیتے ہیں
کوچۂ یار میں ہم کب سے صدا دیتے ہیں
روز خوشبو تری لاتے ہیں صبا کے جھونکے
اہل گلشن مری وحشت کو ہوا دیتے ہیں
منزل شمع تک آسان رسائی ہو جائے
اس لیے خاک پتنگوں کی اڑا دیتے ہیں
سوئے صحرا بھی ذرا اہل خرد ہو آؤ
کچھ بہاروں کا پتا آبلہ پا دیتے ہیں
مجھ کو احباب...
کسی مسکین کا گھر کھلتا ہے
یا کوئی زخم نظر کھلتا ہے
دیکھنا ہے کہ طلسم ہستی
کس سے کھلتا ہے اگر کھلتا ہے
داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
دیکھیے کون سا گھر کھلتا ہے
پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
حسن سے حسن نظر کھلتا ہے
میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
چھوٹی پڑتی ہے انا...
سب نے مجھ ہی کو در بدر دیکھا
بے گھری نے مرا ہی گھر دیکھا
بند آنکھوں سے دیکھ لی دنیا
ہم نے کیا کچھ نہ دیکھ کر دیکھا
کہیں موج نمو رکی تو نہیں
شاخ سے پھول توڑ کر دیکھا
خود بھی تصویر بن گئی نظریں
ایک صورت کو اس قدر دیکھا
ہم نے اس نے ہزار شیوہ کو
کتنی نظروں سے اک نظر دیکھا
اب نمو پائیں گے دلوں...
زیر لب رہا نالہ درد کی دوا ہو کر
آہ نے سکوں بخشا آہ نارسا ہو کر
کر دیا تعین سے ذوق عجز کو آزاد
نقش سجدہ نے میرے تیرا نقش پا ہو کر
فرط غم سے بے حس ہوں غم ہے غم نہ ہونے کا
درد کر دیا پیدا درد نے دوا ہو کر
ہو چکے ہیں سل بازو ہے نہ ہمت پرواز
ہم رہا نہ ہو پائے قید سے رہا ہو کر
حسرتیں نکلتی ہیں...