2 Test By Abdullah Babar Awan Column

دو ٹیسٹ ۔۔۔۔۔۔ عبداللہ بابر اعوان

ہماری دنیاسات برا عظموں میں پھیلی ہوئی ہے اورایک کرّ ہ ٔارض ہی ساری انسانیت کا گھرہے۔ اس جیسا کوئی دوسرا سیارہ نہیں۔ آج ایک خوفناک وبائی مرض نے ہمارے لیے دوامتحان پیداکر دیئے ہیں‘ پہلا ٹیسٹ دنیا بھر کے انسانوں کا اور دوسرا عالمی لیڈرشپ کے لیے ہے۔ ڈیلی سکور کارڈ سب کے سامنے آجاتا ہے اس لیے چُھپنے کی گنجائش نہیں۔
عام گلوبل شہریوں کے لیے ٹیسٹ نمبر ایک اپنی جان بچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مشکلیں آسان کردے۔ وہ جو سرکاری خرچ کے علاوہ علاج نہیں کروا سکتے‘ایسے گھروں میں صحت کا بجٹ کہاں سے بنے گا۔ پھر کون نہیں جانتا کہ دنیا کی اکثریت ایسے ملکوں میں رہتی ہے جن کے سالانہ قومی بجٹ پبلک ہیلتھ پر مبنی نہیں ہوتے ۔ یہ تو میں عام بیماریوں کا حوالہ دے رہا تھا ۔ کورونا کی وبا تو خاص بلا ہے ‘عام بیماری نہیں۔ عالمی گائوں کے غریب شہریوں کا دوسرا بڑامسئلہ پیٹ اور سانس کی ڈوری جوڑے رکھنا ہے۔ اگرپیٹ میں کچھ نہ جائے تو انسان صرف سانس پر نہیں جی سکتا۔ ہم باقی سب ملکوں کو چھوڑ دیتے ہیں‘ صرف واحد سپر عالمی طاقت امریکہ کی مثال دیکھ لیں تو وہ بھی ڈرانے کے لیے کافی ہو گی۔ جہاں لاک ڈائون نے شہریوں کو بنیادی ضروریات کے خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ مغربی ملکوں میں ماہوار تنخواہ کا کوئی تصور ہی نہیں‘ زندگی کے ہر شعبے میں سیلری ہفتہ وار چلتی ہے۔ اس لیے امریکہ میں تنخواہ سے محروم‘ بڑی بڑی ریلیاں نکال رہے ہیں۔ پلے کارڈز پر صرف دو نعرے لکھے ہوتے ہیں۔پہلا نعرہ ''Send Me on Job‘‘ لکھا ہے جبکہ مظاہرے میں شامل لوگ بلند آواز میں 'مجھے کام پر بھیج دو‘ کے نعرے لگاتے سنائی دے رہے ہیں۔ معاشی لاک ڈائون سے متاثر ہونے والے امریکی شہری دوسرا نعرہ مختلف ریاستوں کے گورنرز کے بارے میں لگا رہے ہیں۔ یہ دلچسپ نعرہ گورنر کا نام لے کر کہتا ہے''Lockdown the Governors‘‘۔ امریکہ کی سڑکوں پر گونجنے والے ''گورنروں کو بند کرو‘‘ کے یہ نعرے وائٹ ہائوس کے بھی حمایت یافتہ نکلے۔ اس حقیقت کا کھلا ثبوت اگلے دن امریکہ کے صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی سوشل سائٹ پر طلوع ہونے والے لگاتار ٹوئٹس ہیں۔ امریکہ کے ان صدارتی ٹوئٹس کی تفصیل یوں ہے:
''گورنر کوومو کو کام کرنے میں زیادہ اور شکوہ کرنے میں کم وقت صرف کرنا چاہیے۔ باہر جائیں اور اپنا کام پورا کریں۔ بولنا بند کریں! ہم نے آپ کے لیے ہسپتال کے ہزاروں بستر بنادیئے جن کی آپ کو ضرورت ہے نہ آپ انہیں استعمال کریں گے۔ہم نے آپ کو وینٹی لیٹرز کی ایک بڑی تعداد دی جو آپ کے پاس پہلے سے ہونے چاہئیں تھے اور ہم نے آپ کی ٹیسٹنگ میں مدد کی جو آپ کو خود کرنے چاہئیں تھے۔ ہم نے نیو یارک کو جتنا پیسہ‘ مدد اور سازوسامان دیا ہے اتنا اب تک کسی سٹیٹ کو نہیں دیا۔ اس کے علاوہ جن عظیم مردوں اور عورتوں نے یہ کام کیا ہے انہوں نے آپ کے منہ سے شکریہ تک نہیں سنا۔آپ کی شرح بالکل اچھی نہیں ہے۔باتیں کم اور کام زیادہ کرو!‘‘
اس وقت دنیا بھر کے لوگوں کے لیے اپنی عادتیں تبدیل کرنا بھی بہت بڑا امتحان ہے۔ اس امتحان کی پہلی دو مثالیں مسلم دنیا کے کلچر سے لینا زیادہ مناسب ہو گا جہاں مرد حضرات ہاتھ ملائے اور جپھا مارے بغیر مردانہ ملاقات مکمل نہیں سمجھتے۔اکثر ملکوں میں ہینڈ شیک اتنے زیادہ وقت میں مکمل ہوتا ہے جتنے وقت میں باداموں والا ملک شیک بن جائے۔ اسی طرح مردوں کی اسلامی دنیا میں جپھے والی ملاقات تین دفعہ میں مکمل ہوتی ہے۔ بزرگ‘ بچوں کا ماتھا چومنا ضروری سمجھتے ہیں۔ بڑوں کے سر پر شفقت والا ہاتھ رکھتے ہیں جبکہ افریقہ اور مڈل ایسٹ کے مسلمان مرد ملاقات میں چہرے کے دونوں جانب بوسہ لیتے ہیں جبکہ ان اسلامی ملکوں کے بادشاہ‘ امیر اور شہزادے ہاتھ پر بوسہ لیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لیڈیز کی بات دوسری ہے مگر وہ بھی گال سے گال مِلا کر ہی سوشل میٹنگ کرتی ہیں۔
ملکوں کو چلانے والے لیڈروں کے امتحان اس سے بھی بڑھ کرہیں جس کے کئی پہلو ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک مشکل ‘بلکہ نا ممکن بھی۔ کوئی کبڈی کھیلنے لگے ‘کچھ نے کرکٹ میچ رکھ لیا‘کسی پُر جوش مولوی نے اجتماع کر ڈالا۔ سیلفیاں اور تصویریں بنا کر امداد بانٹنے والے کسی ضرورت مند کے سر چڑھ دوڑے۔ کوئی دکان کھول کے رکھ دے‘ڈھابے چل پڑیں‘ٹرکوں کے اُوپر ترپال ڈال کر سواریاں بھر لی جائیں‘یہ سارے ذاتی گناہ اورکسی ایک فرد یا کچھ لوگوں کی جہالتیں ہو سکتی ہیں‘مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے کسی بھی انفرادی جُرم کا پہلا مجرم حکمران ہوگا۔ اس کے لیے نہ کسی ایف آئی آر کی ضرورت ہے نہ استغاثے کی۔ نہ گواہ چاہیے‘نہ جرح۔ کہاں کی وکالت اور کیسی عدالت‘یہ سارے کام کرنے کے لیے ایک عدد نیوز کاسٹر ہی کافی ہے۔
کروڑوں لوگوں کے لیے فوڈ چین برقرار رکھنا‘ کورونا ایج کے حکمرانوں کا دوسرا بڑا امتحان ہے۔امتحان کیا‘ چلتے سیلِنگ فین سے اُلٹا لٹک کر توازن برقرار رکھنے جیسا ہے۔ ٹرانسپورٹ بند رکھو‘ منڈیوں اور زراعت کے مراکز مت کھولو‘سوشل فاصلہ برقرار رکھو اورسبزی ‘دال‘ چاول‘ روٹی کی سپلائی جاری رکھ کے دکھاتے جائو۔ ذخیرہ اندوز مافیا ‘مہنگائی کے سنڈیکیٹ‘ منافع خور تاجر‘ ملاوٹ کرنے والے کاریگر ‘ ہر طرح کے اینٹی سوشل گروپس پر قابو کرنا صرف تمہارے ذمے ہے‘ جو غریبوں کی مصیبت کو ناجائز دولت اکٹھی کرنے کا غنیمت چانس سمجھتے ہیں۔ کاروبارِ سلطنت کے ساتھ ساتھ سٹاک ایکس چینج بھی تم نے ہی اونچا اڑانا ہے۔وہ بھی ایسے دور میں جب دنیا کے سب سے بڑے معاشی مراکز سُپر سانِک سپیڈ سے کریش کرنے جا رہے ہوں۔
کورونا تجربہ بتاتا ہے کہ حکمران بھی دوقسم کے ہیں۔ ایک جو کورونا سیاست کر رہے ہیں۔ دوسرے وہ جن کے خلاف کورونا سیاست ہو رہی ہے۔ جو کورونا سیاست کر رہے ہیں ان کا کام بڑا آسان ہے۔ سماجی فاصلے کے نام پر گھر سے باہر مت نکلو۔ ہر روز ایک عدد پریس کانفرنس بلوا لو جس میں '' اپنے بندے‘‘ رپورٹنگ کرنے آئیں۔ سوال نہ کرسکیں‘ صرف خطبہ سننے کی اہلیت سے مالا مال ہوں۔ قوم کے سامنے ایکشن ‘تھرل اور ٹریجڈی پر مبنی سیاسی اداکاری کرو ۔ ایسی اداکاری جو اپنوں کے لیے ٹاک شوز اور خبریں بنانے کا فوڈر پیدا کردے۔ نہ راشن تقسیم کرنے کی ضرورت ‘نہ غریبوں تک آنے جانے کی تکلیف ۔ نہ ماسک پہننے کی یادستانے چڑھانے کی ایکسرسائز کرنی پڑے۔کم خرچ پر زیادہ پبلسٹی اور اس سے زیادہ بچت۔ ایسے دو عدد کیس سٹڈی اپنے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ تفصیل میں کیوں جائوں صرف نام ہی کافی ہیں‘اور یہ دونوں نام کون نہیں جانتا۔ دوسرا کیس سٹڈی بتاتا ہے کہ اسے بڑھاپے نے لمبا ڈال رکھا ہے۔ جسم میں انرجی ہے نہ ہلنے جلنے کی طاقت۔ سوال سنائی ہی نہیں دے رہے اس لیے جواب کہاں سے لائوں۔ ڈاکٹر نے منع کردیا ہے کورونا کے دنوں میں حساب کتاب پر مت بولو۔ حساب کتاب سے وائرس پھیلتا ہے۔ جو کورونا سے لڑنے کے دعویدار ہیں وہ آج کل بیمار ہیں۔ قوم کے سب سے بڑے امتحان کے وقت ہِل جُل نہیں سکتے ۔ اپنی ضرورت پڑی تو اچھل کر دکھا دیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان میں ابھی تک صورتِ حال وہ نہیں جس کی پیشین گوئی ورلڈ بینک والے کرتے رہے۔برا سوچنے والے بُر ی خبروں کے ڈھیر لگاتے رہے۔ دونوں ٹیسٹ جاری ہیں۔صبر‘ اللہ کی رحمت پر ایمان اور اپنے اداروں پر اعتباررکھیں۔سوشل ڈسٹنس رکھیں ۔ با با کے کالج کے زمانے کے دوست شکیل اختر کا‘جو ہمارے گھر کئی بار مشاعرہ پڑھنے آئے ‘ تازہ شعرپیش ہے؎
شوق سے پوچھ حالِ دل سب کا
تیرے لہجے میں امتیاز نہ ہو​
 
Columnist
Abdullah Babar Awan

Back
Top