3-Dilchasp Waqiyat

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
تین دلچسپ واقعات
teen.jpg

انجینئر رحمیٰ فیصل
جنگی حکمت عملی کے ماہر نپولین کو ایک مرتبہ خرگوشوں کے حملے کے بعد پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی، یہ طاقت ور جنرل اس وقت بہت ہی گھبرا گیا تھا جب خرگوشوں کی ’’منظم فوج‘‘ نے اس کی ٹانگوں اور جیکٹ پر حملہ کر دیا تھا ۔ وہ اپنی فوج کے ساتھ تھا، سینئر افسر بھی ساتھ تھے لیکن وہ بھی کچھ نہ کر سکے۔ نپولین نے حملہ آور خرگوشوں سے جان چھڑانے کے لئے کار میں بیٹھ کر ’’فرار‘‘ ہونے میں ہی عافیت جانی ورنہ گولیوں کی ٹھاہ ٹھاہ میں بھی خرگوش ڈٹے ہوئے تھے! واقعہ یوں ہے کہ اس مایہ ناز جنرل کو خرگوش کا گوشت بہت پسند تھا، تازہ تازہ گوشت کھانے کے لئے جنگی علاقے میں اس نے خرگوشوں کی ایک ’’فوج‘‘ پالنے کا حکم دے رکھا تھا۔ سپاہیوں نے بھی حکم کی تعمیل کی اور پنجروں میں کم از کم 3ہزار خرگوش پال لئے۔ ایک روز نپولین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سینئر افسروں کے ساتھ وہاں کھانا کھائیں گے۔ وہ خرگوش بھی خود ہی شکار کریں گے۔ پارٹی شروع شروع میں تو اچھی تھی، منظر قابل دید تھا۔ ابھی انہوں نے چندہی فائر کئے ہوں گے کہ اچانک خرگوشوں نے دور بھاگنے کی بجائے جنرل پر ہی ’’حملہ ‘‘ کر دیا۔ انہوں نے پلٹ کر نپولین کو ’’آڑے ہاتھوں لیا‘‘۔ لمبے کانوں والے جانوروں کی یہ ’’فوج‘‘ دشمن فوج سے بھی زیادہ تیزی سے دنیا کے ایک بڑے جنرل کو گھیرے میں لینے میں کامیاب ہو گئی، بس پھر کیا تھا، کئی خرگوش جنرل کی ٹانگوں سے لپٹ گئے، چند ایک نے جیکٹ پر چڑھنے کی جسارت کر ڈالی۔کچھ نے ان کے کپڑے کترنا شروع کر دیئے۔ جنر ل کو بچانے کے لئے سپاہیوں نے دوسرے خرگوشوں پر مزید گولیاں چلائیں لیکن خرگوش ٹس سے مس نہ ہوئے۔ نپولین نے پہلے پہل تو خرگوشوں کو اپنی چھڑی سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ڈٹے رہے۔ محاصرہ ختم کرانے کے لئے کئی جنرل پیچھے کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے لیکن خرگوشوں نے بھی پیچھا کیا۔نپولین دوڑ کر اپنی کار میں سوار ہو گئے۔ مؤرخ ڈیوڈ چانڈلر کے مطابق ۔۔۔’’بات یہیں پر بھی ختم نہ ہوئی، خرگوشوں کا ’’دستہ‘‘ کسی سیلاب کی مانند آگے بڑھ رہا تھا، کچھ تو نپولین کی کار کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ان سے کار کے فراٹے بھرنے کے بعد ہی جان چھوٹی‘‘۔ نپولین کا سارا مزہ کرکرا ہو
گیا ۔ بعد میں نپولین نے ان خرگوشوں کو کھا ہی لیا ہو گا

دس سالہ شہزادے کا دل

لوئس چارلس ڈی فرانس
لوئس XVI کا پیارا بیٹا تھا، سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے لوئس نے بہت ہی برے دن دیکھے۔ انقلاب فرانس کے بعد بادشاہت کا خاتمہ ہوتے ہی چارلس لوئس XVII کو جیل میں قید کر دیا گیا۔ وہ صرف آٹھ برس کا تھا جب یہ افتاد پڑی۔کم سنی میں وہ پوری طرح بادشاہت کو انجوائے بھی نہیں کر پایا تھا کہ قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ دوران حراست اس کے والدین کو 1793ء میں پھانسی دے دی گئی۔ ننھے لوئس کو انقلابیوں نے ہراساں کیا، کوئی اسے بھیڑیوں کا بیٹا کہتا تو کسی نے ظالم و جابر کہہ کر پکارا۔ کئی مرحلوں پر اسے تشدد سے بھی گزرنا پڑا۔ اسے پیرس ٹمپل نامی جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا، جہاں وہ کئی کئی مہینے اکیلا پڑا رہتا ، کوئی بات تک نہ کرتا۔ سیل میں ہر وقت اندھیرا رہتا، سورج کی کرنیں بھی اس کی سیل نامی کوٹھری سے دور دور رہتی تھیں۔ گرفتاری کے بعد چارلس لوئسXVII کی موت بہت ہی پُراسرار تھی۔ شائد تنہائی، گندے ماحول اور کھانوں سے اسے ٹی بی جیسے مہلک مرض نے آلیا تھا۔ تخت و تاراج کا یہ وارث جیل کی سلاخوں کے پیچھے خون تھوکتے تھوکتے 10سال کی عمرمیں 1795ء میں اس ظالم دنیا سے چلا گیا۔ یہ بات بھی راز رہتی اگر ایک دن جیلر اس کی حالت پر ترس کھا کر ڈاکٹر کو نہ بلاتا۔ کال کوٹھری خون سے تر ہونے پر جیلر نے ڈاکٹر فلپ ژاں پلاتاں کو بلوا لیا۔ ڈاکٹر 10 سالہ قیدی کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔ لیکن بہت وقت گزر چکا تھا، اسی حالت میں چارلس لوئس نے 8 جون کو ڈاکٹر کے ہاتھوں میں دم توڑا۔ ڈاکٹر پلاتاں نے معصوم پر تشدد اور جبر کی تصدیق کی جس کے بعد قوم میں ہمدردی کے کچھ جذبات بیدار ہوئے۔بادشاہوں کا دل محفوظ کرنے کی روایت پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹر نے چپکے سے اس کا دل سینے سے نکال کر محفوظ کر لیا۔ جیلر نے اس قریبی قبرستان میں دوسری گمنام قبروں کے ساتھ خاموشی سے مٹی میں سلا دیا۔ المناک موت کا سن کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، گھبرا کر جیلر نے سرکاری حکم پر اس کی بہن کو رہا کر دیا۔ اسی دور میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ فرانس میں بادشاہت بحال ہونے والی ہے، اسی لئے کم از کم 100افراد نے لوئس چارلسXVII ہونے کا دعویٰ کر دیا حالانکہ وہ تو مر چکا تھا۔ وہ سب کے سب بادشاہ بننے کے خواہش مند تھے۔انہی دعوے داروں میں معروف شخصیت بھی شامل تھی۔
ریگن کا ستاروں کی چالوں پر یقین

سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن ستارہ شناس تو نہ تھے البتہ ستاروں کی چالوں پر یقین رکھتے تھے، ان کے خیال میں ستاروں کی چالیں روزمرہ کے معمولات کو طے کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔ یہ تو سائنس دان بھی کہتے ہیں کہ سیلاب اور طوفانوں پر ستاروں کا اثر ہوتا ہے، لیکن ریگن یہ بھی سمجھتے تھے کہ ستاروں کی مدد سے ہم جان سکتے ہیں کہ اچھا یا برا وقت کب آسکتا ہے۔ وائٹ ہائوس کی ترجمان مارلن فٹس واٹر نے بھی کئی مرتبہ ستاروں کو پڑھنے کی بابت بات کی تھی۔ وائٹ ہائوس کے دو ترجمانوں نے اس امر کی تصدیق بھی کی تھی کہ سابق امریکی صدر اپنی مصروفیات متعین کرتے وقت ستاروں کی چالوںکو پیش نظر رکھتے تھے۔ لیکن جب سابق صدر ریگن سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے سیاسی اور حکومتی فیصلے کرتے وقت ستاروں کی چالوں کو پیش نظر رکھتے ہیں تو انہوں نے برملا کہا ’’امریکی ایوان صدر میں تمام فیصلے صرف اور صرف سرکاری فائلوں کے مطابق کئے جاتے ہیں ان کا فلکیات سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ ریگن نے پریس کانفرنس میںدو ٹوک الفاظ میں کہا تھا ’’میرا کوئی ایک فیصلہ بھی ستاروں کی چالوں کے مطابق نہیں‘‘۔ اس کے برعکس کیلے فورنیا کے ماہر ستار ہ شناس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا … ’’ریگن انتظامیہ کے دور میں ستاروں کی چالوں کے بارے میں ان سے بھی پوچھا جاتا تھا۔ کچھ ستارہ شناسوں نے کہا ہے کہ سابق صدر نے ستاروں کا زاویہ دیکھ کر ہی اپنی امیدواری کا اعلان کیا تھا۔ جیسے ہی انہیں اپنی کامیابی کی امید ہوئی، انہوں نے مناسب وقت دیکھتے ہی امیدواری کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کیلے فورنیا کے گورنرکاحلف اٹھانے کے لئے 12بج کر 10منٹ کے عجیب وقت کا تعین کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ منفرد ٹائم بھی ستاروں کے مطابق ہی رکھا گیا تھا۔ ایک مرتبہ توفٹس واٹر نے بھی پریس بریفنگ کا ٹائم 12:33 مقرر کر لیا تھا۔ ذرا سوچئے، یہ بھی کوئی وقت ہے! ایسا ستارہ شناس کے کہنے پر ہی کیا گیا تھا تاکہ پریس کانفرنس میں کوئی تلخ سوال نہ ہو۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیف وہپ ٹونی کولہو نے ایک مرتبہ تجارتی بل پر بحث کرتے ہوئے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ بل کی مخالفت اس لئے کی جا رہی ہے کہ شائد انہیں کسی نے کہا ہوگا! یہ بتایا ہو گا کہ آج مخالفت کرنے میں ہی فائدہ ہے۔ مگر مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے کسی سے تو مشورہ کیا۔ سابق صد ریگن اپنی تقریروں میں بھی لکی نمبرز کا ذکر کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی شریک حیات بھی ستاروں میں دل چسپی رکھتی تھیں۔ فٹس واٹر نے اس کی تصدیق یوں کی’’مارچ 1981ء میں سابق صدر پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس کے بعد سے مسز ریگن ستاروں میں بھی دل چسپی لینے لگی تھیں ‘‘۔ا س سلسلے میں ستارہ شناس ان کے ارد گرد رہتے تھے۔ مسز ریگن کی خواہش تھی کہ ستاروں سے ان کے شوہر کے بارے میں کچھ معلوم ہو جائے تو اچھا ہے۔ وہ اپنے شوہر کے بارے میں متفکر رہتی تھیں۔
 

جنگی حکمت عملی کے ماہر نپولین کو ایک مرتبہ خرگوشوں کے حملے کے بعد پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی، یہ طاقت ور جنرل اس وقت بہت ہی گھبرا گیا تھا جب خرگوشوں کی ’’منظم فوج‘‘ نے اس کی ٹانگوں اور جیکٹ پر حملہ کر دیا تھا ۔ وہ اپنی فوج کے ساتھ تھا، سینئر افسر بھی ساتھ تھے لیکن وہ بھی کچھ نہ کر سکے۔ نپولین نے حملہ آور خرگوشوں سے جان چھڑانے کے لئے کار میں بیٹھ کر ’’فرار‘‘ ہونے میں ہی عافیت جانی ورنہ گولیوں کی ٹھاہ ٹھاہ میں بھی خرگوش ڈٹے ہوئے تھے! واقعہ یوں ہے کہ اس مایہ ناز جنرل کو خرگوش کا گوشت بہت پسند تھا، تازہ تازہ گوشت کھانے کے لئے جنگی علاقے میں اس نے خرگوشوں کی ایک ’’فوج‘‘ پالنے کا حکم دے رکھا تھا۔ سپاہیوں نے بھی حکم کی تعمیل کی اور پنجروں میں کم از کم 3ہزار خرگوش پال لئے۔ ایک روز نپولین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سینئر افسروں کے ساتھ وہاں کھانا کھائیں گے۔ وہ خرگوش بھی خود ہی شکار کریں گے۔ پارٹی شروع شروع میں تو اچھی تھی، منظر قابل دید تھا۔ ابھی انہوں نے چندہی فائر کئے ہوں گے کہ اچانک خرگوشوں نے دور بھاگنے کی بجائے جنرل پر ہی ’’حملہ ‘‘ کر دیا۔ انہوں نے پلٹ کر نپولین کو ’’آڑے ہاتھوں لیا‘‘۔ لمبے کانوں والے جانوروں کی یہ ’’فوج‘‘ دشمن فوج سے بھی زیادہ تیزی سے دنیا کے ایک بڑے جنرل کو گھیرے میں لینے میں کامیاب ہو گئی، بس پھر کیا تھا، کئی خرگوش جنرل کی ٹانگوں سے لپٹ گئے، چند ایک نے جیکٹ پر چڑھنے کی جسارت کر ڈالی۔کچھ نے ان کے کپڑے کترنا شروع کر دیئے۔ جنر ل کو بچانے کے لئے سپاہیوں نے دوسرے خرگوشوں پر مزید گولیاں چلائیں لیکن خرگوش ٹس سے مس نہ ہوئے۔ نپولین نے پہلے پہل تو خرگوشوں کو اپنی چھڑی سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ڈٹے رہے۔ محاصرہ ختم کرانے کے لئے کئی جنرل پیچھے کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے لیکن خرگوشوں نے بھی پیچھا کیا۔نپولین دوڑ کر اپنی کار میں سوار ہو گئے۔ مؤرخ ڈیوڈ چانڈلر کے مطابق ۔۔۔’’بات یہیں پر بھی ختم نہ ہوئی، خرگوشوں کا ’’دستہ‘‘ کسی سیلاب کی مانند آگے بڑھ رہا تھا، کچھ تو نپولین کی کار کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ان سے کار کے فراٹے بھرنے کے بعد ہی جان چھوٹی‘‘۔ نپولین کا سارا مزہ کرکرا ہو
گیا ۔ بعد میں نپولین نے ان خرگوشوں کو کھا ہی لیا ہو گا
Seeking a better way to feed his troops, Napoleon launched a contest that changed the way people eat to this day
All in all, you might say, it was a bad hare day...:) Thanx for sharing


لوئس XVI کا پیارا بیٹا تھا، سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے لوئس نے بہت ہی برے دن دیکھے۔ انقلاب فرانس کے بعد بادشاہت کا خاتمہ ہوتے ہی چارلس لوئس XVII کو جیل میں قید کر دیا گیا۔ وہ صرف آٹھ برس کا تھا جب یہ افتاد پڑی۔کم سنی میں وہ پوری طرح بادشاہت کو انجوائے بھی نہیں کر پایا تھا کہ قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ دوران حراست اس کے والدین کو 1793ء میں پھانسی دے دی گئی۔ ننھے لوئس کو انقلابیوں نے ہراساں کیا، کوئی اسے بھیڑیوں کا بیٹا کہتا تو کسی نے ظالم و جابر کہہ کر پکارا۔ کئی مرحلوں پر اسے تشدد سے بھی گزرنا پڑا۔ اسے پیرس ٹمپل نامی جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا، جہاں وہ کئی کئی مہینے اکیلا پڑا رہتا ، کوئی بات تک نہ کرتا۔ سیل میں ہر وقت اندھیرا رہتا، سورج کی کرنیں بھی اس کی سیل نامی کوٹھری سے دور دور رہتی تھیں۔ گرفتاری کے بعد چارلس لوئسXVII کی موت بہت ہی پُراسرار تھی۔ شائد تنہائی، گندے ماحول اور کھانوں سے اسے ٹی بی جیسے مہلک مرض نے آلیا تھا۔ تخت و تاراج کا یہ وارث جیل کی سلاخوں کے پیچھے خون تھوکتے تھوکتے 10سال کی عمرمیں 1795ء میں اس ظالم دنیا سے چلا گیا۔ یہ بات بھی راز رہتی اگر ایک دن جیلر اس کی حالت پر ترس کھا کر ڈاکٹر کو نہ بلاتا۔ کال کوٹھری خون سے تر ہونے پر جیلر نے ڈاکٹر فلپ ژاں پلاتاں کو بلوا لیا۔ ڈاکٹر 10 سالہ قیدی کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔ لیکن بہت وقت گزر چکا تھا، اسی حالت میں چارلس لوئس نے 8 جون کو ڈاکٹر کے ہاتھوں میں دم توڑا۔ ڈاکٹر پلاتاں نے معصوم پر تشدد اور جبر کی تصدیق کی جس کے بعد قوم میں ہمدردی کے کچھ جذبات بیدار ہوئے۔بادشاہوں کا دل محفوظ کرنے کی روایت پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹر نے چپکے سے اس کا دل سینے سے نکال کر محفوظ کر لیا۔ جیلر نے اس قریبی قبرستان میں دوسری گمنام قبروں کے ساتھ خاموشی سے مٹی میں سلا دیا۔ المناک موت کا سن کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، گھبرا کر جیلر نے سرکاری حکم پر اس کی بہن کو رہا کر دیا۔ اسی دور میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ فرانس میں بادشاہت بحال ہونے والی ہے، اسی لئے کم از کم 100افراد نے لوئس چارلسXVII ہونے کا دعویٰ کر دیا حالانکہ وہ تو مر چکا تھا۔ وہ سب کے سب بادشاہ بننے کے خواہش مند تھے۔انہی دعوے داروں میں معروف شخصیت بھی شامل تھی۔
very interesting...I have read about him....As the years passed, the speculation continued. Thousands of articles and 600 books have been written about this mystery. The most authoritative are by a French historian and an American journalist. Philippe Delorme, the recognized expert on this story, tells a fascinating tale of mystery and conspiracy and pretenders. Recently Delorme has updated his book (originally L’affaire Louis XVII), Louis XVII: the Truth, now available in English. A new American book by journalist Deborah Cadbury also tells the story (the Lost King of France: How DNA Solved the Mystery of the Murder of the Son of Louis XVI and Marie Antoinette). ..Thanx for sharing


سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن ستارہ شناس تو نہ تھے البتہ ستاروں کی چالوں پر یقین رکھتے تھے، ان کے خیال میں ستاروں کی چالیں روزمرہ کے معمولات کو طے کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔ یہ تو سائنس دان بھی کہتے ہیں کہ سیلاب اور طوفانوں پر ستاروں کا اثر ہوتا ہے، لیکن ریگن یہ بھی سمجھتے تھے کہ ستاروں کی مدد سے ہم جان سکتے ہیں کہ اچھا یا برا وقت کب آسکتا ہے۔ وائٹ ہائوس کی ترجمان مارلن فٹس واٹر نے بھی کئی مرتبہ ستاروں کو پڑھنے کی بابت بات کی تھی۔ وائٹ ہائوس کے دو ترجمانوں نے اس امر کی تصدیق بھی کی تھی کہ سابق امریکی صدر اپنی مصروفیات متعین کرتے وقت ستاروں کی چالوںکو پیش نظر رکھتے تھے۔ لیکن جب سابق صدر ریگن سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے سیاسی اور حکومتی فیصلے کرتے وقت ستاروں کی چالوں کو پیش نظر رکھتے ہیں تو انہوں نے برملا کہا ’’امریکی ایوان صدر میں تمام فیصلے صرف اور صرف سرکاری فائلوں کے مطابق کئے جاتے ہیں ان کا فلکیات سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ ریگن نے پریس کانفرنس میںدو ٹوک الفاظ میں کہا تھا ’’میرا کوئی ایک فیصلہ بھی ستاروں کی چالوں کے مطابق نہیں‘‘۔ اس کے برعکس کیلے فورنیا کے ماہر ستار ہ شناس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا … ’’ریگن انتظامیہ کے دور میں ستاروں کی چالوں کے بارے میں ان سے بھی پوچھا جاتا تھا۔ کچھ ستارہ شناسوں نے کہا ہے کہ سابق صدر نے ستاروں کا زاویہ دیکھ کر ہی اپنی امیدواری کا اعلان کیا تھا۔ جیسے ہی انہیں اپنی کامیابی کی امید ہوئی، انہوں نے مناسب وقت دیکھتے ہی امیدواری کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کیلے فورنیا کے گورنرکاحلف اٹھانے کے لئے 12بج کر 10منٹ کے عجیب وقت کا تعین کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ منفرد ٹائم بھی ستاروں کے مطابق ہی رکھا گیا تھا۔ ایک مرتبہ توفٹس واٹر نے بھی پریس بریفنگ کا ٹائم 12:33 مقرر کر لیا تھا۔ ذرا سوچئے، یہ بھی کوئی وقت ہے! ایسا ستارہ شناس کے کہنے پر ہی کیا گیا تھا تاکہ پریس کانفرنس میں کوئی تلخ سوال نہ ہو۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیف وہپ ٹونی کولہو نے ایک مرتبہ تجارتی بل پر بحث کرتے ہوئے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ بل کی مخالفت اس لئے کی جا رہی ہے کہ شائد انہیں کسی نے کہا ہوگا! یہ بتایا ہو گا کہ آج مخالفت کرنے میں ہی فائدہ ہے۔ مگر مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے کسی سے تو مشورہ کیا۔ سابق صد ریگن اپنی تقریروں میں بھی لکی نمبرز کا ذکر کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی شریک حیات بھی ستاروں میں دل چسپی رکھتی تھیں۔ فٹس واٹر نے اس کی تصدیق یوں کی’’مارچ 1981ء میں سابق صدر پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس کے بعد سے مسز ریگن ستاروں میں بھی دل چسپی لینے لگی تھیں ‘‘۔ا س سلسلے میں ستارہ شناس ان کے ارد گرد رہتے تھے۔ مسز ریگن کی خواہش تھی کہ ستاروں سے ان کے شوہر کے بارے میں کچھ معلوم ہو جائے تو اچھا ہے۔ وہ اپنے شوہر کے بارے میں متفکر رہتی تھیں۔

Thanx for sharing
 
@intelligent086
تین دلچسپ واقعات میں سے ایک تو انتہا تکلیف دہ ہے یہاں بھی انقلاب فرانس کی مثالیں تو بہت دی جاتی ہیں

لگتا ہے ان میں سے کسی نے پڑھا نہیں
ریگن نوں چھڈو
پہلا مزاحیہ ہے
 
Back
Top