7 Lakes That Are Drying Up Written By: John P. Rafferty , Translated in Urdu......

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
خشک ہونے والی 7بڑی جھیلیں
7lakes.jpg

جان ریفرٹی
دنیا کے کس علاقے میں ہر سال کتنی بارش ہوتی ہے، اس کا انحصار اس امر ہے کہ وہ کہاں واقع ہے۔ کیا وہ صحرائی علاقہ ہے (جہاں بہت کم بارش ہوتی ہے)؟ یا برساتی جنگل (جہاں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے)؟ یا پھر ان دو انتہاؤں کے درمیان؟ عام طور پر بارش کا پانی زمینی سطح سے سمندروں میں چلا جاتا ہے، لیکن یہ جھیلوں میں بھی جمع ہوتا ہے۔ بارش والے علاقوں میں جھیلوں میں پانی کم و بیش مستقل رہتا ہے، تاہم خشک علاقوں میں اس میں زیادہ کمی بیشی ہوتی ہے اور بارش کے ہونے یا نہ ہونے کا اثر بھی زیادہ پڑتا ہے۔ انسانوں کی طرف سے پانی نکالنے یا نہ نکالنے سے بھی یہ متاثر ہوتی ہیں۔ ذیل میں بعض ایسی جھیلوں کی فہرست دی جا رہی ہے جو مؤخرالذکر زمرے میں آتی ہیں۔

جھیل پووپو
: یہ جھیل بولیویا میں ہے اور سطح سمندر سے 12,090 فٹ بلند سطح مرتفع پر واقع ہے۔ تاریخی طور پر یہ ملک کی دوسری بڑی اور تقریباً 2,530 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی جھیل تھی۔ یہ 90 کلومیٹر لمبی،32 کلومیٹر چوڑی اور صرف آٹھ سے 10 فٹ گہری تھی، لیکن دسمبر 2015ء تک یہ مکمل طور پر خشک ہو گئی۔ ایسا موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی خشک سالی اور مقامی کان کنی سے فضلے کے اجتماع دونوں کے مجموعی اثر سے ہوا۔ 1990ء کی دہائی سے عالمی حدت میں اضافے نے خطے کا درجہ حرارت بڑھا دیا اور جھیل سے پانی کی تبخیر کا عمل تین گنا بڑھ گیا۔ مناسب وقفوں سے بارش نہ ہونے سے پانی کم ہوتا گیا اور بالآخر جھیل خشک ہو گئی جس کے علاقے کے پودوں اور درختوں کے ساتھ انسانوں پر تباہ کن اثرات پڑے۔ اس جھیل کے ساحل پر آباد ماہی گیروں کو دوسرے مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔
جھیل ائیر

: اس جھیل کا دوسرا نام کاٹی ٹھنڈا-ائیر جھیل ہے۔ یہ عظیم نمکین جھیل ’’جنوبی آسٹریلیا‘‘ کے وسط میں ہے اور اس کا رقبہ 11,088 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ عظیم آرٹیزین طاس کے جنوب مغربی کونے پر ہے۔ یہ طاس 1,140,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہے۔ یہاں موسمی ندی نالے بہتے ہیں۔ اس جھیل میں براعظم آسٹریلیا کا سب سے نشیبی مقام واقع ہے جو سطح سمندر سے بھی 50 فٹ نیچے ہے۔ جھیل کی سطح پرتبخیرشدہ پانی کے نمک کی پتلی تہہ جم جاتی ہے۔ یہ جھیل زیادہ تر خشک رہتی ہے اور کبھی کبھار پوری بھر جاتی ہے، تاہم پانی کی جزوی اور تھوڑی بھرائی اکثر ہوتی رہتی ہے۔ مکمل بھر جانے پر اسے خشک ہونے میں دو سال لگتے ہیں۔ اس علاقے میں بارش بہت تھوڑی اور سالانہ پانچ انچ سے کم ہوتی ہے، نیز پانی کی تبخیر بہت تیزی سے ہوتی ہے اس لیے بہت سے دریا یہاں پہنچنے سے پہلے خشک ہو جاتے ہیں۔
ارال جھیل
: یہ خشکی پر پانی کا چوتھا بڑا ذخیرہ ہوا کرتی تھی، گویا یہ خشکی میں گھرا ایک بحیرہ ہے جسے کئی دیگر ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ خشک ہوتی اس جھیل کے باقی بچ جانے والے حصے وسطی ایشیا کے ان علاقوں میں ہیں جہاں موسم انسان کو آباد ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے جنوب میں بحیرہ کیسپین ہے۔ اس جھیل کے پانی میں تیزرفتار کمی سائنس دانوں کے لیے انتہائی دلچسپی اور تشویش دونوں کا باعث بنی۔ یہ عمل بیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوا اور اکیسویں صدی میں جاری رہا۔ بنیادی تبدیلی زراعت کی خاطر دریائے سر اور دریائے آمو کا رخ موڑنے سے ہوئی۔ یہ دریا ارال جھیل میں گرتے تھے اور جھیل کو بیشتر پانی انہیں سے ملتا تھا۔ جھیل کے تیزی سے خشک ہونے سے خطے میں بہت سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہوئے۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر تک جھیل کا پانی 1960ء سے قبل کی نسبت نصف سے بھی کم رہ گیا۔ نتیجتاً پانی میں نمک اور معدنیات کی مقدار میں ڈرامائی اضافہ ہوا اور یہ پینے کے قابل نہ رہا۔ اس میں پائی جانے والی آبی مخلوق جیسا کہ مچھلیاں ہلاک ہو گئیں۔ 1960ء میں جھیل 68,000 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی۔
جھیل میڈ
: یہ انسان کی بنائی سب سے بڑی جھیلوں میں شامل ہے۔ یہ امریکا میں ریاست ایریزونا اور نیواڈا کی سرحد پر ہوور ڈیم کا ذخیرۂ آب ہے۔ اسے دریائے کولوراڈو کا پانی روک کر بنایا گیا۔ اس میں 31,047,000 ایکٹر فٹ پانی کی گنجائش ہے۔ اس کا ساحل 885 کلومیٹر اور سطح 593 مربع کلومیٹر ہے۔ امریکا کے جنوب مغرب میں اکیسویں صدی کے اوائل میں کئی برسوں پر محیط خشک سالی سے اس کے پانی کی سطح 120 فٹ گر گئی۔ مصنوعی سیارے کی مدد سے معلوم ہوا کہ یہ کمی 2000ء سے 2015ء کے درمیان ہوئی۔
جھیل چاڈ

: یہ وسطی افریقہ کے مغربی ’’ساحلی‘‘ علاقے میں چاڈ، کیمرون، نائیجیریا اور نائیجر کے سنگم پر تازہ پانی کی جھیل ہے۔ یہ جہاں ہے وہاں قدیم زمانے میں ایک بڑا سمندر ہوا کرتا تھا۔ تاریخی طور پر یہ افریقہ کی سب سے بڑی جھیلوں میں سے ہے۔ اس میں پانی کی مقدار موسم اور سال کے لحاظ سے بہت بدلتی رہتی ہے۔ جب سطح جھیل، سطح سمندر سے 920 فٹ بلند ہوتی ہے تو اس کا رقبہ 17,800 مربع کلومیٹر ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں یہ رقبہ 15,00 مربع کلومیٹر کے لگ بھگ رہتا تھا۔ جھیل چاڈ میں پانی بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ اکتوبر کے آخر اور نومبر کے شروع میں اس میں پانی کی سطح سب سے زیادہ ہوتی ہے اور اپریل کے آخر اور مئی کے شروع میں یہ مقدار نصف سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ اس میں ذخیرۂ آب کا انحصار بارشوں اور دریاؤں کے پانی پر ہے۔ جھیل کے پانی کی مقدار کم ہو رہی ہے۔
جھیل ارومیہ
: یہ جھیل ایرا ن کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی جھیل ہے اور تاریخی طور پر 5,200 سے 6,000 مربع کلومیٹر پر محیط رہی۔ یہ آذربائیجان اور شمال مغربی ایران کے ایک وسیع نشیبی علاقے میں واقع ہے تاہم اس کی بلندی سطح سمندر سے 4183 فٹ ہے۔ 1970ء میں اپنے جوبن پر یہ جھیل 140 کلومیٹر لمبی اور 40 سے 55 کلومیٹر چوڑی تھی اور اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 53 فٹ تھی۔ اس جھیل کا پانی کہیں بہہ کر نہیں جاتا لہٰذا اس میں کلورین، سوڈیم اور سلفیٹ جیسے نمک بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ 1967ء سے اسے محفوظ علاقہ کا درجہ دے دیا گیا اور ایرانی حکومت کی کوششوں سے یہاں جنگلی حیات میں اضافہ ہوا۔ البتہ اس کی سطح کا رقبہ 1970ء کی دہائی کی نسبت 90 فیصد کے قریب گھٹ گیا ہے۔ ایسا ان دریاؤں پر ڈیم بننے سے باعث ہوا ہے جن کا پانی اسے بھرتا تھا۔
بحیرہ مردار
: یہ اسرائیل؍فلسطین اور اردن کے درمیان ایک نمکین جھیل ہے۔ اس کا ایک حصہ فلسطینی مغربی کنارے سے ملتا ہے اور 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ بحیرہ مردار سطح زمین پر پانی کا سب سے نشیبی ذخیرہ ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں کئی دہائیوں تک اس جھیل کی سطح آب، سطح سمندر سے 1,300 فٹ نیچے تھی۔ 1960ء میں اسرائیل اور اردن نے دریائے اردن کے بیشتر پانی کا رخ بدل دیا اور جھیل کے پانی کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگے۔ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں جھیل کا پانی کم ہو گیا۔ 2010ء کی دہائی کے وسط میں بیسویں صدی کے وسط کی نسبت پانی کی سطح 100 فٹ سے بھی زیادہ گر چکی تھی۔ اس کی سطح میں سالانہ تین فٹ کی کمی ہو رہی ہے۔ (ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا)
 

Back
Top