Aadmi jo kehta hai aadmi jo sunta hai By Imran Yaqoob Khan Column

آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے ۔۔۔۔۔۔ عمران یعقوب خان

حسب معمول آج کے اخبارات پر صبح سویرے نظر دوڑائی تو تقریباً تمام نمایاں خبریں وہی تھیں جو رات کو نیوز چینلز کے خبرناموں میں شامل تھیں۔ ان میں ایک خبر وزیر اعظم عمران خان کی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کی تھی۔ اس گفتگو میں وزیر اعظم نے مہنگائی اور سیاست سمیت ہر قابل ذکر موضوع پر بات کی لیکن زیادہ اہم بات ان کا مولانا فضل الرحمن سے متعلق بیان ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر آئین کے آرٹیکل 6 کا مقدمہ ہونا چاہیے، وہ کہتے ہیں‘ ہمیں اشارہ دیا گیا تھا کہ حکومت گرا دی جائے گی‘ اس بیان پر تو آر ٹیکل چھ لگتا ہے‘ معلوم کیا جائے کہ انہیں کس نے اشارہ کیا تھا۔
ایک خبر جو نیوز چینلز کے بلیٹنز کا حصہ نہیں تھی، وہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپنے ساتھیوں کی نگرانی کی خبر ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ ارکان اور قریبی ساتھیوں کی سرگرمیوں سے باخبر رہنے کیلئے اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس مقصد کیلئے وفاقی خفیہ ایجنسی کو ڈیوٹی سونپ دی ہے اور اسے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ منفی سرگرمیوں کے حوالے سے انہیں باخبر رکھے۔ وزیر اعظم نے منگل کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں ایک مشیر کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا۔ وزیر اعظم کو مفصل خفیہ رپورٹس موصول ہو رہی ہیں۔ اسی طرح وزیر اعظم کے ایک قریبی ساتھی کے ساتھ بھی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم کو موصول سکیورٹی رپورٹس میں بعض وزراء کو بہت مخلص بھی قرار دیا گیا ہے۔
بظاہر ان خبروں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا لیکن یہ دو خبریں ملا کر دیکھی جائیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آج بھی حکومتوں کا مزاج زمانہ قبل از تاریخ جیسا ہے، جب وفاداری ہی سب کچھ تھی۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ بنتا ہے یا یہ صرف ایک دھمکی ہے؟ یہ تو آنے والے دنوں میں ہی واضح ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف آرٹیکل چھ یعنی بغاوت کا مقدمہ حکومت مخالف دھرنے اور کسی طاقتور حلقے کی طرف سے یقین دہانی کے بعد مولانا کے دھرنے سے اٹھ جانے کے حالات پر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ماضی میں طاقتور حلقوں کے ساتھ کس کس نے گٹھ جوڑ کیا؟ اصغر خان کیس کیا تھا؟ اسلام آباد میں طویل ترین دھرنا کیوں دیا گیا تھا اور کس کے کہنے پر دیا گیا تھا؟ روزانہ امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کس کو تھا؟ امپائر کون تھا؟ اس بحث میں الجھنے کا فائدہ نہیں، ووٹروں کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں ہوتا۔
ماضی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی حکومتوں کو سکیورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا۔ اس طرح کے بیانات دینے اور اس تاثر کو پختہ کرنے والے دراصل ان دونوں سیاسی حکومتوں کو ہی غدار قرار دینے کی کوشش کرتے رہے۔ غدار کون ہوتا ہے؟ غداری کیا ہے؟ اختلاف رائے اور غداری میں کیا فرق ہے؟ دراصل یہ وہ مسئلہ ہے جس نے پوری دنیا میں غداری کی ایک فیکٹری بنا دی ہے۔ ترقی یافتہ ملک ہوں یا تھرڈ ورلڈ، غداری اور حب الوطنی کی ایسی بحث چھڑی ہے کہ الامان و الحفیظ۔
غداری کی سزا صدیوں سے موت ہے، اور بادشاہوں کے ساتھ وفاداری نہ نبھانے والوں کو غدار قرار دے کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا ہے۔ انسانی ترقی کے ساتھ سیاسی تصورات نے بھی ترقی کی اور بادشاہتوں کی جگہ قومی حکومتوں نے لی تو غداری کا تصور بھی تبدیل ہوا اور بادشاہ سے وفاداری کی بجائے ریاست سے وفاداری لازم قرار پائی۔انیس سو تہتر کا آئین تشکیل دیا گیا تو اس میں آئین کے تحفظ کیلئے ایک شق رکھی گئی جسے آرٹیکل چھ کا نام دیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت آئین کو توڑنے اور ایسا کرنے والے کے مددگار تمام افراد اس جرم میں برابر کے شریک تصور کیے جائیں گے، جس کی سزا پارلیمنٹ نے عمر قید یا موت تجویز کی ہے۔ آئین میں آرٹیکل چھ کی تین ضمنی دفعات ہیں:
۔(1) کوئی فرد جو تنسیخ کرے یا ایسا کرنے کی سازش کرے، آئین کو توڑے یا ایسا کرنے کو کوشش یا سازش کرے، طاقت کے ذریعے، طاقت دکھا کر یا کسی دوسرے غیر آئینی طریقے سے، وہ سنگین بغاوت کا مجرم ہو گا۔
۔(2) ایسا فرد جو مدد یا تعاون کرے اس اقدام کی جو شق نمبر ایک میں درج ہے، وہ بھی سنگین بغاوت کا مجرم ہو گا۔
۔(3) مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ اس جرم میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے تحت سزا تجویز کرے گی۔
پاکستان میں آئین کے تحفظ کے لیے اس شق کی ضرورت کیوں پڑی، یہ جاننے کے لیے کسی لمبی چوڑی ریسرچ کی ضرورت نہیں، پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی حکومتیں گرانے اور بنانے کا جو عمل شروع ہوا، انیس سو تہتر کے آئین کے خالق اس پر بریک لگانا چاہتے تھے۔ آئین کے خالقوں کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور آئین کو توڑا جاتا رہا۔ حال ہی میں آرٹیکل چھ کے مقدمے کا کیا حشر ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اب اگر کوئی سازش دوبارہ ہوئی ہے، جس کا الزام وزیر اعظم عمران خان لگا رہے ہیں تو آئین توڑنے میں مولانا فضل الرحمن کے ساتھی کون ہیں؟ ان کے نام سامنے لانا بھی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔
غداری کا الزام دراصل سیاسی مخالفین اور اختلاف رائے رکھنے والے طبقات کو غیر قانونی قرار دینے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ مخالفین کو غدار قرار دینے کے بعد ان کی رائے کو رد کرنے کیلئے کسی پختہ دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس الزام کے بعد مخالفین کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں کیونکہ کوئی بھی سرپھرا اٹھ کر غدار قرار دیئے گئے سیاستدان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کے دوران انہیں بھی غدار قرار دیا جاتا رہا اور صدر ٹرمپ اپنی فون کالز لیک کرنے والوں کو غدار کہتے رہے۔ مسئلہ صرف اتنا تھا کہ امریکی صدر اپنے سیاسی حریف جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کو یوکرین میں ایک کرپشن کیس میں پھنسانے کے لیے یوکرین کے صدر پر دباؤ ڈال رہے تھے اور اس مقصد کے لیے امریکا کی دفاعی امداد کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے یوکرین کو پیغام دیا تھا کہ اگر دفاعی امداد وصول کرنا ہے تو ان کی خواہش پر عمل کیا جائے۔ اس کیس کو دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ امریکی سیاست میں بھی غداری کے الزامات صرف ذاتی وفاداری اور سیاسی مفادات کی خاطر لگائے گئے۔
سیاسی مفادات کے لیے مخالفین کو غدار قرار دینے کا انجام کیا ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ امریکا کے ایک حالیہ سروے سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق چالیس فیصد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا زیادہ بہتر ہو سکتا تھا اگر اپوزیشن مر جاتی۔ ان جذبات سے یقینی طور پر تشدد جائز قرار پاتا ہے۔ امریکا میں اس سال ہونے والے صدارتی الیکشن کے نتیجے میں کوئی بھی جماعت جیتتی ہے سیاسی تشدد بڑھنے کے امکانات کی پیشگوئی کی جا رہی ہے۔اپوزیشن یا برسر اقتدار جماعت کے بارے میں ملک دشمنی کا تاثر تشدد کے راستے پر لے جاتا ہے۔ اگر ملک دشمن قرار پانے والی جماعت برسر اقتدار ہے تو اس کے مخالفین اسے گرانے کے لیے تشدد کی راہ اپنائیں گے اور اگر ملک دشمن قرار پانے والی جماعت اپوزیشن میں ہے تو اختلافی رائے رکھنے والا ہر شخص واجب القتل قرار پائے گا۔
ایک دوسرے کو ملک دشمن کہنے اور ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے سیاست دان اور جماعتیں جمہوری نظام کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ جب مدمقابل کو ملک دشمن تصور کر لیا جائے تو انتخابی نتائج بھی تسلیم نہیں کئے جاتے، کیونکہ ہارنے کی صورت میں ملک دشمن کے اقتدار میں آنے کا تصور قابل قبول نہیں رہتا۔
غداری کے الزامات لگانے والے جوابی الزامات سے محفوظ نہیں رہ سکتے یوں سیاسی قیادت کی زندگی ان الزامات کے دفاع اور ان دھبوں کی صفائی میں صرف ہو جاتی ہے، جیسے سکیورٹی رسک کا داغ دھونے کے لیے بینظیر بھٹو نے تمام زندگی جتن کئے لیکن یہ دھبے ان کی شہادت کے بعد ہی مٹ پائے۔
اس لیے ہمارا مشورہ صرف اتنا ہے کہ سیاسی قیادت کو کبھی کبھار فلم مجبور کے لیے جاوید اختر کا لکھا گیا گیت سننا اور گنگنانا بھی چاہئے:
آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے
زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں
آدمی جو دیتا ہے آدمی جو لیتا ہے
زندگی بھر وہ دعائیں پیچھا کرتی ہیں

 

Back
Top