Ab Aurat ho gi Azaad

اب عورت ہو گی آزاد۔۔​

ثنا صدیق​

IMG-20191030-WA0007-e1583211801853.jpg?resize=410%2C273&ssl=1?ver=1.jpg

اس دنیا میں اللہ پاک نے انسان کی بقا اور تحفظ کے لیے مرد اور عورت کے نام سے دو اجناس پیدا کیں اور ہر جنس کو دوسری جنس کی طلب کا تقاضا رکھا گیا، حقیقت میں تو دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے اسی وجہ سے مرد کامل مرد ہوتے ہوئے بھی عورت سے بے نیاز نہیں ہے اور عورت بھی عورت کے لباس میں رہتے ہوئے مرد کے بغیر مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتی مگر مغربی تہذیب نے جہاں اسلام کے ماننے والوں میں لا دینیت حرص اور مادہ پرستی پیدا کی ہیں وہیں مغربی تہذیب نے مسلمان عورت کو اپنے جال میں ایسے پھنسایا کہ عورت کی آزادی کے نام پر اس کی عفت و عصمت بھی داوپر لگا دی ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مغرب کی عورت کیوں آزادی مارچ کے لیے اٹھی ،اس کی کیا وجوہات تھیں۔ پہلی دفعہ 1909 میں عورت کے آزادی مارچ کی ابتداء ہوئی 8 مارچ کو آزادی مارچ منانے کا فیصلہ 1913 کو ہوا،1908 کو چند مخصوص عورتیں اپنے حق کے لیے آزادی مارچ کے لیے نکلیں ،ان عورتوں پر کارروائی کرتے ہوئے ان کو گرفتار کیا گیا، 1909 کو امریکن سوشلسٹ پارٹی نے آزادی مارچ کیا، قرار داد منظور کی، 1910 کو پہلی بار عورت کی آزادی کا عالمی دن منایا گیا ،آزادی مارچ میں مغربی عورت اپنے معاشی معاشرتی اور سیاسی حقوق کے لیے اُٹھی، کیونکہ غیر مسلم عورت ہمیشہ اپنے مرد کا شکار رہی ہے مرد نے اس صنف نازک کو جنگلی درندہ ہی سمجھا ہے گھر کے سامان اور جانوروں کے برابر عورتیں بیچی اور خریدی جانے لگیں ، اسلام سے پہلے حالات میں عورت کو صرف نسل انسانی کی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اس کے علاوہ عورت ان کے لیے شرمندگی کا باعث تھی، عرب کے علاوہ دوسرے مذاہب میں عورتوں کے ساتھ سلوک ڈاکٹر گستاولی بان کے ذریعے پتہ چلتا ہے۔۔
“یونانی عورتوں کو ہمیشہ کم درجے کی مخلوق سمجھتے تھے اگر کسی عورت کا بچہ خلاف فطرت پیدا ہوتا تھا تو اسے مار ڈالتے تھے”
“سپارٹا میں اس بد نصیب عورت کو جس سے قومی سپاہی کے پیدا ہونے کی امید نہ ہوتی ،مارڈالتے تھے جس وقت کسی عورت کے بچہ پیدا ہوتا تو اسے فوائد کی غرض سے کسی دوسرے مرد کی نسل لینے کے لیے اس کے شوہر سے ادھار لے لیتے تھے”
عہد قدیم میں واضح لکھا گیا ہے کہ۔۔
“جو کوئی خدا کا پیارا ہے، وہ اپنے آپ کو عورت سے بچائے، ہزار آدمیوں میں سے ایک پیارا پایا ہے ،لیکن تمام عالمی عورتوں میں ایک عورت بھی ایسی نہیں جو خدا کی پیاری ہو”۔
روم میں مرد کی اپنی عورت پر جابرانہ حکومت تھی، جس کا معاشرے میں کوئی حصہ نہیں تھا اور شوہر کو اس کی جان پر پورا حق حاصل تھا۔
یہودیت میں عورت کامقام یہ ہے اگر دو بھائی ہوں ان میں سے ایک بے اولاد مر جائے تو اس کی بیوہ عورت کا نکاح کسی اور سے نہ کیا جائے اس کے شوہر کا بھائی اسے اپنی بیوی بنائے اسے بھاوج کا حق ادا کرے جب پہلوٹھا جو اس سے پیدا ہو تو اس کے بھائی کا نام شمار ہو گا تاکہ اس کا نام اسرائیل سے مٹ نہ جائے ،اگر وہ اس کا شوہر بننے سے انکار کر دے تو وہ عورت ججوں کے سامنے اپنے پاؤں کی جوتی نکالے اور اس کے منہ پر تھوک دے اور کہے جو اپنے بھائی کا گھر نہیں بنائے گا یہی کیا جائے گا اور اسرائیل میں اس کا نام یہ رکھا جائے اس شخص کا گھر جس کا جوتا نکالا گیا۔
ہندو کے نزدیک تقدیر طوفان موت جہنم زہر زہریلے سانپ کوئی ان میں سے اتنے خراب نہیں جتنی عورت ہے۔
عیسائیوں کے نزدیک وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے وہ شجر ممنوع کی طرف لے جانے والی خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کے تصور اور مرد کو غارت کرنے والی ہے۔
کرائی سوسٹم کے نزدیک”ایک ناگزیر برائی ایک پیدائشی وسوسہ ایک مرغوب آفت ایک خانگی خطرہ ایک غارت گر دلربائی ایک آراستہ مصیبت ہے۔
روسی مثل مشہور ہے”دس عورتوں میں ایک روح ہوتی ہے ”
سپینی مثل ہے”بری عورت سے بچنا چاہیے اچھی عورت پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔
اطالیون کا قول ہے،گھوڑا اچھا ہو یا برا اسے مار کی ضرورت ہوتی ہے عورت اچھی ہو یا بری اسے بھی مار کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ تھے عورت کے حقوق مغربی اور دوسرے مذاہب کے معاشروں میں مگر اسلام میں تو عورت کی شان و شوکت ہی بہت ہے اس کا ہر دن ہی آزادی کا دن ہے مسلمان عورت کی اہمیت تو اس کے مذہب نے بہت پہلے بتا دی تھی۔
ارشاد ربانی ہے
اے لوگو اپنے رب سےڈرو جس نے تم سب کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔
اس کا مطلب عورت کوئی الگ کم تر مخلوق نہیں ہے بلکہ وہ بھی انسان ہی ہے جیسا کہ مرد انسان ہیں پھر مرد کو اللہ پاک نے کوئی حق نہیں دیا کہ وہ عورت کو ذلیل اور کم تر سمجھے، اسلام نے جب عورت کے حقوق اور اس کی قدو منزلت کا تعین کر دیا ہے کہ یہ صرف مرد کی خدمت گزار نہیں بلکہ دنیا میں عروج اور قدرو منزلت بھی رکھتی ہیں تو پھر مسلمان عورت کو چاہےی کہ وہ اسلامی حدود کی پابندی کریں ،اپنی عفت کی حفاظت کریں، آزادی مارچ میں اپنی عظمت کا جنازہ مت نکالیں ۔​
 
@Angelaa
تمام کالمز کا رنگ ڈھنگ ایک ہی اب تو الفاظ کی جگالی ہو رہی ہے
عمدہ معلومات
شیئر کرنے کا شکریہ
 

اسلام نے جب عورت کے حقوق اور اس کی قدو منزلت کا تعین کر دیا ہے کہ یہ صرف مرد کی خدمت گزار نہیں بلکہ دنیا میں عروج اور قدرو منزلت بھی رکھتی ہیں تو پھر مسلمان عورت کو چاہےی کہ وہ اسلامی حدود کی پابندی کریں ،اپنی عفت کی حفاظت کریں، آزادی مارچ میں اپنی عظمت کا جنازہ مت نکالیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں​
 
Back
Top