Ab Rote Kayun Ho? By Sohail Ahmad Qaisar

اب روتے کیوں ہو؟ ۔۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

چند روز پہلے ٹڈی دل کے حوالے سے کالم چھپا ‘توپنجاب کے علاوہ سندھ سے بھی متعدد احباب کی ای میلز ملیں۔ ہر کسی کی اپنی ہی کہانی تھی۔ان میں خوشی کے عنصر کے علاوہ ‘سب کچھ پڑھنے کو ملا ۔ پیغامات میں ایک بات بہت کثرت سے کی گئی تھی کہ اب کے ٹڈی دل کے حملے کی شدت کی ایک بڑی وجہ خود ہماری غلطیاں بھی ہیں۔ اس حوالے سے کبھی کثرت سے پائے جانے والے کالے تلیئر کی تعداد میں انتہائی کمی کی بابت بھی اظہارِ خیال کیا گیا تھا۔ کالم کی اشاعت کے ایک آدھ روز بعد ہی ابھی آنکھ بھی پوری طرح نہیں کھلی تھی کہ پنجاب کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیر صاحب کافون آیا ۔ عمومی طور پر تو انہیں ہمیشہ ہنستے مسکراتے ہی دیکھا ہے‘ لیکن اُس روز قدرے گمبھیر آواز میں بولے کہ میاں وہ تم نے پنجابی کی ایک مثال سنی ہے کہ ''ہتھاں نال دیتیاں گنڈاں ‘ منہ نال کھولنییاں پیندیاں نئیں‘‘(ہاتھوں سے دی ہوئی گانٹھیں ‘ منہ سے کھولنا پڑتی ہیں‘ مطلب یہ کہ جب ہم سوچے سمجھے بغیر کوئی کام کرلیتے ہیں تو پھر اکثر ہمیں اُس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں)۔
جی جی جناب! اس مثال کے بارے میں بخوبی جانتا ہوں۔جواب ملا کہ بس پھر جان لو کہ ٹڈی دل کے حوالے سے صورت ِحال کے بگاڑ میں اُن کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے‘ جنہوں نے تصاویر بنانے اور اپنی قوت بڑھانے کے شوق میں ماحول اور کسان دوست پرندوں کو ختم کردیا ہے ۔ اب‘ ایسا کر گشرے ہو تو پھر روتے کیوں ہو؟ پھر آہستہ آہستہ اُن کی آواز بلند ہوتی چلی گئی۔ بتانے لگے کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے پنجاب میں کالا تلیئر بہت کثرت سے پایا جاتا تھا۔ یہ ایسا شاندار پرندہ تھا‘ جو نا صرف دیکھنے میں بھی بہت خوب صورت تھا‘ بلکہ یہ کسانوں کا سب سے زیادہ دوست پرندہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فصلوں کے دشمن کیڑے مکوڑوں کو کھا جاتا ہے ‘ ٹڈیاں بھی اس کی پسندیدہ خوراک ہیں‘ لیکن اسے ہم نے بے دردی سے شکار کرکے ختم کردیا۔ کچھ کچھ اندازہ تو ہمیں بھی تھا کہ کالا تلیئر بہت کسان دوست پرندہ ہے‘ لیکن اس کی ٹڈی دل کو ختم کرنے کی صلاحیت کا علم پہلی مرتبہ ہوا تھا۔اُن کی بات میں معمولی سا وقفہ آیا تو میں موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں کہنے لگا کہ میں سمجھ گیا بدر صاحب ‘لیکن ٹڈی دل کے اتنے بڑے حملے کو روکنے میں بیچارہ تلیئر زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتا تھا؟اس پر اُن کا دوحرفی جواب ہی کافی ثابت ہوا کہ چلو پھر ٹھیک ہے ‘جو کچھ باقی بچا ہے ‘ اُسے بھی ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔
گفتگو کے تقریباً آخری مرحلے میں جو ہم نے اُن سے ایک چبھتا ہوا ساسوال کردیا:بدرصاحب یہ سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں‘ لیکن اس انتہائی اہم پرندے کی حفاظت کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟بھئی سیدھی سی بات ہے کہ محکمہ وائلڈلائف ‘اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا ہے تو پھر اس پرندے کا غیرقانونی شکار کرنے والوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یقین جانیے محکمانہ طور پر غیرقانونی طور پر شکار کرنے والوں کیخلاف کارروائیوں کا سلسلہ مستقل بنیادوں پر جاری رہتا ہے۔ گفتگو تو ختم ہوگئی ‘لیکن اپنے پیچھے کچھ سوالات ضرورچھوڑ گئی کہ سچ میں ہم نے جیسے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ایک ایک کرکے ہم اپنے دوستوں کو خود ہی ختم کرتے جارہے ہیں اور ساتھ میں رونا پیٹنا بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس پرندے کے بارے میں کچھ مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے محکمہ وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر چوہدری شفقت صاحب سے ملاقات کی تو انہوں نے بھی بہت حیرت انگیز معلومات فراہم کیں۔ بتانے لگے کہ اپنے اس دوست پرندے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ چین نے480ملین یوآن کے منصوبے پر صرف اس وجہ سے کام روک دیا کہ منصوبے کے کچھ مقامات پر مادہ تلیئرنے انڈے دے رکھے تھے۔ گویا ہوئے کہ پہلے ان انڈوں کو بحفاظت کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا اور اُس کے بعد دوبارہ منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ معلومات میں کچھ مزید اضافہ کرتے ہوئے بتانے لگے کہ بھائی صاحب ‘ ٹڈیاں اس پرندے کی فطری خوارک ہیں اور یہ ایک دن میں کچھ درجن ٹڈیاں کھا جاتا ہے تو کم از کم ایک سو کے قریب سنڈیوں کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ پرندہ پاکستان بھر میں بکثرت پایا جاتا تھا ‘لیکن بے تحاشا شکار کے باعث آج یہ خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔ اتنے اہم پرندے کے حوالے سے اپنی بہت کم معلومات پر افسوس بھی ہوا کہ ہماری دانشوریاں ‘ دنیا بھر کے مسائل حل کرنے پر ہی صرف ہوتی رہتی ہیں۔ ہم ہمیشہ دوسروں کو ہی سدھارنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ اُن کی غلطیاں نکالنے کی سعی ہی کرتے رہتے ہیں ‘لیکن مجال ہے ‘جو اپنے گریبان میں جھانکنے کی بات کریں۔ یہ طرزِ عمل صرف کالے تلیئر کے حوالے سے ہی کیا ہم نے تو قدرت کی بے شمار صنائیوں کو اپنے ہاتھوں سے برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
اللہ تعالی کی سب سے خوب صورت صناعی‘ انسان کی مثال ہی لے لیجئے‘ جس معاشرے میں انسانوں کی قدر نہ ہو‘ وہاں بھلا ان چھوٹے موٹے پرندوں کی کیا اوقات ہے؟اس حوالے سے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ انسان کے اپنے ساتھ ہوگا تو وہی سلوک وہ دوسروں کے ساتھ بھی روا رکھے گا۔ بادی النظر میں یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ کہیں آپ کو عدالتوں میں انصاف کے متلاشی ‘ جوتے چٹخاتے ہوئے ملیں گے تو کہیں پولیس کے ظلم کی دہائیاں سننے کو ملیں گی۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں جھوٹی درخواست بازیاں تو گویا ہمارا چلن بن چکی ہیں۔ لاہور کے ایک نوجوان ایس پی علی سے اس حوالے بات ہورہی تھی تو کہنے لگے کہ آپ صرف ایک دن میرے ساتھ میرے دفتر میں گزاریں‘ شام تک لوگوں کی جھوٹی باتیں سن سن کر اگر آپ کا دماغ کھولنے نہ لگے تو میرا نام بدل دیجئے گا۔ ایسا کیوں؟ایسا اس لیے ہے کہ ہم کسی کو اُس کا حق دینے کیلئے تیار نہیں‘ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ بلکہ دوسروں کا حق بھی سلب کرنے کیلئے ہردم تیار رہتے ہیں۔ بتانے لگے کہ دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے اتنے اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ عام آدمی اُس پر یقین کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا‘ لیکن ہماری تربیت قدرے مختلف ہوتی ہے‘ ہمیں سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے کہ آپ نے کسی پر بھی تب تک یقین نہیں کرنا جب تک تمام شواہد اُس کی سچائی کی گواہی نہ دینے لگیں۔ بات سے اختلاف کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی کہ دن رات ہمارے معاشرے میں یہی کچھ تو ہورہا ہے ‘ جو معاشرے اور اس کے مختلف شعبوں میں بہتری کے ذمہ دار ہیں‘ وہ ایک آدھ بیان دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
معلوم نہیں کیسی کیسی توہمات ہمارے معاشرے میں جڑیں پکڑ چکی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ یقین جانیے کہ گریڈ 19کے ایک سرکاری آفیسر کہہ رہے تھے کہ کفار تو ہمیں نوڈلزاور پیزا وغیرہ کے ذریعے بہت پہلے ہی کورونا کا مریض بنا چکے ہیں۔ یہ بات سننے کے بعد بحث کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ سو‘ اُن کی ہاں میں ہاں ملانے پر ہی صاد کیا۔ کچھ ایسی ہی توہمات ہمارے ہاں جنگلی حیات کے بارے میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اکثر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ جنگی جانوروں اور پرندوں کا گوشت انسان کیلئے انتہائی قوت بخش ہوتا ہے۔ یہ پرندوں اور جنگلی جانوروں کے شکار کی بڑی وجہ ہے۔ یقینا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمارے کھانے کیلئے ہی پیدا کیا ہے‘ لیکن جس انداز سے ان کا شکار کیا جاتا ہے ‘ اُس کاکوئی جواز پیش کیا ہی نہیں جاسکتا ۔ سینکڑوں پرندوں کو بلاوجہ شکار کرنا اور پھر اُن کے ساتھ تصاویر اُتروا کر ‘ اپنے کیے پر نادم ہونے کی بجائے اترانا‘بالکل اسی طرح اپنے جیسے انسانوں کو تکلیف پہنچا کر خوش ہونا بھی ہماری سرشت میں شامل ہوچکا ہے۔ سو‘ جب ہم خود ہی انسانیت کی سطح سے نیچے گرتے چلے جارہے ہیں تو پھر اس کے لیے چاہے کفار کو موردِالزام ٹھہرا کر دل کو تسلی دے لیں یا پھر کوئی اور جواز گھڑ لیں۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ سب کچھ ہمارے بس میں ہے‘ کوئی کچھ نہ کہے‘ لیکن اندرسے ہمارا ضمیرتو ملامت کرہی رہا ہوتا ہے‘ جو یہ سوال بھی کرتا ہے کہ جب جانتے بوجھتے ہوئے سب کچھ خود ہی کررہے ہو تو پھر روتے کیوں ہوں؟
 
Columnist
Sohail Ahmed Qaisar
Column date
Jun 8, 2020

Back
Top