Adab aur samaaji qabooliyat By Masoosd Ashar Column

ادب اور سماجی قبولیت ۔۔۔۔۔۔۔ مسعود اشعر

ادب اور سماجی رویے، اور ادب‘ مقبولیت اور سماجی رویے، یہ تھے اس سال جی سی یونیورسٹی کی دوسری دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کے موضوعات۔ یعنی زور تھا ادب اور سماجی رویوں پر۔ یہ غور کیا جا رہا تھا کہ عمومی طور پر ادب کے بارے میں ہمارے سماج کا رویہ کیا ہے؟ دلچسپ اور فکر انگیز موضوع تھا۔ دو دن کی چار پانچ نشستوں میں ہمارے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام اور دوسرے ممتاز دانشوروں نے اس موضوع کے مختلف پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا۔
پچھلے دو برسوں سے جی سی یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور انقرہ یونیورسٹی ترکی کے اشتراک سے دو روزہ عالمی اردو کانفرنس ہو رہی ہے۔ اس کانفرنس میں ترکی کے علاوہ ایران کے ادیب بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ عالمی کانفرنس بن جاتی ہے۔ پروفیسر خالد محمود سنجرانی، صدر نشیں شعبۂ اردو جی سی یونیورسٹی نے پروفیسر ڈاکٹر آسمان بیلن اوزجان، صدر نشیں شعبہ اردو انقرہ یونیورسٹی کے اشتراک سے اس کانفرنس کی بنیاد ڈالی ہے۔ ادھر کانفرنس شروع ہونے سے چند دن پہلے ڈاکٹر صائمہ ارم نے جی سی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی صدارت سنبھال لی۔ اس طرح پروفیسر خالد محمود سنجرانی اور ڈاکٹر صائمہ ارم‘ دونوں ہی اس کانفرنس کے مہتمم اور منصرم ٹھہرے۔ خیر، اس تبدیلی سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم تو یہ سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہاں ہماری یہ نابغۂ روزگار شخصیات ادب اور سماجی رویوں کے بارے میں کیا کہہ رہی ہیں۔ افتتاحی نشست کا کلیدی خطبہ ڈاکٹر خورشید رضوی کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی انقلاب کے بعد ادب میں لوگوں کی دلچسپی کم ہو گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ادب تو انسانوں کے اندر سرشاری کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ ادب ایک قسم کا نشہ ہے جو اپنے پڑھنے والے کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ اسی رو میں رضوی صاحب یہ بھی کہہ گئے کہ ادب کا نشہ کم ہوا ہے تو لوگوں کو دوسرے نشوں کی لت پڑ گئی ہے۔ یہاں ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا؟ عالمی ادب کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ ادب اور دوسرے نشے ساتھ ساتھ ہی چلتے رہے ہیں بلکہ دوسرے نشوں نے ادب کی تخلیق میں زیادہ مدد کی ہے۔ اپنے یہاں غالب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انگریزی ادب میں کولرج اور دوسرے ادیب و شاعر طرح طرح کے نشوں سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ادب سے دلچسپی کم ہونے کی جو اور وجہ بتائی اس میں نئے زمانے کی نئی سے نئی دلچسپیاں اور نئے سے نئے آلات کو بھی شامل کیا۔ اور یہ ڈاکٹر خورشید رضوی ہی نہیں کہتے، دوسرے ادبی نقاد بھی یہی کہتے ہیں؛ تاہم اپنے ان نقادوں کی یہ بات سنتے ہیں تو ہمیں خیال آتا ہے کہ اگر ہمارے ہاں یہ جو انٹرنیٹ، واٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ ادب کے قاری کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہیں تو مغرب میں ایسا کیوں نہیں ہوا؟ یہ سارے آلات تو مغرب نے ہی ایجاد کئے ہیں۔ پہلے تو وہاں ادب سے دلچسپی کم ہونی چاہیے تھی لیکن وہاں تو زور شور سے ادب تخلیق کیا جا رہا ہے۔ نئے سے نئے ناول لکھے جا رہے ہیں اور ان ناولوں میں نئی سے نئی تکنیک استعمال کی جا رہی ہے۔ اور پھر کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جو ہر سال بہترین ناول یا بہترین ادبی تخلیق پر انعام دے رہے ہیں۔ اپنے ملک میں ہی دیکھ لیجئے۔ پہلے یہ ادبی جشن کہاں ہوتے تھے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہر شہر میں ادبی میلے اور ادبی جشن منائے جا رہے ہیں۔ ہر یونیورسٹی ہی یہ کام کر رہی ہے۔
اب رہا ادب اور سماجی قبولیت یا ادب اور سماجی رویے، تو ذرا اپنی چالیس پچاس سال پہلے تک کی تاریخ پر نظر ڈال لیجئے۔ ان رویوں میں واقعی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے ہمارا شاعر ایک عجیب و غریب مخلوق تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے بارے میں عام رویہ یہ تھا کہ ''نہ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا‘‘ اور شاعر ہوتے بھی ایسے ہی تھے۔ ان کا اپنا حلیہ ہی دیکھنے لائق ہوتا تھا۔ لیکن پھر جہاں سماج کے حالات بدلے وہاں ان شاعروں کے حالات بھی بدلے۔ مالی حالات کی تبدیلی نے ان کے شکل و صورت تبدیل کر دی اور سماج میں ان کا رتبہ بھی بلند ہو گیا۔ ادھر علم و تعلیم میں اضافے کے ساتھ ادب و شعر کی تفہیم کا معیار بھی اونچا ہوا۔ اب یہاں اگر سماجی قبولیت سے مراد یہ ہے کہ کیا اس ادب نے سماجی زندگی میں بھی کچھ تبدیلیاں پیدا کیں؟ تو ہم اسے کسی اور پیمانے کے بجائے ادبی پیمانے سے ہی ناپیں گے۔ ہندوستان میں شہریت کے نئے قانوں کے خلاف جو جلسے جلوس ہو رہے ہیں‘ ان میں فیض کی نظم ''ہم دیکھیں گے‘‘ ایک انقلابی نعرے کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ وہاں فارسی اور عربی کا چلن ختم ہو گیا ہے۔ وہاں کی مروجہ زبان سنسکرت زدہ ہندی ہے اور فیض کی نظم میں فارسی اور عربی الفاظ کے ساتھ مسلمانوں کی خالص مذہبی اصطلاحات بھی موجود ہیں، اس کے باوجود وہاں یہ نظم گائی جا رہی ہے۔ اب آپ یہ معلوم کرنا چاہیں گے کہ فیض کی یہ نظم وہاں پہنچی کیسے؟ تو جان لیجئے کہ بہت عرصہ پہلے ہی فیض کا پورا کلام ناگری رسم الخط میں منتقل ہو چکا تھا۔ فٹ نوٹس میں مشکل الفاظ کا ہندی ترجمہ دیا گیا تھا۔ اس لئے وہاں جلوسوں میں اس نظم کا نعرہ بن جانا حیرت کی بات نہیں ہے۔ اور ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ بے شک ہندی میں بڑی شاعری کی جا رہی ہے لیکن شعروں میں جب تک وزن نہ ہو اس وقت تک وہ نعرہ نہیں بن سکتے۔ نعروں کے لئے وزن اور قافیہ ردیف چاہیے۔ اب شمیم حنفی صاحب ہماری اس بات سے اتفاق کریں گے یا نہیں؟ ہماری سمجھ میں تو یہی آتا ہے۔ تو کیا یہ سماجی قبولیت نہیں ہے؟
اب ادب کا ذکر ہو اور عام پسند ادب اور معیاری ادب کا حوالہ سامنے نہ آئے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ یہاں بھی یہ بحث چھڑ گئی۔ اصل معیاری ادب وہ ہوتا ہے جو اپنے پڑھنے والے کو جھنجھوڑتا ہے۔ اسے سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسے ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ اس دنیا میں جو اس کے تخلیق کار نے بنائی ہے۔ وہ عام مروجہ خیالات اور رسوم و رواج کو چیلنج کرتا ہے۔ عام پسند ادب اپنے زمانے کے عقائد اور توہمات کو تقویت پہنچاتا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے آپ کو اپنے دماغ پر زیادہ زور دینا نہیں پڑتا۔ آج کل اردو میں یہ عام پسند ادب زیادہ ترقی کر رہا ہے۔ موٹے موٹے ناول لکھے جا رہے ہیں‘ اور وہ لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو رہے ہیں۔ اس سے آپ اپنے سماج کی علمی اور فکری سطح کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہاں ہمارے تعلیمی اداروں اور ہماری جامعات کی ذمہ داریاں بھی سامنے آ جاتی ہیں۔ مگر معیاری اور غیر معیاری یا عام پسند ادب مغرب میں بھی تو خوب پیدا ہو رہا ہے۔ اسے وہاں pulp fiction کہا جاتا ہے۔ وہاں آپ ایک ریلوے سٹیشن سے دوسرے سٹیشن تک جاتے ہوئے یہ عام پسند ناول پڑھ ڈالتے ہیں‘ اور ٹرین سے اترتے ہی اسے کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں۔ اس لئے ہمارے جو دوست خواتین ناول نگاروں کے ان موٹے موٹے ناولوں سے پریشان ہیں وہ مطمئن ہو جائیں۔ دنیا بھر میں ہر طرح کا ادب تخلیق کیا جا رہا ہے؛ البتہ اپنی تعلیم کا معیار بہتر بنانے کی کوشش کیجئے اور ڈاکٹر امجد طفیل سے سیکھیے۔ انہوں نے سستی کہانیوں اور ڈائجیسٹوں سے کہانیاں پڑھنا شروع کی تھیں اور پھر معیاری ادب کا رخ کر لیا۔ یہ معیاری تعلیم کا نتیجہ ہی تو ہے۔
اس کانفرنس کے ایک سیشن میں ادب کے فروغ اور مقبولیت میں جامعات اور سرکاری اداروں کے کردار پر بھی بات کی گئی۔ ظاہر ہے اس مقصد کے لئے ان اداروں کا کردار تو یقینا بہت اہم ہے، لیکن یہ ادبی میلے اور جشن جو شروع ہو گئے ہیں‘ ان سے بھی ادب کے فروغ میں مدد مل رہی ہے۔ اکتوبر کے فیض میلے سے، فیصل آباد کے ادبی جشن، اور پھر آصف فرخی کے ادب فیسٹیول سے ہوتے ہوئے ہم لاہور لٹریری فیسٹیول تک پہنچتے ہیں۔ مئی میں نیشنل بک فائونڈیشن کا عید میلہ سجایا جاتا ہے۔ اور ہاں، اپریل میں پروین شاکر ادبی میلہ بھی تو لگتا ہے۔ اس میں بھی پاکستان بھر کے ادیب، شاعر اور دانشور شریک ہوتے ہیں اور ادب کا بول بالا ہوتا ہے۔
 
نے یہ بھی کہا کہ ادب تو انسانوں کے اندر سرشاری کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ ادب ایک قسم کا نشہ ہے جو اپنے پڑھنے والے کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ اسی رو میں رضوی صاحب یہ بھی کہہ گئے کہ ادب کا نشہ کم ہوا ہے تو لوگوں کو دوسرے نشوں کی لت پڑ گئی ہے۔ یہاں ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا؟ عالمی ادب کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ ادب اور دوسرے نشے ساتھ ساتھ ہی چلتے رہے ہیں بلکہ دوسرے نشوں نے ادب کی تخلیق میں زیادہ مدد کی ہے۔ اپنے یہاں غالب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انگریزی ادب میں کولرج اور دوسرے ادیب و شاعر طرح طرح کے نشوں سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ادب سے دلچسپی کم ہونے کی جو اور وجہ بتائی اس میں نئے زمانے کی نئی سے نئی دلچسپیاں اور نئے سے نئے آلات کو بھی شامل کیا۔ اور یہ ڈاکٹر خورشید رضوی ہی نہیں کہتے، دوسرے ادبی نقاد بھی یہی کہتے ہیں؛ تاہم اپنے ان نقادوں کی یہ بات سنتے ہیں تو ہمیں خیال آتا ہے کہ اگر ہمارے ہاں یہ جو انٹرنیٹ، واٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ ادب کے قاری کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہیں تو مغرب میں ایسا کیوں نہیں ہوا؟ یہ سارے آلات تو مغرب نے ہی ایجاد کئے ہیں۔ پہلے تو وہاں ادب سے دلچسپی کم ہونی چاہیے تھی لیکن وہاں تو زور شور سے ادب تخلیق کیا جا رہا ہے۔ نئے سے نئے ناول لکھے جا رہے ہیں اور ان ناولوں میں نئی سے نئی تکنیک استعمال کی جا رہی ہے۔ اور پھر کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جو ہر سال بہترین ناول یا بہترین ادبی تخلیق پر انعام دے رہے ہیں۔ اپنے ملک میں ہی دیکھ لیجئے۔ پہلے یہ ادبی جشن کہاں ہوتے تھے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہر شہر میں ادبی میلے اور ادبی جشن منائے جا رہے ہیں۔ ہر یونیورسٹی ہی یہ کام کر رہی ہے۔
اب رہا ادب اور سماجی قبولیت یا ادب اور سماجی رویے، تو ذرا اپنی چالیس پچاس سال پہلے تک کی تاریخ پر نظر ڈال لیجئے۔ ان رویوں میں واقعی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے ہمارا شاعر ایک عجیب و غریب مخلوق تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے بارے میں عام رویہ یہ تھا کہ ''نہ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا‘‘ اور شاعر ہوتے بھی ایسے ہی تھے۔ ان کا اپنا حلیہ ہی دیکھنے لائق ہوتا تھا۔ لیکن پھر جہاں سماج کے حالات بدلے وہاں ان شاعروں کے حالات بھی بدلے۔ مالی حالات کی تبدیلی نے ان کے شکل و صورت تبدیل کر دی اور سماج میں ان کا رتبہ بھی بلند ہو گیا۔ ادھر علم و تعلیم میں اضافے کے ساتھ ادب و شعر کی تفہیم کا معیار بھی اونچا ہوا۔ اب یہاں اگر سماجی قبولیت سے مراد یہ ہے کہ کیا اس ادب نے سماجی زندگی میں بھی کچھ تبدیلیاں پیدا کیں؟ تو ہم اسے کسی اور پیمانے کے بجائے ادبی پیمانے سے ہی ناپیں گے۔ ہندوستان میں شہریت کے نئے قانوں کے خلاف جو جلسے جلوس ہو رہے ہیں‘ ان میں فیض کی نظم ''ہم دیکھیں گے‘‘ ایک انقلابی نعرے کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ وہاں فارسی اور عربی کا چلن ختم ہو گیا ہے۔ وہاں کی مروجہ زبان سنسکرت زدہ ہندی ہے اور فیض کی نظم میں فارسی اور عربی الفاظ کے ساتھ مسلمانوں کی خالص مذہبی اصطلاحات بھی موجود ہیں، اس کے باوجود وہاں یہ نظم گائی جا رہی ہے۔ اب آپ یہ معلوم کرنا چاہیں گے کہ فیض کی یہ نظم وہاں پہنچی کیسے؟ تو جان لیجئے کہ بہت عرصہ پہلے ہی فیض کا پورا کلام ناگری رسم الخط میں منتقل ہو چکا تھا۔ فٹ نوٹس میں مشکل الفاظ کا ہندی ترجمہ دیا گیا تھا۔ اس لئے وہاں جلوسوں میں اس نظم کا نعرہ بن جانا حیرت کی بات نہیں ہے۔ اور ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ بے شک ہندی میں بڑی شاعری کی جا رہی ہے لیکن شعروں میں جب تک وزن نہ ہو اس وقت تک وہ نعرہ نہیں بن سکتے۔ نعروں کے لئے وزن اور قافیہ ردیف چاہیے۔ اب شمیم حنفی صاحب ہماری اس بات سے اتفاق کریں گے یا نہیں؟ ہماری سمجھ میں تو یہی آتا ہے۔ تو کیا یہ سماجی قبولیت نہیں ہے؟
اب ادب کا ذکر ہو اور عام پسند ادب اور معیاری ادب کا حوالہ سامنے نہ آئے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ یہاں بھی یہ بحث چھڑ گئی۔ اصل معیاری ادب وہ ہوتا ہے جو اپنے پڑھنے والے کو جھنجھوڑتا ہے۔ اسے سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسے ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ اس دنیا میں جو اس کے تخلیق کار نے بنائی ہے۔ وہ عام مروجہ خیالات اور رسوم و رواج کو چیلنج کرتا ہے۔ عام پسند ادب اپنے زمانے کے عقائد اور توہمات کو تقویت پہنچاتا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے آپ کو اپنے دماغ پر زیادہ زور دینا نہیں پڑتا۔ آج کل اردو میں یہ عام پسند ادب زیادہ ترقی کر رہا ہے۔ موٹے موٹے ناول لکھے جا رہے ہیں‘ اور وہ لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو رہے ہیں۔ اس سے آپ اپنے سماج کی علمی اور فکری سطح کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہاں ہمارے تعلیمی اداروں اور ہماری جامعات کی ذمہ داریاں بھی سامنے آ جاتی ہیں۔ مگر معیاری اور غیر معیاری یا عام پسند ادب مغرب میں بھی تو خوب پیدا ہو رہا ہے۔ اسے وہاں pulp fiction کہا جاتا ہے۔ وہاں آپ ایک ریلوے سٹیشن سے دوسرے سٹیشن تک جاتے ہوئے یہ عام پسند ناول پڑھ ڈالتے ہیں‘ اور ٹرین سے اترتے ہی اسے کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں۔ اس لئے ہمارے جو دوست خواتین ناول نگاروں کے ان موٹے موٹے ناولوں سے پریشان ہیں وہ مطمئن ہو جائیں۔ دنیا بھر میں ہر طرح کا ادب تخلیق کیا جا رہا ہے؛ البتہ اپنی تعلیم کا معیار بہتر بنانے کی کوشش کیجئے اور ڈاکٹر امجد طفیل سے سیکھیے۔ انہوں نے سستی کہانیوں اور ڈائجیسٹوں سے کہانیاں پڑھنا شروع کی تھیں اور پھر معیاری ادب کا رخ کر لیا۔ یہ معیاری تعلیم کا نتیجہ ہی تو ہے۔
اس کانفرنس کے ایک س

ڈاکٹر صاحب نے تو ادب کو نشہ قرار دے دیا دوسرے صاحب کہتے ہیں نشے سے ادب کشید ہوا
@intelligent086?
 

@Maria-Noor
دونوں کی سوچ اور پورا کالم تیرے سامنے ہے دیکھ لے ۔۔۔۔۔۔
 
Back
Top