Ahu Chashm ragni Pakitani Actress By Abdul Hafeez Zafar

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
آہُو چشم راگنی 1940ء کی دہائی میں ان کا طوطی بولتا تھا

ahu.jpg

فیض احمد فیضؔ نے کہا تھاتیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات تیری آنکھوں کے سِوا دنیا میں رکھا کیا ہےکبھی کبھی لگتا ہے کہ شاید یہ شعر ماضی کی اداکارہ راگنی کے لئے کہا گیا ہے۔ ویسے تو ہندوستان کی فلمی صنعت میں آنکھوں کے حوالے سے اور بھی اداکاراؤں کے نام لیے جا سکتے ہیں جن میں پری چہرہ نسیم بانو، بیگم پارہ اور پاکستان کی دو اداکارائیں شاہینہ اور رانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں لیکن آہو چشم کا خطاب راگنی کو ہی دیا گیا۔اداکارہ راگنی نے پہلے بھارتی اور پھر تقسیم ہند کے بعد پاکستانی فلموں میں کام کیا۔ وہ 1922 ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ ہرنی جیسی آنکھیں کی مالک راگنی نے ہندی، اردو اور پنجابی تینوں زبانوں میں اداکاری کی ان کی پہلی فلم ’’دُلا بھٹی‘‘ تھی جو 1940ء میں ریلیز ہوئی۔اس فلم میں ان کے مقابل ایم ڈی کنور تھے۔ یہ ایم ڈی کنور کون تھے، ان کے بارے میں ہم آگے چل کر اپنے قارئین کو بتائیں گے۔ ’’دلا بھٹی‘‘ روپ کے شوری کی فلم تھی۔ فلم نے زبردست کامیابی حاصل کی اور راگنی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔ اس کے بعد راگنی نے کئی ہندی اور پنجابی زبان میں بننے والی فلموں میں اپنی اداکاری کا سکہ جمایا۔ ان میں سہتی مراد (1941ء)، نشانی (1942ء) راوی پار (1942ء)، پونجی (1943ء)، داسی (1944ء) اور کیسے کہوں (1945ء)شامل ہیں۔ 1945ء میں جب اے آر کاردار نے انہیں اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں کاسٹ کیا تو اس وقت تک وہ بھارتی فلموں کی مہنگی ترین اداکارہ بن چکی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں ممتاز محل کا کردار ادا کرنے کیلئے ایک لاکھ روپے معاوضہ وصول کیا۔ 1945ء میں ایک لاکھ روپیہ کتنی بڑی رقم تھی، اس کا اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔1945ء میں ہی راگنی نے فلم ’’شیریں فرہاد‘‘ میں شیریں کا کردار ادا کیا اور اس فلم سے بھی انہیں بہت شہرت ملی۔ ان کے مقابل جینت (زکریا خان) فرہاد کے روپ میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ یہ جینت مشہور بھارتی اداکار امجد خان المعروف گبھر سنگھ کے والد تھے۔ 1946ء میں راگنی نے ایس ایم یوسف کی فلم ’’نیک پروین‘‘ میں اپنی خوبصورت اداکاری کے جوہر دکھائے۔ یہ ایک مسلم سوشل فلم تھی جو بہت کامیاب رہی۔ 1946 میں ریلیز ہونے والی کامیاب ترین فلموں میں ایک ’’نیک پروین‘‘ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ’’انمول گھڑی‘‘ کے بعد سب سے زیادہ ’’نیک پروین‘‘ نے بزنس کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھی راگنی نے دو بھارتی فلموں میں کام کیا لیکن یہ فلمیں زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔اب ہم اپنے قارئین کو ایم ڈی کنور کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔ ان کا پورا نام محمد دین کنور تھا اور یہ لاہور کے بہت متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شوقیہ فنکار تھے اور راگنی سے دیوانگی کی حد تک عشق کرتے تھے۔ انہوں نے راگنی کا دل جیتنے کی بہت کوشش کی لیکن راگنی کی سرد مہری سے وہ سخت دل برداشتہ ہوئے۔ کئی فلمی پنڈتوں کا دعویٰ ہے کہ اے۔ آر۔ کاردار کی ریلیز ہونے والی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ (1945) میں سارا سرمایہ ایم ڈی کنور نے لگایا تھا اور وہ خود راگنی کے مقابل شاہ جہاں کے کردار میں سامنے آئے۔ اللہ جانے اس بات میں کس حد تک صداقت ہے کہ ایم ڈی کنور آدھی انار کلی کے مالک تھے۔ ابھی تک کئی لوگ ایسے مل جاتے ہیں جو اس دعوے پر قائم ہیں۔ اس بارے میں ایک اور دلچسپ واقعہ سنایا جاتا ہے کہ جب کبھی راگنی انارکلی بازار آتی تھیں تو ایم ڈی کنور ان کے ہر قدم تلے سو روپے کا نوٹ رکھ دیتے تھے۔ ان لوگوں کی رائے میں ایم ڈی کنور کو راگنی کا عشق لے ڈوبا۔ لیکن یہ یکطرفہ عشق تھا جس کی ناکامی کا ایم ڈی کنور کو بہت دکھ ہوا اور وہ یاسیت کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔ دولت کا سورج بھی غروب ہوتا گیا اور وہ بے بسی کی تصویر بنے اس جہاں سے رخصت ہو گئے۔ ایک دور ختم ہوا‘ ایک کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔پاکستان آنے کے بعد راگنی نے جن فلموں میں کام کیا ان میں ’’مندری‘ بے قرار‘ کندن‘ غلام‘ گمنام‘ نوکر‘ شرارے‘ بیداری‘ انارکلی‘ گہرا داغ‘ سیاں‘ تاج محل‘ سلطان‘ سدھا رستہ‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہاں ان کی فلم ’’تاج محل‘‘ کا ذکر ضروری ہے۔ ’’تاج محل‘‘ ایس ٹی زیدی نے بنائی تھی جو ’’مغل اعظم‘‘ کے معاون ہدایتکار تھے۔ انہوں نے پاکستان میں ’’تاج محل‘‘ بنائی تو راگنی کو نور جہاں کا کردار دیا جو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے ادا کیا۔ جہانگیر کا کردار ریحان اور شاہ جہاں کے روپ میں محمد علی جلوہ گر ہوئے تھے۔ حبیب نے شیرازی اور یوسف خان نے شہزادہ شہریار کا کردار ادا کیا تھا۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ فلم میں سب سے متاثر کن اداکاری راگنی کی تھی۔راگنی حسین و جمیل ہونے کے علاوہ بہت اچھی اداکارہ بھی تھیں اور ان کی آواز کا سحر بھی شائقین کو اپنی جکڑ میں لے لیتا تھا۔ وہ بڑی بے باک اور صاف گو تھیں۔ اپنے کیرئیر کے دوران کوئی انہیں صداقت کے بے محابہ اظہار سے نہ روک سکا۔ ان کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہو گئی کہ و ہ تکبر جیسے مرض کا شکار ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسی تکبر کی وجہ سے انہوں نے ایم ڈی کنور کی محبت کو ٹھکرا دیا۔ انہوں نے 1940ء کی دہائی میں ہی محمد اسلم نامی شخص سے شادی کی جن سے ان کے دو بچے سائرہ اور عابد پیدا ہوئے۔ راگنی کی محمد اسلم سے شادی زیادہ دیر قائم نہ رہی۔ انہوں نے 1947ء میں پاکستان میں اداکار و فلمساز ایس گل سے دوسری شادی کی۔ ایس گل نے ہی انہیں اپنی فلم ’’بے قرار‘‘ میں اپنے مقابل کاسٹ کیا۔راگنی نے کئی دہائیاں پہلے سرکاری ٹی وی کے ایک پروگرام میں یہ انکشاف کیا تھا کہ انہیں آہو چشم کا خطاب ایک صحافی نے دیا تھا لیکن اس صحافی کا نام آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا۔ دیگر کئی فنکاروں کی طرح راگنی کی زندگی کے آخری ایام بھی کچھ اچھے نہیں گزرے۔ فلم والے حسب روایت انہیں بالکل فراموش کر چکے تھے۔وہ تنہائی اور مایوسی کا شکار تھیں۔ 27فروری 2007ء کو فرشتۂ اجل آن پہنچا اور وہ 85 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئیں۔​
 

Back
Top