Allah ka Bara Fazal Hai By Sohail Ahmad Qaisar Column

اللہ کا بڑا فضل ہے ۔۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

صاحبان ِعقل ودانش‘ ماہِ مئی اپنے آخری عشرے میں داخل ہوچکا‘ تو یکایک دھیان آیا کہ بس یہی کوئی 108سال پہلے اسی مہینے کے دوران سعادت حسن منٹو نامی ایک منہ پھٹ نے جنم لیا تھا۔ اس کے خدوخال تو بہت نازک سے تھے‘ لیکن باتیں بڑی سخت کیا کرتا تھا۔ اچھا ہوا کہ اُس کے انتہائی باغیانہ خیالات کی وجہ سے اُسے کبھی اُس کی زندگی میں منہ نہیں لگایا گیا تھا۔ معلوم نہیں ‘پھر ایسا کیا ہوا کہ اُس کی موت کے بعد آہستہ آہستہ اُسے خراج ِتحسین پیش کیا جانے لگا۔ اب تو خیر سے یہاں تک کہا جارہا ہے کہ اُردوادب میں اس منہ پھٹ سے بڑا کوئی افسانہ نگار پیدا ہی نہیں ہوا۔ سچی بات ہے کہ ہمیں تو ابھی تک اس سے بہت پرخاش ہے‘ کیونکہ آج بھی اس کی باتیں سنتے یا پڑھتے ہیں تو سیدھی دل پر چوٹ پڑتی ہے۔ بندے کو کوئی شرم لحاظ ہوتی ہے‘ ایسے ہی بھلا کون سب کو بیچ بازار میں ننگا کرتا ہے۔ہم کہ ٹھہرے معززین ِشہر‘ لیکن اُس کی جرأت تو دیکھئے کہ وہ کس قدر ٹھلے سے سب کو بدنام کرتا رہا۔ یہ دقیانوسی لوگ ہوتے ہی ایسے ہیں کہ اُنہیں معاشرے میں کوئی چیز اچھی لگتی نہیں۔ بس ‘ہروقت دوسروں میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ ذراپڑھیے تو سعادت حسن منٹو نامی یہ شخص کیا لکھتا ہے:
'' اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان‘ ایک وہ زمانہ جہالت تھا‘ جب جگہ جگہ چوکیاں تھیں‘ تھانے تھے ‘ کچہریاں تھیں‘ کلب تھے‘ جن میں جوا چلتا تھا ‘ناچ گھر تھے ‘ سینما گھر تھے‘آرٹ گیلریاں تھیں اور نہ جانے کیا کیا خرافات تھیں‘اب تو اللہ کا بڑا فضل ہے‘ صاحبان کہ کوئی شاعر دیکھنے میں آتا ہے‘ نہ کوئی موسیقار دکھائی دیتا ہے‘ لاحول ولا‘یہ موسیقی بھی لعنتوں میں سے ایک لعنت تھی‘ طنبورہ لے کر بیٹھے ہیں اور گلے پھاڑ رہے ہیں‘ کوئی ان سے پوچھے تو سہی کہ ان راگ اور راگنیوں سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ آپ کوئی ایسا کام کیجئے‘ جس سے آپ کی عاقبت سنورے‘ آپ کو ثواب پہنچے اور قبر کا عذاب کم ہو‘اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان‘موسیقی کے علاوہ دیگر بہت سی قباحتوں کا اب کوئی نام و نشان نہیں رہا اور جو ابھی تک بچ رہی ہیں تو اللہ نے چاہا تو بہت جلد ان کا بھی نام ونشان مٹ جائے گا۔اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اب کوئی ٹھمری اور دادرا نہیں گاتا‘فلمی دھنیں بھی مر کھپ گئی ہیں اور موسیقی کا ایسا جنازہ نکلا ہے اور اسے کچھ ایسے زمین میں دفن کیا گیا ہے کہ اب کوئی مسیحا اسے دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا‘ کتنی بڑی لعنت تھی؟ یہ موسیقی بھی‘‘۔اب‘ آپ ہی بتائیے کہ بھلا یہ باتیں کہنے اور لکھنے والی تھوڑی ناں ہوتی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب بھی مئی کا مہینہ آتا ہے تو چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہنے کے ساتھ ساتھ منٹوکی باتوں پر خون بھی کھولنے لگتا ہے اور جب تک ماہِ مئی ختم نہیں ہوجاتا ‘ تب تک کچھ یہی کیفیت رہتی ہے۔
حد ہو تی ہے‘ ہر بات کی‘ لیکن سعادت حسن منٹو بولتے اور لکھتے ہوئے سماجی اقدار کا لحاظ کرتے ہیں‘ نہ اُن کے قریب کسی کی عزت کی کوئی اہمیت ہے۔ بدتمیزی سے لبریز اُن کی ایک اور تحریر پڑھ لیجئے اور پھر خود ہی فیصلہ کرلیجئے‘ لکھتے ہیں ''یہ بتانا تو مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ شاعری کے آخری دور میں کچھ ایسے شاعر پیدا ہوگئے تھے‘ جو معشوقوں کی بجائے مزدورں پر شعر کہتے تھے‘زلفوں کی بجائے درانتیوں اور ہتھوڑیوں کی تعریف کرتے تھے‘اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان‘ ان مزدوروں سے بھی نجات ملی‘کم بخت انقلاب چاہتے تھے ‘ تختہ اُلٹنا چاہتے تھے حکومت کا ‘ سماجی اقدار کا اور ان کی ہمت تو دیکھئے کہ مذہب کا تختہ بھی اُلٹنا چاہتے تھے‘ جھنڈے ہاتھ میں لے کر ناجائز مطالبات کرنے لگے تھے‘ مقام ِشکر ہے کہ اب‘ ان میں سے ایک بھی ہمارے درمیان باقی نہیں رہا ہے اور پروردگار کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب ہم پر ملاؤں کی حکومت ہے اور ہر جمعرات کو ہم اُن کی تواضع حلوے سے کرتے ہیں...‘‘پڑھا آپ نے کہ کس قدر گستاخ تھے‘ جنابِ سعادت حسن منٹو تو پھر کیوں اُنہیں راندہِ درگاہ نہ سمجھا جاتا ۔ یہ ایسی باتوں کی وجہ ہی رہی تھی کہ بس ہم نے انہیں صرف 43برس کی عمر میں دنیائے فانی سے کوچ کرنے کے لیے راضی کرلیا اور جانیے کہ اچھا ہی ہوا۔
اگر اب بھی آپ اپنے اندر سعادت حسن منٹوکے لیے تھوڑی سی بھی ہمدری پاتے ہیں تو اُن کی ایک اور بدتمیزی ملاحظہ فرمائیے؛ ذرا پڑھئے تو کس طرح معاشرے کے ہر شعبے کو طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں ''وہ ایک زمانہ ہوا کرتا تھا کہ ادب کے نام پر سینکڑوں پرچے چھپا کرتے تھے‘جن میں لوگوں کا اخلاق بگاڑنے والی ہزاروں تحریریں چھپتی تھیں‘ ہمیں تو آج تک یہی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ادب آخر ہوتی کیا بلا ہے؟ ادب آداب سکھانے کی کوئی چیز ہوتی تو ٹھیک تھا‘ جو کہانیاں ‘ افسانے‘ مضمون ‘ نظمیں اور غزلیں ادب کا نام لے کر چھاپی جاتی تھیں‘ ان میں چھوٹوں کو بڑوں کا لحاظ کرنے کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی۔ادب ان نااہل ہاتھوں میں بس یہ رہ گیا تھا‘ عورت اور مرد کے جنسی مسائل ‘لاحول ولا قوۃ‘انسان کی نفسیات نعوذ باللہ‘ یعنی ہم فانی انسانوں کی غیر فانی روح تک پہنچنے کی کوشش ‘ حسن و عشق کی داستانیں‘خوبصورت مناظر کی تعریفیں‘ بڑے ہی خوش نما الفاظ میں ....کوئی شام اودھ کی مدح سرائی کر رہا ہے‘ کوئی صبح بنارس کی۔ قوس قزح کے رنگوں کو کاغذ پر اتارا جا رہا ہے۔ پھولوں‘ بلبلوں ‘ کوئلوں اور چڑیوں پر ہزاروں صفحے کالے کیے جا رہے ہیں‘ لیکن صاحبان سوال تو یہ ہے ....تعریف اس خدا کی‘ جس نے جہاں بنایا۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اب کوئی گْل رہا‘ نہ بلبل .... پھولوں کا ناس مارا گیا ہے‘ تو بلبلیں خود بخود دفعان ہو گئیں .... اسی طرح اور بہت سی واہیات چیزیں آہستہ آہستہ اس سرزمین سے جہاں ان کے سینگ سمائے‘ چلی گئی ہیں ....‘‘۔
حد ہے بھئی... اس سے زیادہ ہم میں لکھنے کی سکت ہے اور ہمیں سوفیصد یقین ہے کہ آپ میں پڑھنے کی قوت بھی باقی نہیں رہی ہوگی‘ بس دل کڑا کرکے‘ اس منہ پھٹ کی چند ایک باتیں اور پڑھ لیجئے ‘تاکہ اُس کی اوقات کا ہم سب کو اچھی طرح اندازہ ہوسکے۔
'' اب صرف ایک اخبار حکومت کی طرف سے چھپتا ہے اور آپ جانتے ہی ہیں کہ وہ بھی سال میں ایک آدھ بار ‘جبکہ اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے‘ خبریں ہوتی ہی کہاں ہیں؟ اب ‘کوئی ایسی بات ہونے ہی نہیں دی جاتی‘ جو لوگ سنیں اور آپس میں چہ میگوئیاں کریں‘ایک وہ زمانہ تھاکہ لوگ بے کار ہوٹلوں اور گھروں میں یہ لمبے لمبے اخبار لیے گھنٹوں بحث کرتے رہتے تھے کہ کون سی پارٹی برسراقتدار آنی چاہیے یاکس لیڈر کو ووٹ دینا چاہیے؟ شہر کی صفائی کا انتظام ٹھیک نہیں۔ آرٹ سکول کھلنے چاہئیں‘عورتوں کے مساوی حقوق کا مطالبہ درست ہے یا نادرست اور خدا معلوم کیا کیا خرافات‘اللہ کا بڑا فضل ہے کہ ہماری دنیا ایسے ہنگاموں سے پاک ہے‘ لوگ کھاتے ہیں‘ پیتے ہیں‘اللہ کو یاد کرتے ہیں اور سو جاتے ہیں‘کسی کی برائی میں نہ کسی کی اچھائی میں۔صاحبان ‘میں سائنس کا ذکر کرنا تو بھول ہی گیا.... یہ ادب کی بھی خالہ تھی‘ خدا محفوظ رکھے اس بلا سے‘نعوذ باللہ‘ اس فانی دنیا کو جنت بنانے کی فکر میں تھے‘یہ لوگ جو خود کو سائنس دان کہتے تھے‘ ملعون کہیں کے‘خدا کے مقابلے میں تخلیق کے دعوے باندھتے تھے۔ ہم مصنوعی سورج بنائیں گے ‘جو رات کو تمام دنیا روشن کر دے گا‘ہم جب چاہیں گے بادلوں سے بارش برسائیں گے اور وغیرہ وغیرہ...‘‘۔
اندازہ لگایا آپ نے کہ کس قدر فضول آدمی تھا وہ‘اللہ کا فضل ہے کہ آج بھی کچہریاں ‘ تھانے اور عدالتیں موجود ہیں ۔ ہر طرف انصاف کا بول بالا ہے۔شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں‘ کیونکہ ہمارے ارباب ِاختیار کا اس پر یقین کامل ہے کہ انصاف میں تاخیر اس سے انکار کے مترادف ہے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ ہر چھوٹے بڑے واقعہ کا سختی سے فوی نوٹس لیتے ہیں۔ سب ادارے اپنے فرائض بغیر کسی تعصب کے انجام دے رہے ہیں۔ ملک کی خدمت کرنے والوں کو پلاٹوں کی صورت میں اُن کا مناسب حق دیا جارہا ہے۔ میڈیا کو جتنی آزای آج ہے ‘ ماضی میں تو اس کا تصور بھی نہیں یا جاسکتا تھا اوررہی بات سائنس کی تو میاں‘ سچی بات یہ ہے کہ ہمیں تو اُسی طرف زیادہ دھیان کرنا چاہیے کہ جس سے ہماری عاقبت سنور سکے اور ہم یہ سب کچھ کربھی رہے ہیں ‘اسی لیے تو صبح واٹس ایپ کھولتے ہی سب سے پہلے ہم سینکڑوں کی تعداد میں اخلاقی پیغامات کو پڑھتے ہیں اور اپنی عاقبت سنوارنے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ سب اللہ کا فضل نہیں تو اور کیا ہے؟​
 
Columnist
Sohail Ahmed Qaisar

Back
Top