Allah Naraz Kar Baithe. Ashfaq Ullah Jan Dagai column

تمام تر علوم وفنون اور مادی ترقی واسباب کے باوجودآج مغرب اسلام کی دہلیز پر سرنگوں ہے، یہ مبالغہ آرائی نہیں زمینی حقیقت ہے، کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں ہمیں جابجا نشانیاں نظر آرہی ہیں، دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل چاہیے، جن کے دیدہ و دل پر میرے رب نے پردے ڈال رکھے ہیں، انھیں کچھ دکھائی نہیں دے سکتا۔ یہ اذیت ناک صورتحال ہمارے اس مغرب زدہ طبقے کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو مساجد و مدارس اور داڑھی وپگڑی کی توہین سے بھی باز نہیں آتے۔ مساجد بند کرنے کی باتیں کرنے والا یہ طبقہ جان لے غلبہ اسلام میرا یا آپ کا فیصلہ نہیں، یہ اﷲ کا فیصلہ ہے، جو ازل سے ہے اور اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوگا، خوش بختوں میں یا بدبختوں میں؟
دنیا دارالعمل اور آخرت دار جزا ہے، تو مومنوں کو بدلہ جنت اور کافروں کو جہنم کی صورت میں ملے گا۔ دنیا امتحان گاہ ہے، اﷲ تعالی بعض اوقات مصائب اور بعض اوقات نعمتوں کے ساتھ امتحان میں ڈالتا ہے تا کہ یہ پتا چل سکے کہ کون شکر گزار اور کون ناشکرا، کون اطاعت گزار اور کون نافرمان ہے تو پھر وہی مالک و خالق انھیں قیامت کے روز بدلہ دے گا۔ اﷲ رب العزت کا فرمان ہے، " ہم آزمائش کے لیے ہر ایک کو برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے" الانبیاء/ 35۔ کورونا وائرس آج پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔
ہلاکتوں کی تعداد تھمنے کا نام نہیں لے رہی، دنیا بھر میں کورونا وباء کا شکار لوگوں کی مجموعی تعداد آٹھ لاکھ کا ہندسہ چھو رہی ہے، یہ وباء 38ہزار سے زائد انسانوں کو نگل چکی ہے، 30ہزار سے زائد افراد کی حالت غیر ہے۔ اٹلی میں ساڑھے گیارہ ہزار، اسپین میں پونے آٹھ ہزار، چین میں تین ہزار تین سو، امریکا میں تین ہزار دو سو، فرانس میں تین ہزار، انگلینڈ میں چودہ سو اور جرمنی میں ساڑھے چھ سو افراد کورونا کا شکار ہوکرموت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ پوری دنیا میں اب تک 38 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور صرف مذکورہ بالا سات ممالک میں مرنے والوں کی تعداد 30ہزار سے زائد ہے۔ یہ سب جدید دور کے ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک ہیں، ان میں سے کوئی ملک اسلامی نہیں، بڑی بڑی طاقتیں اپنے تمام تر وسائل سمیت ناکام و نامراد نظر آرہی ہیں۔
بیشک یہ وباء اﷲ تعالی ہی کی جانب سے ہمارا امتحان ہے، کیوں نہ ہو، ہم نے بھی تو کیسی کیسی نافرمانی اور بغاوت کے ذریعے اﷲ کے جلال کو طیش دلایا ہے، شام، فلسطین، کشمیر، افغانستان، برما، گوانتا ناموبے کے مظلوموں کی چیخ و پکار نے عرش الٰہی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اﷲ کی طرف سے بھیجے گئے ایک معمولی سے جرثومے نے بڑی بڑی طاقتوں کی پاور فل شخصیات کو تہہ خانوں میں گھسیڑ کے رکھ دیا ہے۔
آج دنیا کی سب سے طاقور فوج کے کمانڈر، امریکی وزیر دفاع جو ساری دنیا کو قید خانے میں بدلنے پر تلے ہوئے تھے، خود اپنے ہی گھر میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ آج لاس ویگاس میں موجود دنیا کا سب سے بڑا جوا خانہ بند ہوچکا ہے، ایمسٹرڈیم کی جسم فروشی کی گلیاں اور باررومز (جن کی سالانہ آمدن دس بلین ڈالرز سے متجاوز ہے) سنسان پڑے ہیں، پوری دنیا میں فحاشی و عریانی کے اڈے، جوئے خانے، بار رومز، ہم جنس پرستی کی آماجگاہیں، نائٹ کلبس، حرام خوراک کے ریسٹورنٹس پرتالے پڑے ہیں۔ جن معاشروں پر خواتین پر اسکارف لینے پر پابندی عائد کی گئی، اﷲ نے ان معاشروں کی خواتین کو ہی نہیں، مردوں کو بھی منہ چھپانے پر مجبور کردیا۔ جن معاشروں میں شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جاتا تھا، قرآن مجید کی بے حرمتی ہوتی تھی، جہاں نبی رحمت صلی اﷲ وعلیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنائے جاتے تھے، آج ان معاشروں کے غیرمسلم بھی بے وقت کی اذانیں دے رہے ہیں، کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے ہیں اور اسلام کی حقانیت کو تسلیم کررہے ہیں۔
دنیا بدبختوں کے ہجوم سے نکل کر خوش بختوں کے اجتماع میں شامل ہونے کے لیے بے تاب و بے قرار ہے، اب اہل مغرب اسلامو فوبیا کا جتنا چاہیں ڈھنڈورا پیٹ لیں، اس سیلاب کو نہیں روک پائیں گے، اسلام غالب آکے رہے گا، لیکن انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ایسی نازک صورتحال میں جب ہمیں رجوع الی اﷲ کی جانب تیز رفتاری سے بڑھنا تھا، مساجد کو زیادہ آباد کرنا تھا عین اس موقع پر مساجد بند کرنے کی باتیں سامنے آنا شروع ہوگئیں، اسلام بیزار ایک طبقے نے اس نازک موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے مساجد پرتالے لگوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، سندھ سرکار کسی حد تک ان کی باتوں میں آگئی اور مساجد بند کرنے کا اعلان کردیا۔ ہمارے حکمران طبقے نے شاید یہ سمجھ لیا کہ کورونا وائرس کوئی سیکولر وائرس ہے جس کا اصل ہدف صرف مسجد ہے، انھیں بند کردیا جائے۔
اﷲ پاک جزائے خیر دے علمائے ملت کو جنہوں نے آگے بڑھ کر اس لہر کا مقابلہ کیا اور اس بحرانی کیفیت میں قائدانہ کردار ادا کیا، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمان، قاری حنیف جالندھری، مولانا فضل الرحمان، جانشین شیخ الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان نور اللہ مرقدہ مولانا اسد اللہ کلیم، مولانا فضل الرحیم، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا فہیم الحسن تھانوی جیسے اکابرین ملت ڈٹ گئے اور مساجد بند نہیں ہونے دیں۔ یہی علمائے ملت ہی اس خوش بخت طبقے کے سرخیل ہیں جن کی بصیرت، فہم وفراست نے ہمیشہ مشکل گھڑی میں اس قوم کی رہنمائی کی اور اسے سیدھا راستہ دکھایا۔
مساجد کے حوالے سے اﷲ کا فرمان عالی شان بڑا واضح ہے، "اوراس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس نے اﷲ کی مسجدوں میں اس کا نام لینے کی ممانعت کردی اور ان کے ویران کرنے کی کوشش کی، ایسے لوگوں کا حق نہیں ہے کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں بھی ذلت ہے اوران کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے" (القرآن)۔ علمائے ملت نے اسی فرمان کی روشنی میں قوم کی رہنمائی کی اورمساجد کو بند نہیں ہونے دیا۔ انھیں علماء نے ہمیں بتایا کہ اسلام صرف فرد کا دین نہیں بلکہ سوسائٹی اور معاشرہ کا دین بھی ہے اور اس کے احکام کا تعلق صرف انسان کے شخصی معاملات سے نہیں بلکہ ایک مسلم معاشرہ کے اجتماعی معاملات سے بھی ہے لیکن جب وہ اسلام کے اجتماعی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اس لیے مساجد باقی معاملات سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ اسلام کے معاشرتی کردار کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کا دور ہمارے لیے آئیڈیل ہے کیونکہ اسلام کے کسی بھی حکم، قانون یا کردار کے تعین کے لیے انھی ادوار سے راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ دور نبویؐ اور دور خلافت راشدہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اجتماعی امور سے متعلقہ تمام معاملات ان مثالی ادوار میں مسجد میں ہی طے ہوتے تھے۔
آج جب پورے ملک میں کورونا وباء کی وجہ سے ہنگامی صورتحال برپا ہے، اس میں ہمیں مساجد کو مرکز بنانا ہوگا۔ لاکھوں محنت کش اور دیہاڑی دار بے روزگاری کا شکار ہیں۔ انھیں بھوک سے بچانے کے لیے مسجدوں کی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں اور ان محنت کشوں، دیہاڑی داروں، غرباء اور مساکین کی امداد کا سلسلہ فوری طور پرشروع کرنا ہوگا۔ لوگوں کے پاس خوراک نہیں ہے اور وہ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں، کراچی سے اس کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہمیں مساجد کے ذریعے دکھی انسانیت کی خدمت کرنی ہوگی۔ اس وقت حکومت لوگوں کو اس بات کی ترغیب دے رہی ہے کہ وہ سیلف آئسو لیشن میں چلے جائیں اس مقصد کے لیے بھی مساجد اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، لوگوں کو نفلی اعتکاف کی طرف مائل کیا جائے جن مساجد میں پانچ سو افراد کی گنجائش ہے وہاں پچاس افراد کو اعتکاف کی اجازت دے دیں، اس عمل سے مساجد میں بلا تعطل اﷲ کی عبادت بھی ہوگی اور سیلف آئسولیشن کے فارمولے پر عمل بھی ہوگا۔ مساجد بند کرنے کے بجائے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے انھیں آباد کیا جائے، اس سے اﷲ کی رحمت اترے گی اور اس وباء سے نجات ملے گی۔
 
Back
Top