Arab Conquest: the fall of Sassanid Empire by Alonso constantila

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
ساسانی سلطنت کو مسلمانوں نے کیسے فتح کیا؟
sasni.jpg

الونسو کونسٹنلا
مسلمانوں کی فتح سے قبل ساسانی سلطنت فارس کی آخری سلطنت تھی۔ اس کی بنیاد ساسان کی اولاد بابک کے بیٹے اردشیر اول نے 224ء میں رکھی۔ یہ سلطنت 651ء تک قائم رہی اور خلفائے راشدینؓ کے دور میں اس کا خاتمہ کر دیا گیا۔ 323 قبل مسیح میں سکندراعظم کی موت کے بعد اس کے ایک جرنیل سلوکس اول نکاٹور کے ہاتھ سطح مرتفع ایران کا کنٹرول آیا۔ اس نے سلوقی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کی حدود کم و بیش وہی تھیں جو آج کے اسلامی جمہوریہ ایران کی ہیں، البتہ اس سلطنت کے دورِعروج میں اس کی سرحدیں موجودہ ترکی سے پاکستان کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سلوقیوں پر اگرچہ ایران کے مقامی اثرات مرتب ہوئے لیکن انہوں نے اپنی یونانی و مقدونی اصلیت کو برقرار رکھا، اس لیے انہیں مقامی حکمران تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ 155 قبل مسیح تک، پارتھیوں نے سلوقی سلطنت کے تمام ایرانی علاقوں کو فتح کر لیا۔ پارتھی شمال مشرقی ایرانیوں کا ایک گروہ تھے، جن کی آمد اگرچہ اہلِ ایران کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھی، البتہ ان پر یونانی ثقافت کا بہت اثر تھا۔ یورپی دنیا میں انہیں سلطنت روم کے مخالفین میں شمار کیا جاتا ہے اور وہاں کی تاریخ کی کتابوں میں ان کی ثقافت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ پارتھی خود اردشیر اول کا شکار بنے، جو ایک فارسی تھا اور اس کا تعلق صوبہ فارس (جسے ابتدا میں پارس کہا جاتا تھا اور جس سے لفظ ’’پرشین‘‘ اخذ ہوا ہے) سے تھا۔ اپنے ساسانی آباؤاجداد کے نام پر اس نے اپنی سلطنت اور شاہی سلسلے کی بنیاد رکھی۔ ساسانی سلطنت کا اہم ستون زرتشتیت تھا۔ البتہ یہودیوں، مسیحیوں، مانویوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کا اہم کردار تھا۔ بعض ساسانی بادشاہوں نے یہودی اور مسیحی عورتوں سے شادیاں بھی کیں۔ 400 برس تک ساسانی سلطنت مشرق قریب یا جنوب مغربی ایشیا کی بڑی اور سلطنت روم کی حریف قوت رہی۔ اس کے علاوہ اس سلطنت نے چین کی تانگ بادشاہت اور برصغیر کی متعدد بادشاہتوں سے تعلقات قائم رکھے، جہاں اس کی مصنوعات اور ثقافت کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ مشہور بادشاہ: ساسانی سلطنت کے بانی اردشیر اول (180-240ء) نے تین امور کو خصوصی اہمیت دی؛ اختیارات کی مرکزیت، زرتشتیت بطور ریاستی مذہب اور رومیوں کا مقابلہ۔ ان تمام پر عمل درآمد کا مطلب بڑے پیمانے پر اصلاحات تھا۔ بالخصوص مرکزیت ایک بہت بڑا کام تھا کیونکہ پارتھیوں نے چھوٹی بادشاہتوں کے ساتھ وفاق کا اتحاد قائم کر کے اپنا نظام چلا رکھا تھا۔ زرتشتیت اگرچہ پہلے سے موجود تھی لیکن اسے ساسانی انتظامیہ میں بہت اہمیت دی گئی۔ ساسانی بادشاہ اپنے اقتدار کو مذہب کی بنیاد پر آفاقی قرار دیتے تھے۔ شروع میں یہی محسوس ہوتا تھا کہ روم کے ساتھ جنگ بے نتیجہ ہے۔ کبھی ایک اور کبھی دوسرے فریق کی جیت ہو جاتی اور یہ لڑائیاں میسوپوٹامیا اور آرمینیا میں ہوا کرتیں۔ بعدازاں شاپور اول نے جنگ کے خاتمے کی طرف قدم بڑھایا۔ شاپور اول (215-270ء) وہ بادشاہ ہے جسے ساسانی اختیارات ایران کے اندر اور عسکری طاقت رومیوں کے خلاف مستحکم کرنے کی وجہ سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ساسانی سلطنت کی زیادہ تر تاریخ میں میسوپوٹامیا اور آرمینیا میں اس کا مقابلہ رومیوں سے رہا جس میں باری باری دونوں فریق ایک دوسرے پر حاوی ہوتے رہے لیکن آخر کار فلپ دی عریب (رومی شہنشاہ، دورِحکمرانی 244-249ء) نے روم میں اپنے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے پسپائی اختیار کر لی اور ایک معاہدے کے ذریعے آرمینیا کے حوالے کر دیا۔ سلطنت روم کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے فارس کے بادشاہ نے حملے جاری رکھے اور روم کے بادشاہ ولیرین کو گرفتار کر کے رومیوں کو بہت بڑا دھچکا پہنچایا۔ شواہد کے مطابق شاپور شہر بسایا کرتا تھا جس سے شہری آبادی میں اضافے (اربنائزیشن) کا رواج چل نکلا۔ شاپور دوم (309-379ء) گویا ماں کے پیٹ ہی میں بادشاہ بن گیا تھا۔ اس کے باپ کو قتل کر دیا گیا تھا اور اشرافیہ نے پیدائش سے قبل بطور بادشاہ اس کا انتخاب کر لیا تھا۔ وہ ایک مضبوط رہنما ثابت ہوا اور رومیوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سلطنت کی حدود کو وسیع تر کر دیا۔ خسرو اول کا دور: خسرو اول (501-579ء) ساسانی بادشاہوں میں سب سے اہم اور مشہور ہے۔ وہ عسکری اور انتظامی دونوں محاذوں پر کامیاب رہا۔ ایرانی ادب میں اسے نمایاں مقام حاصل ہے۔ غالباً خسرو اول کی اصلاحات کی بدولت ساسانی سلطنت آئندہ 100 برس برقرار رہی۔ اس کی ٹیکس اصلاحات، جن میں ’’وزرگان‘‘ (ساسانی اشرافیہ) سے ان کے مخصوص علاقوں سے ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات واپس لے کر مرکز کے حوالے کر دیے گئے، سے مرکز مضبوط ہوا۔ اصلاحات کے ذریعے ریاست نے ٹیکس طے کر دیے جس سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کا قبل ازیں اندازہ لگانا ممکن ہوا۔ فوج میں بھی بہت سی اصلاحات ہوئیں جن کا بنیادی مقصد سلطنت کی وسیع سرحدوں کا تحفظ تھا۔ سلطنت کے مغرب میں رومی تھے، مشرق میں ہُن اور جنوب میں عرب۔ اس لیے ایسی فوج کی ضرورت تھی جو فوری جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ لہٰذا سلطنت کو چار علاقوں میں تقسیم اور ہر علاقے کا ایک جرنیل مقرر کر دیا گیا۔ جہاں تک رومیوں کا تعلق ہے، ان سے جنگ بے نتیجہ مگر قدرے ساسانیوں کے حق میں رہی کیونکہ رومیوں اور بازنطینیوں کو جرمن اقوام کی مداخلت نے مصروف کیے رکھا۔ خسرو کا سب سے نمایاں کام تلاشِ علم اور دانشگاہ گندیشاپور پر خصوصی توجہ ہے۔ عالمی تاریخ میںیہ یونیورسٹی حصولِ علم کے اہم ترین مراکز میں شمار ہوتی ہے۔ اس میں یونانی فلسفیوںکی کتب، ایران کی مذہبی کتب اور ہندوستانی تحاریر سمیت ہمسایہ ممالک کے علوم کو تلاش کر کے جمع کیا جاتا تھا ۔ یہاں کتب و تحاریر کا ترجمہ نہ صرف اس دور کی فارسی زبان میں بلکہ یونانی اور دوسری زبانوں میں بھی کیا جاتا تھا۔ یہ وہ علمی خزانہ تھا جو بعدازاں عربوں کو ملا اور پھر وہاں سے یورپی معاشرے تک پہنچا۔ یزدگرد سوم: آخری ساسانی بادشاہ یزدگرد سوم (624-651ء) کو محض 8 برس کی عمر میں تخت ملا۔ سلطنت میں طوائف الملوکی کے سبب اسے تاج دارالحکومت کے بجائے صوبہ پارس میں پہنایا گیا، جو ساسانی سلطنت کا اصل گھر بھی تھا۔ وہ اس وقت حکمران تھا جب مسلمان ساسانی سلطنت پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل جمع کرنے کی خاطر اسے ایک سے دوسرے صوبوں میں جا کر دوڑدھوپ کرنا پڑی۔ 629ء سے 630ء تک یمن، اومان اور بحرین ساسانی سلطنت کے ہاتھ سے نکل گئے، 633ء میں ساسانی کٹھ پتلی ریاست حیرا پر بھی قبضہ ہو گیا اور یوں عربوں اور ساسانیوں کے درمیان ایک بفر ریاست بھی ختم ہو گئی۔ 633ء میں مسلم سپاہ نے جنگ ذات السلاسل میں ساسانی فوج کو شکست دی۔ اس کے بعد مزید شکستیں ہوئیں۔ 634ء میں سواد (اسلامی دور میں جنوبی عراق کو دیا گیا نام) مسلمانوں کے کنٹرول میں آ گیا۔ 636ء میں ایک جنگ کے نتیجے میں ساسانی افواج عرب افواج کے ہاتھوں شکست کھا کر جنوبی میسوپوٹامیا حوالے کر بیٹھیں۔ آخر کار 637ء میں قادسیہ کی لڑائی ہوئی جس میں ساسانی جرنیل رستم فرخ زاد اور اس کی زیادہ تر فوج ماری گئی۔ بادشاہ دارالحکومت سے بھاگ کر ’’رے‘‘ پہنچا لیکن 640ء میں عرب افواج سلطنت کے مرکز تک پہنچ گئیں اور بادشاہ کو پھر بھاگ کھڑا ہونا پڑا۔ مشرقی صوبوں سیستان اور کرمان میں ہونے والی بڑی بغاوت کا نتیجہ بھی اس کی شکست کی صورت میں نکلا جس کے بعد مرو کے حکمران مرزبان نے مفرور بادشاہ کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ یزدگرد سوم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے مرو کے نزدیک ایک چکی والے نے 651ء میں قتل کر دیا۔ ساسانی سلطنت عرب مسلمانوں کے کنٹرول میں آگئی لیکن نئی اسلامی دنیا میں ایرانی ثقافت بھرپور انداز میں ابھر کر سامنے آئی۔ (ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا) بشکریہ ’’انشی انٹ ورلڈ‘‘
 
@intelligent086
ماشاءاللہ
کتنی سنہری تاریخ ہے
شیئر کرنے کا شکریہ
@Falak
 

Back
Top