Ashuri , baabli aur samairi jangen By Professor Maqbool Baig Badakhshani

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
آشوری، بابلی اور سمیری جنگیں ........ تحریر : پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی

jangen.jpg

آشوری اور بابلی بہت قدیم زمانے سے دجلہ اور فرات کے بالائی اور زیریں علاقوں میں رہتے تھے۔ ان کی حدود کو قطعی طور پر متعین نہیں کیا جا سکتا البتہ قدیم تاریخوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ آشوریوں کے مشہور شہر اُور، اُوروک یا ارخ اور نیپ پور تھے اور بابلیوں کے نامی شہر سپار، کیش، بابل اور اکد تھے۔ آخری شہر اکد کی مناسبت سے یہ لوگ بابلی کہلائے پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ آشوری اور بابلی ایک ہی قوم بن گئے۔ آشوری: یہ لوگ اپنے حکمران کو پاتسی کہتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ پاتسی امور شہر کو خدا کی مرضی کے مطابق انجام دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے پاتسی ایک قسم کے مطلق العنان بادشاہ تھے جو امور مملکت اور رسوم مذہبی کو اپنی مرضی کے مطابق تنظیم و ترتیب دیتے تھے۔ ایک آشوری پاتسی نے تین ہزار قبل مسیح میں ایلام پر چڑھائی کی اور اسے فتح کر لیا لیکن کچھ عرصہ بعد ایلام پھر آزاد ہو گیا۔ اکدی اور سلسلۂ سامی: 2800 ق م کے لگ بھگ اکد میں ایک سامی نژاد شخص مانیستتو پاتسی بن گیا۔ اس نے ایلام پر چڑھائی کی اور ایلام کے بادشاہ کو شکست دے کر اسیر کر لیا۔ اس سے ایلام اکدیوں کا باج گزار بن گیا۔ اکد کو روز بروز ترقی حاصل ہوتی گئی۔ سامی سلسلے کے سارگن نامی بادشاہ نے بہت سی فتوحات حاصل کیں اور اپنی سلطنت کو مغرب میں شام تک اور شمال میں کوہ زاگروس تک یعنی موجودہ کرمانشاہان تک وسعت دی۔ اس کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس کے حکم سے تمام ادب جو مذہب اور قوانین سلطنت سے متعلق تھا، سامی زبان میں منتقل کر دیا گیا۔ سارگن کے بعد بھی اکدیوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا، چنانچہ ایک کتبے سے جو ڈی مورگان نے دریافت کیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ اکدی بادشاہ نرام سین نے بھی بہت سی فتوحات حاصل کیں۔ 2500 ق م میں سومیر کو ازسر نو عروج ہوا۔ اس زمانے میں سامی زبان کی بجائے سومیری زبان نے رواج پایا۔ اس سلسلے کے دوسرے بادشاہ دونگی نے سامیوں سے تیراندازی کا فن سیکھا اور اپنے لشکر کو سکھایا۔ اس سے سمیری لشکر زیادہ تربیت یافتہ ہو گیا۔ دونگی نے آس پاس کے علاقے فتح کیے اور ایلام اور لولوبی (یعنی بغداد اور کرمانشاہان کے درمیانی علاقے) پر قبضہ کر لیا۔ اس سلسلے کے جو آثار دست یاب ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایلام اس زمانے میں کاملاً سومیری کی سلطنت کا جزو بن گیا تھا۔ سمیری سلطنت خاتمہ: 2280 ق م کے لگ بھگ ایلامی بادشاہ ’’کورونان خوندی‘‘ کو اقتدار حاصل ہوا اور اس نے سمیریوں کے شہر اُور کو فتح کر لیا۔ اس کے بعد کچھ اور شہروں کو بھی مسخر کیا اور سمیری سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ ایلامی بادشاہ ارخ کے دیوتا کے مجسمے کو جسے ’’نانا‘‘ یا ’’نہ نہ‘‘ کہتے تھے، ایلام اٹھا لے گیا۔ اس کے بعد تقریباً 60 سال تک سمیر ایلام کی سلطنت کا حصہ بنا رہا، یہاں تک کہ 2239 ق م میں سمیر میں ایک نیا سلسلہ شاہی قائم ہوا، جو سامی الاصل تھا۔ 2115 ق م میں ریم سین بادشاہ ایلام نے اس سلسلے کو بھی ختم کر دیا۔ اس کے بعد سمیریوں کی سلسلے کی حکومت پنپ نہ سکی۔ بالآخر سمیری اور اکد دونوں قومیں بعض دوسری قوموں میں خلط ملط ہو گئیں اور ان کا انفرادی وجود باقی نہ رہا۔ سمیریوں کا تمدن: سمیری تین خداؤں کو مانتے تھے۔ ان کے نزدیک ایک خدا زمین کا تھا، دوسرا آسمان کا اور تیسرا درۂ عمیق کا۔ یہ لوگ جنوں اور بھوتوں کے بھی قائل تھے۔ کاہنوں کو معاشرے میں بہت عمل دخل تھا۔ خداؤں کے ناموں پر انہوں نے معبد بھی بنائے تھے جہاں خزانے بھی رکھے جاتے تھے۔ سمیریوں کا بہت بڑا تاریخی کارنامہ ’’خط میخنی‘‘ کی ایجاد ہے۔ دوسرا کارنامہ سمیریوں کا یہ ہے کہ پہلے پہل انہوں نے ہی سلطنت کے قوانین مرتب کیے جو آگے چل کر حمورابی بادشاہ کے قوانین کا سنگ بنیاد بنے۔ ان کا تیسرا کارنامہ مختلف صنائع اور علوم و فنون کی ابتدا ہے۔ یہی علوم و فنون ایک قوم سے دوسری قوم میں منتقل ہوتے گئے اور کمال کو پہنچے۔ آثار قدیم کے ماہرین کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قدیم یونانیوں نے طب، علم ہیئت اور صنائع میں جو ترقی کی، اس کی بنیاد سمیریوں کے علم و فنون پر ہے۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق ہو رہی ہے اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سمیری تمدن دور دور تک یہاں تک کہ بلوچستان تک آ پہنچا تھا۔ سمیریوں اور اکدیوں کی حکومتوں کا زمانہ 3100 سے 1975ق م تک ہے۔ اس طویل زمانے میں اکد کے چار سلسلے اُوروک کے پانچ اور اُور کے تین سلسلے مشہور ہوئے۔ عروجِ بابل: محققین کے بیان کے مطابق سامی نژاد لوگ غالباً جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر اطراف میں پھیلتے رہے۔ یہ لوگ بہت توانا تھے اور موسم کی سختیوں کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ انہوں نے اپنی اسی صلاحیت سے فائدہ اٹھا کر سمیر، اکد اور آس پاس کے علاقوں پر اپنا تسلط جما لیا۔ یہاں ان لوگوں کے کئی شاہی سلسلے قائم ہوئے۔ ان کے بعد بابل میں اس قوم نے حکومت قائم کی جس نے بابل کو دنیا کی ایک عظیم مملکت بنا دیا اور اس کے اثر و نفوذ سے بابل کو عالم گیر شہرت حاصل ہوئی۔ سلسلۂ اول: حکومت بابل کے پہلے سلسلے میں 15 بادشاہ ہوئے۔ ان بادشاہوں میں حمورابی کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔شہر شوش کی کھدائی سے ایک کتبہ دستیاب ہوا ہے۔ اس کتبے پر حمورابی بادشاہ نے 282 فرامین کندہ کرائے تھے۔ یہ فرامین قانون، مذہب، تجارت، کشتی سازی، عورتوں کے حقوق، غلاموں کے حقوق اور دیگر معاشرتی مسائل سے متعلق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قوانین انسانی اصلاح کے قدیم ترین قوانین ہیں۔ کوہ زاگروس کے گردونواح سے ایک قوم کا سویا کاسی اٹھی جس نے بابل کی زمینوں کو تہ و بالا کیا۔ لارسا میں، جسے حمورابی نے فتح کیا تھا، آشوریوں نے بغاوت کی۔ خلیج فارس کے سواحل سے ایک شخص ایلیما ایلوم نے یلغار کر کے سمیر کا سارا علاقہ اپنے تسلط میں لے لیا۔ اہل آشور نے بھی حکومتِ بابل سے روگردانی کی۔ بالآخر ہتیوں نے حملہ کر کے 1806 ق م میں حکومت بابل کے اس سلسلے کو ختم کر دیا۔ سلسلۂ دوم: ہتیوں نے جو بابل میں حکومت قائم کی تھی اس کے متعلق زیادہ معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔ البتہ یہ پتا چلتا ہے کہ کاسی قوم، جو ایران کے مغربی علاقوں میں گزربسر کرتی تھی، بابل پر حملہ آور ہوئی اور وہاں سے ہتیوں کو نکالا۔ سلسلۂ سوم: کاسی یا کاسووہ لوگ تھے جو کرمان شاہان کے نزدیک کردستان کے پہاڑوں میں رہتے تھے۔ انہوں نے بابل فتح کر کے کاسیہ سلسلے کی بنیاد رکھی جو 1747 ق م سے 1173 ق م تک قائم رہی۔ اس زمانے میں بابل کی حریف سلطنت آشور برابر ترقی کر رہی تھی، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ آشوریوں نے بابل پر قبضہ کر لیا لیکن یہ قبضہ وقتی تھا۔ بابلی پھر سنبھلے اور آشوریوں کو شکست دے کر بابل سے آشوریوں کا تسلط ختم کر دیا۔ اس زمانے میں بابل اور مصر کی حکومتوں کے تعلقات بڑھے۔ ایلام، بابل کی ایک اور حریف سلطنت تھی۔ ایلام کے نامور بادشاہ، شوتروک ناخون تا، نے بابل پر حملہ کر کے اسے مسخر کر لیا اور اس کے ہاتھوں کاسیوں کا تیسرا سلسلہ ختم ہو گیا۔ اس فتح کے بعد شوتروک ناخون تا، شہر بابل کی تمام لطیف و نادر اشیا اٹھوا کر شہر شوش میں لے گیا، جو ایلام کا پایہ تخت تھا۔ سلسلۂ چہارم: 1170 ق م میں ایک اور سلسلے کی بنیادی پڑی۔ اس سلسلے کا معروف ترین بادشاہ بخت النصر اول تھا جس نے 1146 سے 1123 ق م تک حکومت کی۔ سلسلۂ پنجم: بابل میں حکومت کا پانچواں سلسلہ ایک شخص سیماش شی پاک نے قائم کیا۔ اس سلسلے کے صرف تین حکمران ہوئے جن کی مدت 1038 تا 1016 ق م قائم رہی۔​
 

Back
Top