Asia Mein Na Insafi Par Mabnii Muadey By Vardah Baloch

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
ایشیا میں ناانصافی پر مبنی معاہدے ۔۔۔۔۔ تحریر : وردہ بلوچ

asia.jpg


انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران طاقتور ممالک نے مشرقی ایشیا کے کمزور ممالک پر ذلت آمیز اور یک طرفہ معاہدے مسلط کیے۔ ان غیرمساوی معاہدات نے جاپان، چین اور کوریا میں قوم پرستی کی نمو میں کلیدی کردار ادا کیا۔

غیرمساوی معاہدوں میں سے ایک چین سے کیا گیا جہاں چنگ خاندان کی حکومت تھی۔ برطانوی سلطنت نے یہ معاہدہ 1842ء میں پہلی جنگ افیون کے بعد کیا۔ اسے معاہدہ نن جِنگ کہا جاتا ہے جس کے تحت چین کو اپنی 5 بندرگاہیں غیرملکی تاجروں کے لیے کھولنے، غیرملکی مسیحی مشینریوں کو اپنی سرزمین پر اجازت دینے اور مشنریوں، تاجروں اور دیگر برطانوی شہریوں کو ملکی قوانین سے مبرا قرار دینے پر مجبور کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ اگر کوئی برطانوی چین میں جرم کرے تو اس کا مقدمہ چینی عدالتوں میں نہیں چلے گا۔ علاوہ ازیں چین کو 99 برس کے لیے ہانگ کانگ کا جزیرہ برطانیہ کے حوالے کرنا پڑا۔

۔1854ء میں ایک امریکی جنگی بیڑے نے، جس کی قیادت کموڈور میتھیو پیری کر رہا تھا، طاقت کے استعمال کی دھمکی دے کر امریکی بحری جہازوں کے لیے جاپان تک رسائی حاصل کی۔ امریکا نے ٹوکوگاوا کی جاپان حکومت پر ''کنونشن آف کناگاوا‘‘ تھوپ دیا۔ اس کے تحت جاپان نے امریکی بحری جہازوں کو اپنی دو بندرگاہوں تک رسائی کی اجازت دی، اپنے ساحلوں پر تباہ ہونے والے بحری جہازوں کے امریکی عملے کو بچانے او محفوظ راستہ دینے کی یقین دہانی کرائی، اور شیموڈا میں مستقل امریکی قونصلیٹ کے قیام پر راضی ہوا۔ اس کے بدلے میں امریکا نے ایڈو (جاپان) پر بمباری نہ کرنے کی حامی بھری۔

امریکا اور جاپان کے مابین ''معاہدہ ہیرس‘‘ سے جاپانی علاقوں پر امریکی استحقاق مزید بڑھ گیا۔ یہ ''کنونشن آف کناگاوا‘‘ سے بھی زیادہ غیر مساوی تھا۔ اس دوسرے معاہدے سے امریکا کے تجارتی بحری جہازوں کے لیے مزید پانچ بندرگاہوں کو کھول دیا گیا۔ امریکی شہریوں کو معاہدے میں شامل کسی بھی بندرگاہ میں سکونت اختیار کرنے اور جائیداد خریدنے کی اجازت مل گئی۔ معاہدے کے تحت امریکیوں کے مقدمات جاپانی عدالتوں میں نہیں چلائے جا سکتے تھے، درآمدی اور برآمدی محصولات امریکا کے لیے انتہائی موافق تھے، امریکیوں کو معاہدے میں شامل بندرگاہوں میں گرجا گھروں کی تعمیر کی اجازت دی گئی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق معاہدے میں جاپان سے نوآبادی والا سلوک کیا گیا۔ ردعمل میں جاپانیوں نے 1868ء کی ''بحالیٔ میجی‘‘ کی تحریک میں کمزوری کا مظاہرہ کرنے والی ٹوکوگاوا شوگونیٹ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

۔1860ء میں چین برطانیہ اور فرانس سے دوسری جنگ افیون ہار گیا اور اسے ''معاہدہ تیانجن‘‘ تسلیم کرنا پڑا۔ اس کے فوری بعد امریکا اور روس سے بھی اسی طرح کے غیرمساوی معاہدے ہوئے۔ معاہدوں کی شقوں میں غیرملکی طاقتوں کے لیے متعدد نئی بندرگاہیں کھولنا، دریائے یانگتسی اور چین کے اندرونی علاقوں تک غیرملکی تاجروں اور مشنریوں کو رسائی دینا، چنگ حکومت کے دارالحکومت بیجنگ میں غیرملکیوں کو رہنے اور سفارت خانوں کے قیام کی اجازت دینا اور انتہائی موافق تجارتی رعایتیں شامل تھیں۔

اسی دوران جاپان اپنے سیاسی نظام میں جدت لا رہا تھا اور اس کی فوج نے چند ہی برسوں میں ملک میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس نے 1876ء میں کوریا پر ایک غیرمساوی معاہدہ تھوپ دیا۔ 1876ء کے جاپان کوریا معاہدے میں جاپان نے چین میں حکمران چنگ خاندان کے ساتھ کوریا کے باج گزاری تعلقات کا یک طرفہ خاتمہ کر دیا، تین کوریائی بندرگاہوں کواپنے کے لیے کھول دیا اور اپنے شہریوں کو کوریا میں مقامی قوانین سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ 1895ء میں پہلی چین-جاپان جنگ میں جاپان غالب رہا۔ اس فتح کے بعد مغربی طاقتوں کو یقین ہو گیا کہ وہ اپنے غیرمساوی معاہدات کو ابھرتی ہوئی ایشیائی طاقت پر لاگو کرنے میں زیادہ عرصہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ 1910ء میں جب جاپان نے کوریا پر قبضہ کیا تو وہاں کی جوسین حکومت اور مغربی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے متعدد معاہدے منسوخ کر دیے۔ چین کے ساتھ بیشتر غیرمساوی معاہدات دوسری چین-جاپان جنگ تک قائم رہے، جس کا آغاز 1937ء میں ہوا، دوسری عالمی جنگ کے خاتمے تک مغربی طاقتوں کے ساتھ زیادہ تر معاہدے ختم کیے جا چکے تھے۔ البتہ برطانیہ نے 1997ء تک ہانگ کانگ اپنے پاس رکھا۔ اس جزیرے کی چین کو واپسی کے بعد مشرقی ایشیا میں غیر مساوی معاہدات کا آخری باب بھی بند ہو گیا۔​
 

Back
Top