Athens Ke Qadeem Qawaneen By Ikhlaq Ahmad

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
ایتھنز کے قدیم قوانین ۔۔۔۔۔ تحریر : اخلاق احمد

ethans.jpg

ساتویں صدی قبل مسیح کا آخر اور چھٹی صدی قبل مسیح کا آغاز ایتھنز کے لیے مشکلات کا دور تھا۔ اس زمانے میں ایتھنز کے شہریوں کو ایک ایسی صورتحال کا سامنا تھا جس میں طبقہ امرا ء نے آزاد شہریوں کو غلام بنانا شروع کر دیا تھا۔ جب سے تجارت اور کاروبار کے لیے سرکاری روپیہ جاری کیا گیا تھا، عوام میں قرض لینے اور دینے کا رواج عام ہو گیا تھا لیکن بڑھی ہوئی شرح سود کی وجہ سے لوگوں کی مالی حالت تشویش ناک ہوتی چلی گئی۔ اسی وجہ سے لوگوں کو اس امر کا احساس ہونے لگا کہ قانونِ ریاست میں ایسی کوئی صراحت موجود نہیں جو اس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں معاون ثابت ہو سکے۔ بالآخر 621 قبل مسیح میں آرخن ڈریکو کو ایک ضابطہ قوانین مرتب کرنے کو کہا گیا جو قرض داروں کو قرض خواہوں کے بڑھتے ہوئے سود اور دیگر مظالم سے بچا سکے۔ آرخن ڈریکو نے جو ضابطہ مرتب کیا اگرچہ اس میں غیرجانبداری سے کام لیا گیا تھا لیکن یہ نہایت سخت تھا۔ اس میں ایسی سخت سزاؤں کی سفارش کی گئی جن کا نفاذ ناممکن تھا۔ ان سزاؤں کی سختی اس بات سے عیاں ہو جاتی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ضابطۂ قوانین کسی روشنائی کی بجائے خون سے لکھا گیا تھا۔ یہ قوانین ملک کی عام تشویش کا انسداد کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوئے۔ ان قوانین کے نفاذ سے لوگوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ آئندہ جو شخص کسی دوسرے کی صرف جان ہی نہیں بلکہ مال کی طرف بھی محض نظربد سے دیکھے گا وہ سزائے موت کا مستحق ٹھہرے گا۔ لہٰذا ان قوانین کی تدوین و نفاذ سے تشویش پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔ اس کا اصل سبب اہل ایتھنز کی غربت تھی جو انہیں قرض کے کاروبار میں ملوث ہونے پر مجبور کرتی تھی۔ ریاست کا قانونِ قرضہ نئے ضابطے کے تحت بھی نہایت سخت تھا اور ملک کے اکابرین و امراء اس کا نفاذ بھی بلا رو رعایت کرتے تھے۔ غریب کسانوں کے پاس بعض مرتبہ تخم ریزی کے لیے بیج نہ ہوتا تو انہیں روپے کی ضرورت پڑتی جس کے لیے وہ اپنی اراضی ساہوکاروں کے پاس رہن رکھ دیتے تھے۔ اس قرضے کی ادائیگی کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس لیے کہ اول تو سود کا تناسب 10 فیصد سے کم نہ تھا، پھر سود بالائے سود ہی لگایا جاتا تھا، جس کی وجہ سے ساہوکار جلد ہی اراضی کے مالک بن جاتے۔ اس کے بعد بے دخل کاشتکار ہی کو اس اراضی کا انتظام سپرد کر دیا جاتا لیکن نہایت سخت شرائط پر۔ انہیں قواعد و ضوابط پر اکتفا نہیں تھا۔ دیگر قوانین کی سختی اس سے بھی بڑھی ہوئی تھی مثلاً اگر کسی دیوالیے کا جسم اس کے قرضے کی ضمانت ہوتا تو قرض خواہ اسے غلام کے طور پر استعمال کر سکتا یا کسی غیر ملک میں فروخت بھی کر سکتا تھا۔ ڈریکو کے ضابطۂ قوانین مرتب ہونے کے تقریباً 26 سال بعد ایک نرم خو شخص سولن نے ایتھنز کے اس بحران کے لیے کچھ اقتصادی و سیاسی اصلاحات مرتب کیں جو ڈریکو کے مرتب کردہ قوانین سے کہیں بہتر تھیں۔
حکیم سولن ایتھنز قدیم کا ایک عظیم مدبر اور قدیم یونان کے 7 بڑے دانشمندوں میں سے ایک تھا۔ اس نے نہ صرف مندرجہ بالا صورتحال میں ایتھنز کی ریاست سے طبقہ امراء کا اثر کم کر کے حکومت کا ایک نظام متعارف کرایا بلکہ قوانین کا ایک نیا ضابطہ بھی مرتب کیا۔
سولن کے عہد تک ابھی یونان میں تاریخ نویسی یا سوانح عمری مرتب کرنے کا رواج نہیں ہوا تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں اس کی زندگی کے بارے میں جو لکھا گیا تھا وہ زیادہ تر اس کی نظموں سے حاصل کی گئی معلومات پر مبنی ہے۔ اس کی نظموں میں سے تقریباً 3 سو آج بھی محفوظ ہیں۔ سولن کا تعلق ایتھنز کے ایک معزز گھرانے سے تھا جو نہ بہت زیادہ امیر تھا اور نہ غریب۔ اس کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک تاجر تھا۔
سولن کو شہرت اس وقت ملی جب تقریباً 600قبل مسیح میں اہل ایتھنز نے جزیرہ سلامس پر قبضہ کے سلسلے میں اپنی ہمسایہ ریاست میگارا سے شکست کھائی۔ اپنے اہل وطن کی اس شکست پر سولن نے ایک نظم لکھی جو ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔
میں اپنا پیامی آپ بن کر حسین سلامس سے آیا ہوں، تقریر کی بجائے میں نے لفظوں کی سجاوٹ سے ایک نغمہ ترتیب دیا ہے۔
سولن نے یہ نظم عوام کے سامنے سربازار پڑھی۔ اس نظم میں اس معاملے کو ایک قومی مسئلہ قرار دے کر سولن نے اہل وطن کو غیرت دلائی اور انہیں اس خوبصورت جزیرے کو دشمن سے دوبارہ حاصل کرنے اور اس بے عزتی کا ازالہ کرنے کی ترغیب دی۔
حکیم سولن 595 قبل مسیح میں آرخن (مجسٹریٹ) منتخب کیا گیا اور اسے مختلف گروہوں میں مفاہمت اور ڈریکولائی قوانین (جن میں قرضہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں غلامی کو مباح قرار دیا گیا اور جن میں تقریباً ہر جرم کی سزا موت تھی) کی اصلاح کے لیے کہا گیا۔ سولن نے ایک نیا ضابطہ مرتب کیا اور ماسوائے قتل کی سزا کے تمام سزائیں دوبارہ ترتیب دیں۔ سولن کے ضابطۂ قوانین میں قرض داروں سے خصوصی رعایت سے کام لیا گیا لیکن اس کی اصلاحات کے بارے میں قدیم مؤرخین متفق نہیں۔ بعض کے مطابق جملہ قرضہ جات منسوخ کر دیے گئے۔ بعض کے نزدیک صرف سود میں کمی کی گئی اور ساتھ ہی زر رائج الوقت کی قیمت میں بھی تبدیلی کر دی گئی۔ اس طرح کہ ایک مینا (قدیم یونانی سکہ) میں بجائے ایک سو درہم کے صرف 73 درہم مقرر کر دیے گئے جس کی وجہ سے ہر ساہوکار کو 27 فی صد نقصان اٹھانا پڑا اور اتنے ہی فیصد قرض دار کو فائدہ پہنچا۔
گو ان قوانین میں عالمگیر سیاسی مساوات کا اصول تسلیم نہیں کیا گیا مگر یہ بات تسلیم کی گئی کہ محض طبقہ ادنیٰ کا فرد ہونے سے سیاسی حقوق کم نہیں ہوتے۔ یہی بات آئندہ زمانے میں جمہوریت کی بنیاد بنی۔
سولن کا ضابطۂ قوانین میں مرتب ہونے پر ہر طرف سے شکایات موصول ہونا شروع ہو گئیں۔ اگرچہ اپنے ضابطہ میں سولن نے سب کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں وہ کسی کو بھی مطمئن نہ کر سکا۔ امرا ء اس سے یہ امید رکھتے تھے کہ اس کی اصلاحات سابقہ قوانین میں تھوڑی بہت تبدیلی کریں گی جب کہ غرباء امید رکھتے تھے کہ وہ تمام ملکی زمینیں مساوی تقسیم کر دے گا یا ایسا کرنے کے لیے خود انصرام مملکت سنبھال لے گا لیکن سولن جو اگرچہ آزادی، انسان نوازی، جمہوریت اور انصاف کا دلدادہ تھا مگر مساوات انسانی کا خواہاں نہ تھا، نہ ہی وہ مطلق العنانی پسند کرتا تھا، اس کی وجہ سے اس نے زمینیں مساوی طور پر تقسیم کرنے کا کوئی قانون نہ بنایا، لہٰذا غرباء کو فائدہ پہنچنے کے باوجود بھی غرباء اس سے مطمئن نہیں ہوئے۔
اہل ایتھنز اگرچہ سولن کے مرتب کردہ ضابطہ قوانین سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوئے تھے مگر انہوں نے اس ضابطۂ قوانین کو اگلے 100 سال تک اپنائے رکھا اور لکڑیوں کی تختیوں پر نصب کردیا۔
نظام حکومت کے ضمن میں سولن کا اہم کارنامہ ایتھنز کی مجلس چہار صد کا قیام تھا جس میں آبادی کے چاروں طبقوں سے ایک ایک سو اراکین منتخب کیے جاتے تھے۔ یہ 4 سو اراکین مجلس ایک سال کے لیے حکومت کے داخلی، خارجی، مالیاتی اور انتظام امور کو سنبھالتے تھے۔ ایتھنز میں زمانہ ملوکیت اور امرا کے دور میں ہمیشہ ہی کسی نہ کسی قسم کی مجلس قائم رہتی تھی لیکن سولن کی قائم کردہ مجلس پہلی مرتبہ منتخب ارکان پر مشتمل تھی۔ سولن نے اس کے علاوہ تمام حکومتی عہدوں کو بھی انتخابی بنا دیا اور عوام کو عہدیداروں کا محاسبہ کرنے کا حق بھی دیا۔ اس کے علاوہ تمام شہریوں پر مشتمل عدالتیں قائم کیں اور ان کے مجسٹریٹوں کا بھی محاسبہ عوام کے اختیار میں رکھا۔ اس طرح دوسرے لفظوں میں سولن نے ایتھنز میں جمہوریت کے لیے راہ ہموار کر دی۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سولن کا زمانہ دراصل جمہوریت کی طرف ایک اہم قدم تھا۔​
 

Back
Top