Aurat Azadi March Bamuqabla Takreem e Niswaan

عورت آزادی مارچ بمقابلہ تکریم نسواں مارچ ۔ 8 مارچ بروز اتوار۔۔۔۔​

غیور شاہ ترمذی​

آج کل میڈیا میں آنے والے اتوار کے دن یعنی 8 مارچ کو منعقد ہونے والے عورت مارچ کے حوالے سے شدومد سے بحثیں شروع ہو چکی ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے زیر اہتمام ’’تکریم نسواں مارچ‘‘ کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ برس 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر منعقد ہونے والے عورت مارچ میں شامل کئی خواتین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر درج کچھ نعرے تنازع کی وجہ بنے رہے۔جیسا کہ ’میرا جسم میری مرضی‘ کے علاوہ ’اپنا کھانا خود گرم کر لو‘ اور ’طلاق یافتہ لیکن خوش‘ جیسی عبارت والے پلے کارڈز پر مچنے والا کہرام آج بھی بڑے بڑوں میں وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے۔ ہم پاکستانی بنیادی طور پر تنازعات میں الجھے رہنا پسند کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اگر کوئی تنازع نہ بھی ہو تو ہم خودبخود پیدا کر لیتے ہیں۔ میرا جسم میری مرضی‘ کے علاوہ ’اپنا کھانا خود گرم کر لو‘ اور ’طلاق یافتہ لیکن خوش‘ جیسے نعروں کے بارے میں ہر شخص نے اپنی مرضی کا مطلب نکالا ہوا ہے۔ کوئی انہیں فحاشی قرار دیتا ہے تو دوسری رائے رکھنے والے ایسی سوچ کے حامل افراد کو گھٹیا سوچ رکھنے والا قرار دیتے ہیں۔
جنہوں نے یہ نعرے لکھے وہ کہتے ہیں کہ میرا جسم میری مرضی کا مطلب ہے کہ عورت اپنے جسم پر اپنا اختیار اور آزادی چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اسے اپنے جسم سے متعلق فیصلے کرنے کا حق ہو، یہ چننے کا اختیار ہو کہ اس جسم کے ساتھ کیا کیا جائے، جو پہننا چاہے بنا ریپ کے، خوف کے ،اسے پہننے کا حق ہو۔ اس کا مطلب ہے کم عمری میں شادی کی مخالفت، خواتین کے ختنوں (فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن) کی مخالفت، اپنی مرضی سے شادی کا حق، شوہر کو جنسی زبردستی کرنے سے روکنے کا حق وغیرہ ہے۔ یہ حق کہ اسے روزگار یا تفریح کے مقام تک رسائی ہو اور یہ حق کہ اس کے جسم کو جنسی کنٹرول کی آڑ میں کوئی مسخ نہ کر سکے۔ اس نعرے کا بنیادی مقصد ’تولیدی صحت‘ سے متعلق آگاہی پھیلانا تھا۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ عورتیں زچگی کے دوران ہلاک ہو جاتی ہیں۔ اسی لئے عورت کے جسم پر اس کے حق کی بات کی گئی اور اسے صحت کی بنیادی سہولت تک رسائی کا نعرہ لگایا۔ایک عورت کا جسم کب اسے بچے پیدا کرنے کی اجازت دیتا ہے اور کب وہ بچے پیدا کرنے کا عمل روکنا چاہتی ہے، ایک عورت کو اپنی مرضی سے اپنے جسم سے متعلق فیصلے کرنے کا حق ہونا چاہیے۔
طلاق یافتہ لیکن خوش‘ کے پیچھے منطق تھی کہ پاکستان میں خواتین کی شناخت کو صرف ان کی شادی سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس سے ہٹ کر ان کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اس میں دلچسپی لیتا ہے، جب شادی یا طلاق کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو عورتوں کی بے چارگی یا ان کے دکھ پر ہی فوکس کیا جاتا ہے۔ حالانکہ آج کی کئی طلاق یافتہ عورتیں اپنی غیرموزوں شادی اور ہم سفر سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے علیحدگی اختیار کرنے کو نعمت اور آزادی کے معنوں میں لیتی ہیں۔ ہمارے یہاں کے لوگ طلاق کو حادثہ کہتے ہیں جبکہ عورت مارچ کی خواتین اس بارے میں ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرنا چاہتی تھیں۔ ایسا نقطہ نظر جس سے ہم عام طور پر واقف نہیں ہوتے۔ اس پلے کارڈ کی وجہ سے ہونے والی تنقید کو عورت مارچ کی خواتین منفی انداز سے نہیں دیکھتیں بلکہ اُن کا خیال ہے کہ ایسی تنقید بھی ایک مثبت بات ہے کیونکہ یہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اگر آپ اس پر بحث کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں ،کسی نہ کسی وقت پر شاید آپ کسی اچھے نتیجے پر پہنچ ہی جائیں۔
اپنا کھانا خود گرم کرلو کے حوالے سے عورت مارچ کے شرکاء کا کہنا ہے کہ یہ نعرہ ہم نے عورتوں اور مردوں کے صنفی کردار مقرر کر دینے کے جابرانہ رویہ کے خلاف لکھا تھا۔ ایسا کیوں طے کر لیا گیا ہے کہ کھانا بنائے گی بھی عورت اور گرم بھی وہی کرے گی۔ ہمارے معاشرے میں یہ روایت عرصہ دراز سے چلتی آ رہی ہے کہ گھر کے کام عورتیں کریں گی اور باہر کے کام مرد کریں گے۔ مرد کو اس بات کی تسلی ہوتی ہے کہ ایک عورت چاہے وہ ماں ہو، بہن ہو، بیوی ہو یا پھر بیٹی، میرے کام کرنے کے لئے موجود ہو گی جس کی وجہ سے وہ خود کے چھوٹے موٹے کام بھی نہیں کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی دادی نانی کو دیکھا ہے کہ وہ کام کاج کے لئے گھر سے باہر نہیں جاتی تھیں لیکن اب زمانہ تبدیل ہو رہا ہے۔ عورتیں ہر وہ کام کر رہی ہیں جو مرد کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو کچھ عورتیں مردوں سے زیادہ کام رہی ہیں۔ کئی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اکیلے اپنے گھر کو سنبھالا، نوکری بھی کی اور باہر کے کام بھی کیے۔ کھانا خود گرم کرلو کا مطلب یہ نہیں کہ کھانا خود بنا لو۔ اس پوسٹر سے مراد یہ تھا کہ کھانا بنا ہوا ہے اگر مرد خود اُٹھ کر اسے گرم کر لے گا تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہ پوسٹر کچھ لوگوں کو بہت بُرا لگا اور اس پوسٹر کے احتجاج میں باقاعدہ ایک مارچ نکالا گیا جس میں پوسٹر بنائے گئے کہ اپنا ڈوپٹہ خود پیکو کروا لو، بارتھ روم کی ٹائلیں خود لگا لو وغیرہ وغیرہ۔
عورت مارچ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے نعرے اس لئے لکھے گئے تاکہ لوگوں کو یاد دہانی کروائی جا سکے کہ عورتویں بھی انسان ہیں اور عورتوں کو بھی مردوں کی طرح ان کے جسم اور زندگی پر پورا اختیار ہونا چاہیے۔ ان نعروں کا ہرگزایسا مطلب نہیں ہے کہ کوئی ایسا ایجنڈا لایا جا رہا ہے جو ہماری ثقافت اور معاشرے سے بہت ہٹ کر ہو۔
دوسری طرف عورت مارچ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ عورت کے نام نہاد آزادی مارچ کی مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ اس کی آڑ میں مغربی تہذیب کے پروردہ کچھ لوگ حقوق نسواں کے نام پر بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں۔اُن کا دعویٰ ہے کہ خواتین کے بغیر اقوام اور معاشرے کی کامیابی ممکن نہیں۔ ہماری تربیت اس طرح ہوتی ہے کہ ہمارا معاشرہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں یہ حقیقت واضح ہے کہ عورت تہذیب کی بنیاد اور معاشرے کا ستون ہے۔ ماں ، بہن، بیٹی کو ان کا جائزمقام دلانا،ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہر فرد پر فرض ہے۔ عورت آزادی مارچ عورتوں کے حقوق کے لئے نہیں بلکہ ان کے تشخص کو مسخ کرنے کے لئے برپا کیا جا رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ 8مارچ کو سڑکوں پر نکلنے والی عورتیں با حیاء ،شریف گھرانے کی عورتیں نہیں ہیں بلکہ یہ مغرب کا تیار کردہ بے ضمیر گروہ ہے۔ یہ جعلی دانشور سامنے آ کر بتائیں کہ وہ کون سے حقوق ہیں جو اسلام نےعورت کو نہ دے کر زیادتی کی ہو ؟۔ سڑکوں پر بےحیائی و بےشرمی کا مظاہرہ کرنے والی عورتوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا انہوں نے اسلام سے پہلےوالی عورت کی تاریخ پڑھی ہے؟کیا وہ جانتی ہیں کہ اسلام سے قبل ہندو، عیسائی اور یہودی عورت کو نہ صرف “منحوس” سمجھتے تھے بلکہ “بچی” پیدا ہوتے ہی اُسے زندہ دفن کردیتے تھے۔ نہ انہیں جائیداد میں حق ملتا تھا اور نہ ہی معاشرے میں کوئی کردار۔ اس کے برعکس اسلام نے انہیں عزت دی، آزادی دی، منحوس نہیں کہا، زندہ دفنانے سے منع کیا، گھر کی ملکہ بنایا، قدموں تلے جنت رکھ دی، جائیداد میں بھی حقوق دلوائے، ہر روپ میں عزت بخشی، چادر، چار دیواری کا تحفظ فراہم کیا۔
عورت مارچ کی مخالفت میں ’’تکریم ِ نسواں مارچ‘‘ نکالنے والی مذہبی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں عورت کو اعلیٰ مقام سے نوازا گیا مگر یہودی و عیسائی آج بھی انہیں منحوس سمجھتے ہیں،کھلونا سمجھ کر اُن کے جسم سے کھیلتے ہیں، جائیداد میں کوئی حقوق نہیں دیتے، نائلٹ کلبز اور شراب خانوں میں ننگا نچواتے ہیں، فحاشہ بننے پر داد دیتے ہیں، شادی کی بجائے گرل فرینڈ بنانے کو ترجیح دیتے ہیں، عمر رسیدہ ہونے پر دھکے ے کر انہیں اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں۔ عورت پر ہونے والے ان مظالم کے باوجود بھی ان مغرب زدہ خواتین کو اعتراض ہے کہ اسلام نے انہیں حقوق نہیں دئیے؟۔ اگر اسلام نے عورت کو حقوق نہیں دئیے تو اسلام کے پیروکاروں کو یہ مغرب زدہ خواتین بتائیں کہ دنیا کا وہ کون سا مذہب ہے جس نے عورت کو اسلام سے زیادہ حقوق دئیے ہوں؟۔ تکریم نسواں مارچ کے منتظمین نے پاکستانی خواتین سے اپیل کی ہے کہ خدارا ان مغربی عورتوں کی طرح خود کو “جسم بیچنے کی دکان” مت بنائیں۔ آپ باعزت مسلمان خواتین ہیں، آپ ان مغربی بےحیا عورتوں کی طرح ہرگز نہیں ہیں کہ جنہیں جو مرد جب چاہے چھو کر اپنی ہوس کا نشانہ بناکے پھینک دیتا ہے۔ آپ مسلمان ہیں۔آپ کو اللہ( عزوجل) نے عزت دی ہے، آپ کو ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا اور آپ بھی یہی چاہتی ہیں کہ لوفر لفنگے لوگ آپ کو نہ گھورا کریں، اسلام نے آپ کو تحفظ دیا، اسلام میں آپ کو ہر کوئی نہیں چھو سکتا۔ اس لئے عورت آزادی مارچ کے نام پر قوم کو فتنوں میں مبتلا کرنے سے گریز کیاجائے۔حکومت سے بھی درخواست ہے کہ عورت آزادی مارچ کے نام پر خواتین کی تذلیل کو روکاجائے۔ عورت مارچ کرنے والی خواتین کس قسم کی آزادی چاہتی ہیں؟ ہم مادر پدر آزادی کے کسی صورت حق میں نہیں ہیں۔ میرا جسم میری مرضی کیسی آزادی ہے؟۔ دین اسلام نے چودہ سو سال قبل عورت کو اس کے تمام جائز حقوق دئیے۔ اسلام نے ماں کے سامنے “اُف “ تک نہ کرنے کا درس دیا۔ ہم خواتین کو وراثت، سیاست،اور معاشرے میں برابری کا حق دینے کے حامی ہیں اور اس کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔
اختتامیہ:۔
دو نوں اطراف کا نقطہ ہائے نظر پڑھ لینے کے بعد یہ ضروری ہے کہ حکومت فی الفور دونوں اطراف سے مذاکرات کرے اور معاملات کو سلجھانے کی طرف توجہ دے۔ بظاہر تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اگر دونوں اطراف سنجیدگی سے خواتین کے اصلی مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں تو امسال 8 مارچ کو ہونے والے ’’عورت آزادی مارچ یا تکریم نسواں مارچ‘‘ کے اغراض و مقاصد تقریباً ایک جیسے ہی ہیں۔ پاکستانی خواتین کے مسائل کے حل کی طرف اگر دونوں اطراف کے لوگ جدوجہد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو امسال 8 مارچ کو مشترکہ طور پر بھی منایا جا سکتا ہے جس کے لئے اصلی پوسٹر کارڈز کچھ یوں ہونے چاہئیں:۔
1.”مُجھے وراثت میں حصہ دو ”
2. “تعلیم میرا حق ہے”
3. “گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہا تھ بٹانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سُنّت ہے ”
4. “بہترین مُسلمان وہ ہوتا ہے جو عورتوں کے ساتھ اچھائی سے پیش آتا ہے ”
5.” مومن مردوں اپنی آنکھیں نیچی رکھو”
6. “عورت نہ صرف مرد کی بلکہ ریاست کی بھی ذمّہ داری ہے.”
7. “بآ عزت روزگار ہر عورت کا بُنیادی حق ہے”
8.”ماں کے قدموں تلے جنّت ہے ”
9. “بیٹیوں کو اچھی تعلیم اور تربیت دینے والا مرد جنّت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ساتھی ہے”
10. “قیامت کے دِن تُم سے عورتوں کے حقوق بارے پوچھ گچھ ہوگی”
11. “بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں ”
12۔ “ہمارا احترام سوسائٹی پر فرض ہے ”
13۔ “لڑکیوں کی اچھی تربیت جنت کی ضمانت ہے ”
14۔ “ہم مائیں، بہنیں ، بیٹیاں ۔ ۔ ۔ قوموں کی عزت ہم سے ہے ”
15۔ “ہم شو کیس میں رکھے کھلونے یا مارکیٹ میں بکنے والی کوئی چیز یا ٹی وی پر چلنے والا اشتہار نہیں بلکہ ایک قابل عزت زندہ جیتی جاگتی حقیقت ہیں ”
16):- ” ماں کو روز دیکھنا حج کا ثواب ”
17):- “بہن پر خرچ کرنا بہترین اجر ”
18):- “بیوی کو مسکرا کر دیکھنے سے مالک (اللہ پاک) کی خوشنودی ”
یقینا~ یہ ایسے نعرے ہیں کہ جن پر کسی بھی فریق کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور سب کے مقاصد بھی یقیناً یہی ہوں گے۔ اس لئے اگر دونوں اطراف کے پاس جھگڑا بڑھانے کا کوئی بیرونی ایجنڈہ نہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ آپس میں مل بیٹھیں اور مشترکہ مارچ منعقد کر کے متنازعہ اور مخالفانہ نعروں کی بجائے ایسے نعرے پوسٹر پر تحریر کریں، جن سے کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو اور خواتین کو حقوق دینے جیسے اہداف کی بھی تکمیل ہو سکے۔​
 
@Angelaa
حاصلِ بحث
موم بتی آنٹیوں کا مشن کچھ اور
جس پر سیر حاصل بحث ہو چکی ہے
شیئر کرنے کا شکریہ
 

دوجہد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو امسال 8 مارچ کو مشترکہ طور پر بھی منایا جا سکتا ہے جس کے لئے اصلی پوسٹر کارڈز کچھ یوں ہونے چاہئیں:۔
۔1.”مُجھے وراثت میں حصہ دو ”
۔2. “تعلیم میرا حق ہے”
۔3. “گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہا تھ بٹانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سُنّت ہے ”
۔4. “بہترین مُسلمان وہ ہوتا ہے جو عورتوں کے ساتھ اچھائی سے پیش آتا ہے ”
۔5.” مومن مردوں اپنی آنکھیں نیچی رکھو”
۔6. “عورت نہ صرف مرد کی بلکہ ریاست کی بھی ذمّہ داری ہے.”
۔7. “بآ عزت روزگار ہر عورت کا بُنیادی حق ہے”
۔8.”ماں کے قدموں تلے جنّت ہے ”
۔9. “بیٹیوں کو اچھی تعلیم اور تربیت دینے والا مرد جنّت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ساتھی ہے”
۔10. “قیامت کے دِن تُم سے عورتوں کے حقوق بارے پوچھ گچھ ہوگی”
۔11. “بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں ”
۔12۔ “ہمارا احترام سوسائٹی پر فرض ہے ”
۔13۔ “لڑکیوں کی اچھی تربیت جنت کی ضمانت ہے ”
۔14۔ “ہم مائیں، بہنیں ، بیٹیاں ۔ ۔ ۔ قوموں کی عزت ہم سے ہے ”
۔15۔ “ہم شو کیس میں رکھے کھلونے یا مارکیٹ میں بکنے والی کوئی چیز یا ٹی وی پر چلنے والا اشتہار نہیں بلکہ ایک قابل عزت زندہ جیتی جاگتی حقیقت ہیں ”
۔16):- ” ماں کو روز دیکھنا حج کا ثواب ”
۔17):- “بہن پر خرچ کرنا بہترین اجر ”
۔18):- “بیوی کو مسکرا کر دیکھنے سے مالک (اللہ پاک) کی خوشنودی
ان سے سیکولر ، لبرل ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہوتی اسلیئے یہ ممکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Back
Top