Aurat Ba'ikhtiar aur Mustahkam Pakistan By Salman Abid Column

عورت با اختیار اور مستحکم پاکستان ۔۔۔۔۔ سلمان عابد

کیا کوئی معاشرہ عورت کی سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت کو مستحکم کیے بغیر ترقی کر سکتا ہے تو یقینی طور پر جواب نفی میں ہو گا۔ کیونکہ وہی معاشرہ عملی طور پر مستحکم ہوتا ہے جہاں برابری کی بنیاد پر عورتوں او رمردوں کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ جو معاشرہ عورتوں کے بارے میں تعصب یا اسے کم تر کا درجہ دے کر آگے بڑھنا چاہتا ہے وہاں عورتوں کا استحصال کا امر یقینی ہوتا ہے۔ عورتوں کی ترقی کا مسئلہ محض پاکستان ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں عورتوں کی ترقی کا عمل مردوں کی ترقی کے مقابلے میں پیچھے ہے۔ بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک میں اگر عورتوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو وہ سیاسی، سماجی اور معاشی محرومی جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری جیسی ریاستوں کی ترجیحات کا ہے جہاں عورتوں کے مسائل کو بہت زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا اور نہ ہی ان کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں بھی دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح بہت سے اہم چیلنجز عورتوں کو اپنی ترقی کے حوالے سے درپیش ہیں۔ ان میں تعلیم، صحت، روزگار، ماحول، تحفظ، انصاف، غربت جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔ ان مسائل کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں۔ اول ملک میں عورتوں کے حق میں بہت سی موثر قانون سازی موجود ہے یا بعض قوانین میں سقم بھی ہیں لیکن مجموعی طور پر ان قوانین پر عمل در آمد کا نظام یا نگرانی کے عمل کا کم زور ہونا۔
دوئم وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بجٹ میں عورتوں کا محدود حصہ یا جو بجٹ ہوتا بھی ہے اس میں بھی کٹوتی جیسے مسائل کا ہونا۔ سوئم عورتوں کے لیے بغیر کسی ڈر اور خوف کے سازگار ماحول کا نہ ہونا اور عدم تحفظ یا تشدد کا احساس، چہارم ادارہ جاتی عمل کا کمزور ہونا یا اداروں تک عورتوں کی محدود رسائی، پنجم سیاسی، سماجی اور مذہبی رویہ کی بنیاد پر تعصب اور تفریق کے مسائل یا ان کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل نہ کرنا، ششم قومی مسائل کی درجہ بندی میں ترجیحات کاغیر اہم ہونا، ہفتم قانونی تحفظ اور انصاف کے حصول میں رکاوٹوں کا ہونا اور عورتوں کی کمزور معاشی حیثیت اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی استحصالی رویے اہم ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہم عملی طور پر عورت کو با اختیار بنانا چاہتے ہیں۔ با اختیار بنانے سے ہماری مراد کیا ہے۔ عملی طور پر جب عورت کے با اختیار ہونے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد اس کی تعلیم، صحت، روزگار، اپنے فیصلے خود کرنے، تحفظ جیسے امور ہوتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی سطح پر عورتوں سے جڑے تعلیم، صحت، روزگار کے سرکاری اعداد و شمار کودیکھیں تو ہم عالمی اور جنوبی ایشائی درجہ بندی میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ اگرچہ ہم نے عالمی سطح پر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اپنی کمٹمنٹ پیش کرتے ہوئے کئی عالمی ماہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں، ان دستخط کا مقصد دنیا کو اس بات کی یقین دہانی کرانی ہوتی ہے کہ ہم ریاستی وحکومتی سطح پر عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت کو یقینی بنا کر ان کو ترقی کے قومی دھارے میں شامل کریں گے۔

عورتوں کی ترقی کے حوالے سے ایک فکری مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ شاید عورتوں کے حق یا تحریک کا بات کرنے کا مقصد کسی عالمی ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ حالانکہ جو مسائل اٹھائے جا رہے ہیں وہ بنیادی نوعیت کے حقوق سے جڑے ہیں اور ان کی ضمانت ہمارا دین اور قانون دیتا ہے۔ 1973 کے آئین میں بنیادی حقوق کا باب اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ہم قانون کے پیش نظر عورتوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔

عورتوں کی ترقی کے تناظر میں پاکستان بہت پیچھے کی طرف نہیں کچھ آگے بھی بڑھا ہے۔ اب ہماری عورتیں پاکستان میں موجودہر شعبہ میں ایک فعال اور متحرک فریق کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ سیاست کی سطح پر عورتوں کی فعالیت بہت سود مند ہے اور فیصلہ ساز اداروں میں ان کی موجودگی یقینی طو رپر عورتوں کے تحفظ کے عمل کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جس نے قومی ترقی کے اہداف 2015۔ 30 پر عالمی ماہدے کے تحت دستخط کیے ہوئے ہیں۔

اس معاہدے کے تحت ہمیں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل میں عورتوں کی صورتحال کو آج کی صورتحال سے موثر انداز میں آگے بڑھانا ہے۔ لیکن یہ کام تن تنہا ریاست یا حکومت نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ریاست، حکومت سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر عورتوں کے حقوق کی ایک ایسی جنگ لڑے جو عملی طو رپر عورتوں کو با اختیار اور ان کو مستحکم کرکے قومی ترقی کے دھارے میں حصہ دار بنائے۔

پنجاب میں ریاستی و حکومتی سطح پرعورتوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ عورتوں کے حقوق سے متعلق صوبائی وزیر بیگم آشفہ ریاض فتیانہ، صوبائی سیکرٹری ارم بخاری اور صوبائی کمیشن برائے حقوق نسواں فوزیہ وقار کی موجودگی میں عورتوں کے حقوق کی بحث نہ صرف درست سمت میں آگے بڑھی ہے بلکہ کئی نئی قانون سازی اور پہلے سے موجود قانون سازی پر عملدرآمد کے نظام کو بھی موثر اور شفاف بنایا جا رہا ہے۔ بقول صوبائی وزیر آشفہ ریاض اور سیکرٹری ویمن ڈولیپمنٹ ارم بخاری کے حکومت کی بڑی توجہ عورتوں کو معاشی سطح پر زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہے۔

پنجاب میں صوبائی اسمبلی میں عورتوں کا اپنا پارلیمانی فورم بھی ہے جس کا مقصد عورتوں سے جڑے مسائل پر کام کرنا ہے اسے زیادہ فعال ہونا چاہیے۔ اس لیے اب وقت ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت اور ان سے جڑے ذمہ داران عورتوں کو بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے موثر عملی اقدامات کی طرف پیش رفت بڑھائیں۔ اس کے لیے یقینا حکومت، ادارے اور سول سوسائٹی کے درمیان مضبوط اشتراک کار کی ضرورت ہے۔

اصل مسئلہ عورتوں سے جڑے مسائل پر ایک بڑی سیاسی، سماجی اور معاشی سرمایہ کاری کا ہے۔ سرمایہ کاری سے مراد ریاستی او رحکومتی ترجیحات میں عورتوں کے مسائل بنیادی اہمیت کے ہونے چاہیے۔ یہ کام محض لفاظی یا عورتوں کے عالمی دن تک محدود ہونے کی بجائے ہماری قومی سیاست اور اس میں ہونے والے اہم فیصلوں میں بھی موثر نظر آنا چاہیے۔ تعلیم، صحت اور معاشی روزگار جیسے بنیادی نوعیت کے سے جڑے مسائل پر عملی طور پر ایک بڑی ایمرجنسی لگانی چاہیے۔

کیونکہ پنجاب جیسے بڑ ے صوبے میں بھی تعلیم اور صحت جیسے معاملات پر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر عورتوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو لڑکیاں پڑھ لکھ کر عملا میدان میں آ رہی ہیں ان کے لیے معاشی مواقع کا نہ ہونا خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مائیکرو انٹرپنیور شپ جیسے پروگرام او را س میں زیادہ سے زیادہ عورتوں کو دیہی اور چھوٹے شہروں کی سطح پر معاشی سہولیات فراہم کرکے ہی ہم ان کو مستحکم کر سکتے ہیں۔

حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عورتوں کے حوالے سے سماج میں موجود مختلف طرز کے سیاسی، سماجی اور معاشی تعصبات کے خاتمہ میں شعور کی بیداری میں موثر کردار ادا کریں۔ کیونکہ قانون سازی اور وسائل کے باوجود اگر معاشرے کے مجموعی مزاج میں عورتوں کے لیے احترام اور ان کی اہمیت کا احساس اجاگر نہیں ہو گا تو عورتوں کی مثبت حیثیت کا عمل بھی موثر نہیں ہو سکے گا۔

یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ پاکستانی عورت محدود وسائل، نامساعد حالات اور بڑی مشکل صورتحال میں کام کر رہی ہیں۔ یہ بنیادی نکتہ سمجھنا ہو گا کہ عورت کی ترقی محض عورت تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کا براہ راست اثر خاندان او رمعاشرے سے جڑا ہوتا ہے اور اس پر ہم سب کی توجہ درکار ہے کیونکہ یہی عورتوں کے حقوق کا بیانیہ ہونا چاہیے جو ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت بن سکے۔​
 

@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top