عورت کی حرمت ۔۔۔۔۔۔ عباس اطہر قاضی

لاہور کے اس بازار کے بارے میں مشہور ہے کہ جب سابق ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے ناچ گانے پر پابندی اور بالکونیوں پر پردے گرانے کا فیصلہ کیا تو انہیں مشورہ دیا گیا کہ ایسا نہ کریں، ابھی یہ کاروبار ایک مخصوص علاقے تک محدود ہے ایسا نہ ہو پورے شہر میں پھیل جائے اور پھر آپ کو گھر گھر پردے گرانا پڑیں۔ ڈکٹیٹر ضیاء الحق تو دار فانی سے کوچ کر گئے مگر اپنے پیچھے ایسی کہانی چھوڑ گئے کہ آج کی عورت کل کی ماں سوالیہ نشان بنے چوراہے پر کھڑی ہے اور عورت مارچ کی شکل میں ہم سے سوال کرتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کی حیثیت اور باعزت مقام کیا ہے؟ عورت مارچ تو ختم ہو گیا مگر اپنے پیچھے بہت گہرے، فکر انگیز، عقل و دانش کے سوالات چھوڑ گیا۔ آج کی عورت جو آزادی مانگ رہی ہے اور جس انداز میں آزادی کا تیا پانچہ کیا جا رہا ہے اور اس کے مقابل قوتیں عورت کی حیا، عزت و تکریم، تحفظ کا حصار کئے کھڑی ہیں۔ یہ کہانی صرف ماروی سرمد یا خلیل الرحمٰن قمر کے گرد ہی نہیں گھومتی بلکہ ہمارے تقسیم در تقسیم ہونے والے معاشرے کی ایک ایسی کتھا ہے جس کا انجام و اختتام کوئی نہیں جانتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چند ہزار کھاتے پیتے گھرانوں کی صاحبِ حیثیت خواتین جس انداز میں عورت کے حقوق کی دعویدار بن رہی ہیں اور حقوق کے نام پر جو زبان نعروں کی شکل میں استعمال کی جا رہی ہے کیا یہ پاکستانی خواتین کی سوچ اور نمائندگی کرتی ہیں؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انتشار، تقسیم در تقسیم شدہ ہمارا معاشرہ اس کی قیمت ادا کرنے کو بھی تیار ہے یا نہیں؟ کہنے کی حد تک تو یہی کہا جاتا ہے کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر شاید یہ محاورہ ماضی کا قصہ پارینہ بن چکا ہے کیونکہ آج کی عورت اتنی طاقتور اور خود مختار ہو چکی ہے کہ وہ اپنے والدین، بہن بھائیوں،خاوند سے کھل کر اپنے دل کی بات تو کر سکتی ہے اور حالات کے مطابق سوال در سوال کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ اگر اس کی بات دلیل کے ساتھ نہ سنی جائے تو وہ مضبوط سے مضبوط تر خاندانی نظام کے خلاف بغاوت پر آمادہ بھی نظر آتی ہے۔

اسلامی تعلیمات میں حقوقِ نسواں اور عورت کی حرمت کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور احترام نسواں اس کا لازمی ترین جزو قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں پاکیزہ عورت کی بات ہوتی ہے تو وہاں پاکباز مرد کی پاکیزہ نگاہوں کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ بےپردگی، بےحیائی، اپنے جسم کی نمائش کی ممانعت ہے۔ عورت کے حقوقِ وراثت، حق مہر سے لے کر گواہی تک کا تعین کر دیا گیا ہے اور بیٹی کی تعلیم کو ایک عالم کی تعلیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ صالح پاکیزہ مائیں، نیک پارسا اور تعلیم یافتہ نسل کی بنیاد قرار دی گئی ہیں ۔ آج سوسائٹی کی چند ہزار خواتین آزادی کے نام پر جو آزادی مانگ رہی ہیں اور جس انداز میں عورت مارچ کی رنگینیاں بڑھائی جا رہی ہیں اور سلوگن کے نام پر جو زبان اور انداز اختیار کیا جا رہا ہے ایک نظر آپ بھی پڑھ لیں:’’میرا جسم تمہاری مرضی، اب خوش ہو! میرا لباس نہیں تمہاری سوچ چھوٹی ہے، نکاح نامہ میرا، شرائط بھی میری، گالی نہیں خودمختاری دو، عورت آزاد، سماج آزاد، تمہاری سوچ برہنہ ہے میں نہیں، عورت مرد نہیں فرد بننا چاہتی ہے۔ اب ہماری تمہاری کھلی جنگ ہے، جرگہ سسٹم ختم کیا جائے، ہم ہیں گنہگار عورتیں‘‘، ایک خاتون نے تو اپنے ہی سگے بھائی کے بارے میں اس حد تک قابل اعتراض بینر اٹھا رکھا تھا کہ قلم لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ جاتے ہیں۔ عورت مارچ کی متوالی معزز خواتین اور ان کے ہمراہ جھومتے ہوئے مردوں سے گزارش یہ ہے کہ اپنے گھروں کی کہانیاں سڑکوں پر نہ لائیں، جگ بیتیاں اور آپ بیتیاں پردوں میں ہی رہنے دیں تو کم از کم اس کھوکھلی، دوغلی اور منافقت پر مبنی سوسائٹی کا کچھ بھرم تو باقی رہ جائے۔ عورت مارچ کے مقابل حیا مارچ کے سلوگن کچھ اس طرح تھے: ’’عورت سراپا پردہ، عورت کا دوسرا نام حیا، مجھے گھر دار، پردہ دار ہونے پر فخر ہے، ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں، قوموں کی عزت ہم سے ہے، میں مسلمان ہوں اور اسلام میرے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، حسن ہے تو شرم کیا؟ اللہ و رسول کے حکم کی کھلی نافرمانی، عورت بازاروں کی رونق نہیں گھر کی ملکہ ہے، عورت کے جسم کی برہنگی برائی کو دعوت دیتی ہے، صالح عورت قیمتی متاع، میرا بھائی مجھے تحفظ دے کیونکہ میں بہن ہوں، قرآن میرا راستہ‘‘۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ عورت مارچ کی سوچ کیا ہے اور حیا مارچ کی حامی خواتین کیا چاہتی ہیں اور آپ نے اس میں سے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔ عورت کی حرمت بڑی قیمتی ہے اس ذی روح کو اتنا ارزاں نہ بیچئے کہ کل آپ کسی کو منہ دکھانے کے بھی قابل نہ رہیں۔​
 
۔

اسلامی تعلیمات میں حقوقِ نسواں اور عورت کی حرمت کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور احترام نسواں اس کا لازمی ترین جزو قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں پاکیزہ عورت کی بات ہوتی ہے تو وہاں پاکباز مرد کی پاکیزہ نگاہوں کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ بےپردگی، بےحیائی، اپنے جسم کی نمائش کی ممانعت ہے۔ عورت کے حقوقِ وراثت، حق مہر سے لے کر گواہی تک کا تعین کر دیا گیا ہے اور بیٹی کی تعلیم کو ایک عالم کی تعلیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ صالح پاکیزہ مائیں، نیک پارسا اور تعلیم یافتہ نسل کی بنیاد قرار دی گئی ہیں ۔ آج سوسائٹی کی چند ہزار خواتین آزادی کے نام پر جو آزادی مانگ رہی ہیں اور جس انداز میں عورت مارچ کی رنگینیاں بڑھائی جا رہی ہیں اور سلوگن کے نام پر جو زبان اور انداز اختیار کیا جا رہا ہے ایک نظر آپ بھی پڑھ لیں:’’میرا جسم تمہاری مرضی، اب خوش ہو! میرا لباس نہیں تمہاری سوچ چھوٹی ہے، نکاح نامہ میرا، شرائط
Hmmm
 

@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top